بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع
مسلم لیگ ن سندھ کے سابق صدر غوث علی شاہ نئی سیاسی رفاقت کی تلاش میں ہیں۔
عدالتی حکم پر بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔
امیدواروں کے چناؤ کے لیے گفت وشنید کے بعد فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں۔ خیر پور میں فنکشنل اور پیپلزپارٹی میں کانٹے دار مقابلے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی تاریخ میں جمہوریت کی دعوے دار کسی سیاسی جماعت نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی بھی مقامی انتخابات نہیں کرائے، جب کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں جنرل ایوب،جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات کرائے، جس سے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سیاسی معاملات میں شرکت کا موقع ملا۔
اب بھی چاروں صوبوں میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں تھیں، مگر سپریم کورٹ کے احکامات اور دباؤ پر صوبائی حکومتیں انتخابات کروانے پر راضی ہوئیں۔ سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سندھ سمیت چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں تو ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مزید مضبوط ہوں گے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سے اداروں کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف غوث علی شاہ کے نواز لیگ سے استعفے کے بعد سے ایک سکوت سا طاری ہے اور معاملہ ابھی درمیان درمیان میں محسوس ہوتا ہے۔ غوث علی شاہ کو ابھی تک منایا گیا اور نہ ہی انہوں نے واضح طور پر کسی جماعت میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا۔ اگر غوث علی شاہ کی اب تک کی سیاسی وپیشہ ورانہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ سندھ کے وزیراعلا، وفاقی وزیر تعلیم ودفاع اور ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں، وہ پرانے مسلم لیگی اور نظریاتی کارکن ہیں۔ 1988ء سے اب تک مسلم لیگ نواز کے ساتھ چلتے آرہے ہیں، اور شریف برادران سے بغاوت کی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی پیش کش کو بھی ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کی جانب سے اپنی جماعت کے اقتدار کے دوران پارٹی چھوڑ جانا پارٹی کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ غوث علی شاہ کو ملک کا صدر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر صدارتی الیکشن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کو صدر منتخب کروانے کے بعد انہیں امید تھی کہ اب ان کا شایان شان صدارت یا سندھ کی گورنری ہے، لیکن صدارتی انتخاب میں، متحدہ اور نواز لیگ کے درمیان مفاہت کے بعد گورنر کی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آرہا تھا، یہی وجہ ہے کہ غوث علی شاہ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد صوبائی نائب صدر،صوبائی جوائنٹ سیکریٹری، ضلعی صدر سمیت تقریباً 2 ہزار کارکنان مستعفی ہوگئے۔
سیاسی ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں دھڑے بندی کے معاملات کے بعد نواز شریف ان کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر چکے تھے، پارٹی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ پارٹی کو خیرپور اور سندھ میں فعال نہیں کر سکے، تنظیم سازی نہ ہوسکی، کچھ عہدوں پر اپنے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کو رکھنے پر بضد رہے اور اپنے آبائی حلقے سے بھی کام یاب نہ ہو سکے۔ غوث علی شاہ کے مستعفی ہونے کے بعد ممتاز بھٹو اور رئیس غلام مرتضیٰ جتوئی نواز لیگ کی صوبائی صدارت کے لیے مضبوط امیدوار کے طورپر سامنے آئے ہیں اور بہت جلد پارٹی قیادت سندھ کی صدارت کے لیے اہم فیصلہ کرے گی۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق کچھ پرانے مسلم لیگی راہ نما زور دے رہے ہیں کہ غوث علی شاہ کو منایاجائے، جب کہ اس کے برعکس رائے بھی موجود ہے۔
امکان ہے کہ غلام مرتضیٰ خان جتوئی سندھ نواز لیگ کی صدارت کا عہدہ لینے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف کی جانب سے غوث علی شاہ کو اپنی اپنی پارٹیوں میں شمولیت کے لیے رابطے کیے جا رہے ہیں، مگر سید غوث علی شاہ دور اندیش تجربے کار سیاست دان ہیں، وہ جلد ہی کسی بھی پارٹی میں جانے سے زیادہ خود کو مسلم لیگی کہلانے میں فخر سمجھیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ہی کا نیا دھڑا بناکر اس کے قائد بن جائیں۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما اور رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان کی لیگی کارکن عبدالوہاب موریجو قتل کیس کی سماعت کے موقع پر ان کو ستمبر کی 14 تاریخ سماعت کی ہوئی جب کہ پولیس اہلکار اعجاز خشک کے قتل کیس میں نام زَد طاہر امتیاز پھلپھوٹو کی بھی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ فنکشنل کا ضلع خیرپور کا ایک مذمتی اجلاس مسلم لیگ ہاؤس خیرپور میں ضلعی صدر سید محرم علی شاہ کی صدارت میں ہوا، جس میں سید عقیل حیدر شاہ، سید معشوق شاہ، سید رعنا شاہ، عزیز گوپانگ، خالد حسین راجپر، طاہر امتیاز سمیت دیگر عہدے داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر لیگی راہ نماؤں خادم حسین آرادین کے بیٹے اعجاز آرادین کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور قتل کی مذمت کی گئی۔
