خوبصورتی بھی برائی میں شامل
خوبصورت علاقوں اور انسانوں، پرندوں، مویشیوں، پھولوں، پھلوں، درختوں، مچھلیوں کو انسان شروع سے اہمیت دیتا آیا اور یہ...
خوبصورت علاقوں اور انسانوں، پرندوں، مویشیوں، پھولوں، پھلوں، درختوں، مچھلیوں کو انسان شروع سے اہمیت دیتا آیا اور یہ چیزیں انسان کی توجہ کا مرکز بنیں۔ آج بھی انڈونیشیا کا ایک جزیرہ ہے جس کا نام ہی ''پھولوں کا جزیرہ'' ہے۔ وہاں کے مرد اور عورتیں سب اپنے جسم کو پھولوں سے ڈھانپتے ہیں۔ یہاں چند ہزار کی آبادی ہے۔ پہلے وہ کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر اب سیاح جا سکتے ہیں۔ دور وحشت اور بربریت میں لوگ اپنے سروں پہ پھول اور پتے باندھا کرتے تھے۔ کچھ پرندے بھی ایسے ہیں کہ وہ اپنے گھونسلے کو پھول اور پھلوں سے سجاتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ علاقوں کو جنت نظیر کے لقب دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'جنت نظیر کشمیر، جنت نظیر بنگال، پریوں کا دیس، کوہ قاف'' وغیرہ وغیرہ۔ کوہ قاف کے ممالک انگوشتیا، چیچنیہ ، غمخور دید، داغستان کے لوگ دنیا کے خوبصورت ترین لوگ کہلاتے ہیں۔ اس میں موروثیت، آب و ہوا، غذا اور علاقے کے ماحول پر انحصار کرتا ہے۔
دنیا میں ایسے پرندے ہیں جنھیں ''برڈز آف پیراڈائز'' یعنی جنت کے پرندہ کہا جاتا ہے۔ وہ جب ناچتے ہیں تو پرندے کی بجائے پھول لگتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک کے شہروں میں نمائشیں ہوتی ہیں جن میں خوبصورت پھولوں، پھلوں، مویشیوں، درختوں اور مچھلیوں کو لایا جاتا ہے پھر زیادہ خوبصورت چیزوں پر انھیں انعامات ملتے ہیں جن کے جانور، پرندے، مویشی، درخت، پھول اور پھل زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ ہوس کے مارے لوگ اپنے آپ کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لیے اپنے مکانوں کو، لباسوں کو، گاڑیوں کو، غذاؤں کو زیادہ صحت بخش، صاف ستھری، پرکشش بنانے کی تگ و دو میں سرمایہ دار اور جاگیردار بن کر محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی لیے ساحر لدھیانوی نے درست کہا تھا کہ ''آپ کہتی ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتی ہوں گی'' ۔''بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی'' ایک اور نظم میں انھوںنے کہا کہ ''اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل۔۔۔۔ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''۔ کون نہیں چاہتا کہ وہ صحت مند، خوبصورت، خوش لباس، خوش مزاج، خوش اخلاق نہ ہو۔ سب اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کا مکان، اس کی تعلیم، اس کا علاج اور اس کا روزگار بہتر ہو اور زندگی کا بھرپور لطف حاصل کرے۔ مگر یہ دنیا کے انسانوں کا حق چند بلوانوں نے چھین رکھا ہے۔ اب آپ اس کا نام آئی ایم ایف دیں، عالمی بینک دیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دیں یا عالمی سرمایہ داری کا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کا امیر ترین انسان سلیم حلوہ کے پاس 73 ارب ڈالر ہیں جب کہ اسی دنیا میں روز 75 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ دنیا میں اتنے وسائل ہیں کہ لوگوں کو 2/3 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف ایٹمی جنگ کی سرگرمی ختم کر دی جائے تو اس دنیا سے 3 بار غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر جنگی اسلحے کو تباہ کر دیں اور مزید پیداوار نہ کریں تو بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر کاسمیٹکس کا استعمال روک دیا جائے تو سب کو مفت تعلیم دی جا سکتی ہے۔ اگر جانوروں پر کیے جانے والے اخراجات ختم کر دیے جائیں تو سب کو مفت علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی' اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو''۔ دنیا میں اتنے وسائل ہیں کہ 7 ارب انسانوں کی ضروریات پوری کر کے مزید 7 ارب انسانوں کی ضروریات مستقبل کے لیے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے خوبصورتی، صحت مندی، خوش لباسی، علاج معالجے اور حصول تعلیم سب کا حق ہے۔
گزشتہ دنوں ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 سالہ نینا سیاہکالی مرادی نے بلدیاتی انتخابات میں 10 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کا اپنا ہی دلکش سراپا اس کے انتخابات کو کالعدم اور اسے نااہل قرار دلا دے گا۔ سٹی کونسل ایران کے لیے منتخب ہونے والی نینا کو اپنی نشست کا حلف اٹھانے کے لیے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت حسین چہرے کی مالک ہے۔ برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 برس کی نینا سیاہکالی مرادی کا شہری کونسل کے انتخاب کے لیے 163 امیدواروں سے مقابلہ تھا جس میں اس کا 14 واں نمبر تھا۔ العریبیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ایران کے لیے صدر حسن روحانی جو اصلاح پسند سمجھے جاتے ہیں، انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بہت سے دعوؤں کے ساتھ یہ بھی عہد کیا تھا کہ وہ اپنے دور حکومت میں کوشش کریں گے کہ خواتین کے حقوق کو بہتر بنایا جائے۔
لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے چند روز بعد ہی ایک خاتون کونسلر کو جاذب نظر اور پرکشش ہونے کی بنا پر نااہل قرار دے دیا گیا''۔ برطانوی روزنامے ڈیلی ٹائمز کے مطابق ''مذہبی قدامت پسندوں نے نینا کے پرکشش حسن کی وجہ سے اس کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ نینا مرادی آرکیٹکچرل انجینئرنگ میں گریجویشن کی طالبہ ہیں اور اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے اپنی انتخابی مہم کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ بھرپور انتخابی مہم کے نتیجے میں نینا مرادی شہری کونسل کی رکن تو منتخب ہو گئیں لیکن ان کا دلکش چہرہ اورخوبصورتی ان کے انتخاب میں رکاوٹ بن گئی اور ایران کے شدت پسند مذہبی اجارہ داروں نے انھیں ماڈل قرار دے کر کونسلر بننے سے ہی روک دیا''۔ اس نے قزوین میں خواتین کے بہتر حقوق، قدیم شہر کی بحالی اور شہری منصوبہ بندی میں نوجوانوں کے بہتر کردار کی بات کی تھی۔
ایرانی عدلیہ اور انٹیلی جنس سروسز نے بطور امیدوار اس کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تھی اور اسے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ اس کے آزاد خیال ہونے کی وجہ سے بھی اسے ووٹروں میں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن قدامت پرست مذہبی حلقوں نے نینا مرادی کی انتخابی مہم کے پوسٹروں کو بے ہودہ قرار دیا۔ حالانکہ نینا مرادی کی انتخابی مہم کے لیے تیار کیے گئے پوسٹروں پر مکمل حجاب کے ساتھ اس کی تصاویر چھپی تھیں، اس کے باوجود قدامت پسند مذہبی حلقوں نے نینا کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ''جائزہ بورڈ نے نہ تو ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی وضاحت پیش کی ہے''۔ آپ خود اس بات کا جائزہ لیں کہ خوبصورتی یا بدصورتی کسی کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔
نینا مرادی اگر تیزاب کی ماری ہوئی جلی صورت کی ہوتی یا اس کے چہرے پر چیچک کے داغ ہوتے تو شاید ملاؤں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وطیرہ ہے کہ سرمایہ دار، مزدوروں کا، جاگیردار کسانوں کا، شہر دیہاتوں کا، لکھے پڑھے ان پڑھوں کا اور مرد عورتوں کا استحصال کرتا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ سال کابل میں بھی خواتین کے عالمی دن پر انھیں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سعودی عرب میں تو خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ملتی۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ ''ٹانگہ چلانے کے لیے خواتین کو اجازت نہیں ملتی مگر عصمت فروشی کا لائسنس مل جاتا ہے''۔ ان مظالم کا خاتمہ ایک غیر طبقاتی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
دنیا میں ایسے پرندے ہیں جنھیں ''برڈز آف پیراڈائز'' یعنی جنت کے پرندہ کہا جاتا ہے۔ وہ جب ناچتے ہیں تو پرندے کی بجائے پھول لگتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک کے شہروں میں نمائشیں ہوتی ہیں جن میں خوبصورت پھولوں، پھلوں، مویشیوں، درختوں اور مچھلیوں کو لایا جاتا ہے پھر زیادہ خوبصورت چیزوں پر انھیں انعامات ملتے ہیں جن کے جانور، پرندے، مویشی، درخت، پھول اور پھل زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ ہوس کے مارے لوگ اپنے آپ کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لیے اپنے مکانوں کو، لباسوں کو، گاڑیوں کو، غذاؤں کو زیادہ صحت بخش، صاف ستھری، پرکشش بنانے کی تگ و دو میں سرمایہ دار اور جاگیردار بن کر محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی لیے ساحر لدھیانوی نے درست کہا تھا کہ ''آپ کہتی ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتی ہوں گی'' ۔''بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی'' ایک اور نظم میں انھوںنے کہا کہ ''اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل۔۔۔۔ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''۔ کون نہیں چاہتا کہ وہ صحت مند، خوبصورت، خوش لباس، خوش مزاج، خوش اخلاق نہ ہو۔ سب اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کا مکان، اس کی تعلیم، اس کا علاج اور اس کا روزگار بہتر ہو اور زندگی کا بھرپور لطف حاصل کرے۔ مگر یہ دنیا کے انسانوں کا حق چند بلوانوں نے چھین رکھا ہے۔ اب آپ اس کا نام آئی ایم ایف دیں، عالمی بینک دیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دیں یا عالمی سرمایہ داری کا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کا امیر ترین انسان سلیم حلوہ کے پاس 73 ارب ڈالر ہیں جب کہ اسی دنیا میں روز 75 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ دنیا میں اتنے وسائل ہیں کہ لوگوں کو 2/3 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف ایٹمی جنگ کی سرگرمی ختم کر دی جائے تو اس دنیا سے 3 بار غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر جنگی اسلحے کو تباہ کر دیں اور مزید پیداوار نہ کریں تو بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر کاسمیٹکس کا استعمال روک دیا جائے تو سب کو مفت تعلیم دی جا سکتی ہے۔ اگر جانوروں پر کیے جانے والے اخراجات ختم کر دیے جائیں تو سب کو مفت علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی' اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو''۔ دنیا میں اتنے وسائل ہیں کہ 7 ارب انسانوں کی ضروریات پوری کر کے مزید 7 ارب انسانوں کی ضروریات مستقبل کے لیے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے خوبصورتی، صحت مندی، خوش لباسی، علاج معالجے اور حصول تعلیم سب کا حق ہے۔
گزشتہ دنوں ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 سالہ نینا سیاہکالی مرادی نے بلدیاتی انتخابات میں 10 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کا اپنا ہی دلکش سراپا اس کے انتخابات کو کالعدم اور اسے نااہل قرار دلا دے گا۔ سٹی کونسل ایران کے لیے منتخب ہونے والی نینا کو اپنی نشست کا حلف اٹھانے کے لیے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت حسین چہرے کی مالک ہے۔ برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ایرانی شہر قزوین میں مقیم 27 برس کی نینا سیاہکالی مرادی کا شہری کونسل کے انتخاب کے لیے 163 امیدواروں سے مقابلہ تھا جس میں اس کا 14 واں نمبر تھا۔ العریبیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ایران کے لیے صدر حسن روحانی جو اصلاح پسند سمجھے جاتے ہیں، انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بہت سے دعوؤں کے ساتھ یہ بھی عہد کیا تھا کہ وہ اپنے دور حکومت میں کوشش کریں گے کہ خواتین کے حقوق کو بہتر بنایا جائے۔
لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے چند روز بعد ہی ایک خاتون کونسلر کو جاذب نظر اور پرکشش ہونے کی بنا پر نااہل قرار دے دیا گیا''۔ برطانوی روزنامے ڈیلی ٹائمز کے مطابق ''مذہبی قدامت پسندوں نے نینا کے پرکشش حسن کی وجہ سے اس کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ نینا مرادی آرکیٹکچرل انجینئرنگ میں گریجویشن کی طالبہ ہیں اور اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے اپنی انتخابی مہم کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ بھرپور انتخابی مہم کے نتیجے میں نینا مرادی شہری کونسل کی رکن تو منتخب ہو گئیں لیکن ان کا دلکش چہرہ اورخوبصورتی ان کے انتخاب میں رکاوٹ بن گئی اور ایران کے شدت پسند مذہبی اجارہ داروں نے انھیں ماڈل قرار دے کر کونسلر بننے سے ہی روک دیا''۔ اس نے قزوین میں خواتین کے بہتر حقوق، قدیم شہر کی بحالی اور شہری منصوبہ بندی میں نوجوانوں کے بہتر کردار کی بات کی تھی۔
ایرانی عدلیہ اور انٹیلی جنس سروسز نے بطور امیدوار اس کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تھی اور اسے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ اس کے آزاد خیال ہونے کی وجہ سے بھی اسے ووٹروں میں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن قدامت پرست مذہبی حلقوں نے نینا مرادی کی انتخابی مہم کے پوسٹروں کو بے ہودہ قرار دیا۔ حالانکہ نینا مرادی کی انتخابی مہم کے لیے تیار کیے گئے پوسٹروں پر مکمل حجاب کے ساتھ اس کی تصاویر چھپی تھیں، اس کے باوجود قدامت پسند مذہبی حلقوں نے نینا کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ''جائزہ بورڈ نے نہ تو ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی وضاحت پیش کی ہے''۔ آپ خود اس بات کا جائزہ لیں کہ خوبصورتی یا بدصورتی کسی کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔
نینا مرادی اگر تیزاب کی ماری ہوئی جلی صورت کی ہوتی یا اس کے چہرے پر چیچک کے داغ ہوتے تو شاید ملاؤں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وطیرہ ہے کہ سرمایہ دار، مزدوروں کا، جاگیردار کسانوں کا، شہر دیہاتوں کا، لکھے پڑھے ان پڑھوں کا اور مرد عورتوں کا استحصال کرتا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ سال کابل میں بھی خواتین کے عالمی دن پر انھیں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سعودی عرب میں تو خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ملتی۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ ''ٹانگہ چلانے کے لیے خواتین کو اجازت نہیں ملتی مگر عصمت فروشی کا لائسنس مل جاتا ہے''۔ ان مظالم کا خاتمہ ایک غیر طبقاتی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