دکھیاروں کا یار
چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ عدالت عظمی سے بیان جاری کیا ہے کہ ...
چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ عدالت عظمی سے بیان جاری کیا ہے کہ ''اسلام کے قانون قصاص و دیت کو جبراً استعمال کر کے قاتل سزائے موت سے بچ جاتے ہیں، کوئی بھی دولت مند مقتول کے ورثا کو پیسہ دے کر خاموش کروا دیتا ہے اور قاتل پھانسی کی کال کوٹھری سے باہر آ جاتاہے۔''
حال ہی میں منڈی بہائو الدین میں ایسا ہی صلح نامہ ہوا ہے جہاں بڑے گھرانے کے قاتل کو قصاص و دیت کا سہارا دے کر آزاد کروایا جا رہا ہے۔ اسی طرح کا ایک بہت لرزہ خیز قتل کراچی میں بھی ہوا تھا۔ جس میں ایک کروڑ پتی بڑے گھرانے کے اعلیٰ ترین اثر و رسوخ والے کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر شاہ زیب خان کو نہایت بیدردی سے گولیاں مارکر قتل کر دیا تھا۔ مقتول شاہ زیب کے والد اورنگ زیب کراچی پولیس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ قتل کی واردات سے پہلے ڈی ایس پی نے ''قاتل شاہ رخ جتوئی کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کراسے کہا کہ ''بیٹا غصہ تھوک دے اور میرے بیٹے کو معاف کر دے'' مگر قاتل پر جنون سوار تھا، خون آنکھوںمیں اترا ہوا تھا اور پھر جتوئیوں اور تالپوروں کے بیٹوں نے شاہ زیب کا جسم گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جب قاتل گولیاں مار کے جا رہے تھے تو تالپور نے جتوئی سے کہا ''ابھی مقتول سانس لے رہا ہے'' اور پھر مزید گولیاں برسائی گئیں۔ سانس کی ساری ڈوریاں کاٹ دی گئیں۔
کراچی پولیس کا پیٹی بند افسر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اپنے مقتول بیٹے کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے اپنے ہی محکمے کے ساتھیوں کے سامنے گھگھیا رہا تھا اور ''بیچارے'' پولیس والے مجبور و معذور اپنے ساتھی افسر اورنگ زیب کو دیکھے چلے جا رہے تھے۔ پھر اسلام آباد سے ممبر قومی اسمبلی نبیل گبول آئے جو ڈی ایس پی اورنگ زیب کے ہم زلف ہیں انھوں نے ''اوپر'' کہہ سن کر ایف آئی آر درج کروائی۔
اس سنگدلانہ قتل کے خلاف پوری سول سوسائٹی سڑکوں پر آ گئی، مقتول شاہ زیب کے دوستوں نے حوصلہ و ہمت سے کام لیا، عینی شاہدین نے مقتول کے حق میں گواہیاں دیں اور بے پناہ خوف و جبر کے باوجود گواہ مضبوطی سے کھڑے رہے۔
ادھر قاتلوں نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے، بے دریغ پیسہ بہنا شروع ہو گیا، قاتل شاہ رخ قتل کی رات ہی ملک سے فرار ہو کر دبئی پہنچ گیا۔ ادھر کراچی کی سڑکوں پر شور بڑھنے لگا۔ دیواریں نعرہ زن ہوئیں تو پولیس نے نامزد ملزمان تالپور اور لاشاری کو گرفتار کر لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے سوموٹو ایکشن لے کر ملزمان کے ورثا اور اعلیٰ سرکاری افسران کو بمعہ رپورٹ اپنی عدالت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن سے عام لوگوں کو اور سول سوسائٹی کو بڑا حوصلہ ملا۔ مقتول کے گواہان بھی ڈٹ گئے، مقدمہ چلا بالآخر قاتل شاہ رخ جتوئی اور تالپور کو پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ دیگر مجرموں کو بھی قید کی سزا سنائی گئی مقدمے کے فیصلے پر قاتل فتح کے نشان بنائے ہنستے اچھلتے کودتے ہوئے عدالت سے باہر آئے وہ کہہ رہے تھے ''جیت گئے، جیت گئے'' گویا عدالت نے انھیں موت نہیں حیات عطا کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ ساری دنیا نے یہ ہولناک منظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا جہاں سفاک قاتل نوجوان ہنستے گاتے وکٹری کے نشان بناتے اپنی جیت کے نعرے لگا رہے تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد مزید خزانوں کے منہ کھول دیے گئے مقتول کے ورثاء پر دبائو مزید بڑھا دیا گیا۔سندھ بلوچستان کے بڑے قبائل کے سردار اکٹھے ہو گئے۔ وہی قبائل جن کے خاتمے کا اعلان ہمارے نبی محمدؐ نے میدان عرفات میں حجۃ الوداع کے خطبے میں کردیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا ''آج سے میں تمام قبائل کی عظمتوں کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے قبیلہ قریش کی عظمتوں کو اپنے پائوں تلے روندتا ہوں'' مگر افسوس کہ ہم آج بھی قبائلی عظمتوں اورشان و شوکت کے علم بلند کیے ہوئے ہیں، جنھیں رحمت عالم نے محض پہچان قرار دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہو گی، سوائے تقویٰ کے۔ شاید ایسی ہی ظلم و بربریت کی فضاء ہو گی۔ ایسا ہی اونچ نیچ کا مظاہرہ ہو گااور حبیب جالب نے محمدؐ کی نعت لکھتے ہوئے یہ مصرعے بھی لکھے تھے ، ملاحظہ فرمائیں۔ مسدس کی صورت کہی گئی نعت سے اقتباس
ہماری زندگی پر کس قدر احسان ہے ان کا
ہمارے سامنے خود وہ ہیں اور قرآن ہے ان کا
چراغ راہ ہر منزل پہ ہر فرمان ہے ان کا
مگر ہم ان کی تعلیمات سے غافل ہوئے ایسے
خدا کو بھول جائے عیش و عشرت میں کوئی جیسے
وہی خون غریباں سے دیے جلتے ہیں محلوں میں
وہی فرعون ناز و نعم سے پلتے ہیں محلوں میں
وہی خنجر گلوئے صدق پر چلتے ہیں محلوں میں
زبانیں کھینچ لی جاتی ہیں سچی بات کہنے پر
وہی تعزیر کہنہ رات کو ہے رات کہنے پر
دنیا کے عظیم انقلابی حضرت محمدؐ تو اپنا کام کر گئے اور لوگوں کو گواہ بناکر پوچھا ''اے لوگو! کیا میں نے خدا کا پیغام تم تک پہنچادیا؟'' تو لوگوں نے جواب دیا ''نہ صرف پہنچادیا بلکہ اس کا حق ادا کردیا''
اب ہمارے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنا حق یوں ادا کردیا ہے کہ ''ہم (یعنی عدالت عالیہ) قصاص و دیت کے تحت کیے گئے صلح نامے کو ہر لحاظ سے پرکھیں گے، جانچیں گے اور اس بارے میں فیصلہ دیں گے۔ چیف جسٹس صاحب کے بیان سے معاشرے پر چھائے مایوسی، خوف و ہراس کے بادل چھٹ سے گئے ہیں، کیونکہ انصاف ہی تمام مسائل کا حل ہے۔