اجلاس میں تعلقہ خیرپور کے صدر طاہر امتیاز پھلپھوٹو پر قتل کے جھوٹے مقدمے کی بھی مذمت کی گئی، اجلاس لیگی راہ نماؤں وکارکنوں کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں اور بڑھتی ہوئی بد امنی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید محرم علی شاہ نے کہاکہ حکومت ہوش کے ناخن لے انتقامی کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔ ہم نے پیر پگارا کی قیادت اور ہدایات پر ہمیشہ صاف ستھری اور شرافت کی سیاست کی ہے مگر راہ نماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں، نا انصافیوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خیرپور سے تعلق رکھنے والی سیاسی سماجی تنظیموں کے راہ نماؤں کا ایک مذمتی اجلاس معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر رحیم اﷲ شاہ خاصخیلی کی صدارت میں ہوا، جس میں رئیس ارباب علی ٹانوری، سید حب دار حسین شاہ، عمران باقری، نظام الدین مری، استاد اعظم میمن، یاسر خاصخیلی کے علاوہ دیگر راہ نماؤں نے شرکت کی، اجلاس میں نواز لیگ حکومت کے آنے کے بعد بڑھتی ہوئی منہگائی، بد امنی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ظالمانہ قرار دیا گیا، راہ نماؤں نے کہاکہ یہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد منہگائی اور بے روزگاری کا طوفان آجائے گا۔ دم توڑتی ہوئی معیشت تباہ ہوجائے گی، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگا، جس سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ منہگائی تو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، حکومت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ نواز لیگ حکومت نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں عوام نے نواز لیگ کو بھاری مینڈیٹ دیا ہے عوام کی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں مگر حکومتی اقدامات نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔ عوام مایوس ہوگئے ہیں۔
امیدواروں کے چناؤ کے لیے گفت وشنید کے بعد فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں۔ خیر پور میں فنکشنل اور پیپلزپارٹی میں کانٹے دار مقابلے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی تاریخ میں جمہوریت کی دعوے دار کسی سیاسی جماعت نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی بھی مقامی انتخابات نہیں کرائے، جب کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں جنرل ایوب،جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات کرائے، جس سے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سیاسی معاملات میں شرکت کا موقع ملا۔
اب بھی چاروں صوبوں میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں تھیں، مگر سپریم کورٹ کے احکامات اور دباؤ پر صوبائی حکومتیں انتخابات کروانے پر راضی ہوئیں۔ سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سندھ سمیت چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں تو ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مزید مضبوط ہوں گے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سے اداروں کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف غوث علی شاہ کے نواز لیگ سے استعفے کے بعد سے ایک سکوت سا طاری ہے اور معاملہ ابھی درمیان درمیان میں محسوس ہوتا ہے۔ غوث علی شاہ کو ابھی تک منایا گیا اور نہ ہی انہوں نے واضح طور پر کسی جماعت میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا۔ اگر غوث علی شاہ کی اب تک کی سیاسی وپیشہ ورانہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ سندھ کے وزیراعلا، وفاقی وزیر تعلیم ودفاع اور ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں، وہ پرانے مسلم لیگی اور نظریاتی کارکن ہیں۔ 1988ء سے اب تک مسلم لیگ نواز کے ساتھ چلتے آرہے ہیں، اور شریف برادران سے بغاوت کی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی پیش کش کو بھی ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کی جانب سے اپنی جماعت کے اقتدار کے دوران پارٹی چھوڑ جانا پارٹی کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ غوث علی شاہ کو ملک کا صدر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر صدارتی الیکشن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کو صدر منتخب کروانے کے بعد انہیں امید تھی کہ اب ان کا شایان شان صدارت یا سندھ کی گورنری ہے، لیکن صدارتی انتخاب میں، متحدہ اور نواز لیگ کے درمیان مفاہت کے بعد گورنر کی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آرہا تھا، یہی وجہ ہے کہ غوث علی شاہ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد صوبائی نائب صدر،صوبائی جوائنٹ سیکریٹری، ضلعی صدر سمیت تقریباً 2 ہزار کارکنان مستعفی ہوگئے۔
سیاسی ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں دھڑے بندی کے معاملات کے بعد نواز شریف ان کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر چکے تھے، پارٹی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ پارٹی کو خیرپور اور سندھ میں فعال نہیں کر سکے، تنظیم سازی نہ ہوسکی، کچھ عہدوں پر اپنے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کو رکھنے پر بضد رہے اور اپنے آبائی حلقے سے بھی کام یاب نہ ہو سکے۔ غوث علی شاہ کے مستعفی ہونے کے بعد ممتاز بھٹو اور رئیس غلام مرتضیٰ جتوئی نواز لیگ کی صوبائی صدارت کے لیے مضبوط امیدوار کے طورپر سامنے آئے ہیں اور بہت جلد پارٹی قیادت سندھ کی صدارت کے لیے اہم فیصلہ کرے گی۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق کچھ پرانے مسلم لیگی راہ نما زور دے رہے ہیں کہ غوث علی شاہ کو منایاجائے، جب کہ اس کے برعکس رائے بھی موجود ہے۔
امکان ہے کہ غلام مرتضیٰ خان جتوئی سندھ نواز لیگ کی صدارت کا عہدہ لینے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف کی جانب سے غوث علی شاہ کو اپنی اپنی پارٹیوں میں شمولیت کے لیے رابطے کیے جا رہے ہیں، مگر سید غوث علی شاہ دور اندیش تجربے کار سیاست دان ہیں، وہ جلد ہی کسی بھی پارٹی میں جانے سے زیادہ خود کو مسلم لیگی کہلانے میں فخر سمجھیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ہی کا نیا دھڑا بناکر اس کے قائد بن جائیں۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما اور رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان کی لیگی کارکن عبدالوہاب موریجو قتل کیس کی سماعت کے موقع پر ان کو ستمبر کی 14 تاریخ سماعت کی ہوئی جب کہ پولیس اہلکار اعجاز خشک کے قتل کیس میں نام زَد طاہر امتیاز پھلپھوٹو کی بھی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ فنکشنل کا ضلع خیرپور کا ایک مذمتی اجلاس مسلم لیگ ہاؤس خیرپور میں ضلعی صدر سید محرم علی شاہ کی صدارت میں ہوا، جس میں سید عقیل حیدر شاہ، سید معشوق شاہ، سید رعنا شاہ، عزیز گوپانگ، خالد حسین راجپر، طاہر امتیاز سمیت دیگر عہدے داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر لیگی راہ نماؤں خادم حسین آرادین کے بیٹے اعجاز آرادین کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور قتل کی مذمت کی گئی۔
اجلاس میں تعلقہ خیرپور کے صدر طاہر امتیاز پھلپھوٹو پر قتل کے جھوٹے مقدمے کی بھی مذمت کی گئی، اجلاس لیگی راہ نماؤں وکارکنوں کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں اور بڑھتی ہوئی بد امنی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید محرم علی شاہ نے کہاکہ حکومت ہوش کے ناخن لے انتقامی کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔ ہم نے پیر پگارا کی قیادت اور ہدایات پر ہمیشہ صاف ستھری اور شرافت کی سیاست کی ہے مگر راہ نماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں، نا انصافیوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خیرپور سے تعلق رکھنے والی سیاسی سماجی تنظیموں کے راہ نماؤں کا ایک مذمتی اجلاس معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر رحیم اﷲ شاہ خاصخیلی کی صدارت میں ہوا، جس میں رئیس ارباب علی ٹانوری، سید حب دار حسین شاہ، عمران باقری، نظام الدین مری، استاد اعظم میمن، یاسر خاصخیلی کے علاوہ دیگر راہ نماؤں نے شرکت کی، اجلاس میں نواز لیگ حکومت کے آنے کے بعد بڑھتی ہوئی منہگائی، بد امنی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ظالمانہ قرار دیا گیا، راہ نماؤں نے کہاکہ یہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد منہگائی اور بے روزگاری کا طوفان آجائے گا۔ دم توڑتی ہوئی معیشت تباہ ہوجائے گی، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگا، جس سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ منہگائی تو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، حکومت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ نواز لیگ حکومت نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں عوام نے نواز لیگ کو بھاری مینڈیٹ دیا ہے عوام کی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں مگر حکومتی اقدامات نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔ عوام مایوس ہوگئے ہیں۔