نواز لیگ کی ساکھ کو دھچکا
متحدہ قومی مومنٹ کی سرگرمیاں اور تحفظات اہم سیاسی موضوع بنا ہوا ہے۔
صدارتی انتخابات اور ضمنی انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات کے اعلان سے سیاسی درجہ حرارت میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بھرپور بیان بازی عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ میں مہاجر ریپبلکن آرمی کی موجودگی اور پھر چوہدری نثار کے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں دیے جانے والے بیان کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے نظر آئیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد اور اختلاف کا سلسلہ جاری ہے، کراچی میں جاری کارروائی پر متحدہ کے شدید تحفظات کا اظہار اور پھر نواز لیگ کا انہیں دور کرنے کی یقین دہانی اور پھر روٹھے ہوئے گورنر کو واپس اپنے عہدے پر بلانا اس کی مثال ہے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی مخالف سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کو کراچی کے حالات کے حوالے سے آڑے ہاتھ لے رہی ہیں۔ بندرگاہ سے اسلحے کے کنٹینروں کی گُم شدگی کے معاملے سے لے کر کراچی میں جاری گرفتاریوں پرمتحدہ قومی موومنٹ کی قیادت بھی اپنے دفاع کے لیے انتہائی متحرک نظر آتی ہے۔ سکھر و دیگر علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے ذمہ داران اور ان کے نمایندے پریس کانفرنسوں، جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کے دوران سخت ردعمل دے رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی دیوان چند چاولہ، زونل انچارج قطب الدین و دیگر نے تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت جس قسم کے خطرات اور نازک صورت حال سے دوچار ہے، اس کے پیش نظر قومی اتحاد و یک جہتی کی اشد ضرورت ہے، لیکن وزارت داخلہ کے بعض لوگ مہاجر ری پبلکن آرمی کا شوشا چھوڑ کر ملک کو انتشار کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی واحد جماعت ہے، جو گزشتہ 35 برس سے 98 فی صد غریب و متوسط طبقے کے حقوق کے حصول اور مظلوم قومیتوں کے درمیان پیدا کی گئی لسانی، قومیتی اور مذہبی تفریق اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے، ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حق پرست عوام کو دیوار سے لگانے کے لیے جناح پور کی طرح مہاجر ری پبلکن آرمی کا نہایت سنگین اور گھناؤنا شوشا چھوڑا گیا ہے۔
19 جون 1992ء کو حکومت کو ڈاکوؤں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث 72 افراد کی فہرست پیش کی گئی تھی، لیکن اصل ملزمان کے خلاف آپریشن کرنے کے بہ جائے آپریشن کا رخ ایم کیو ایم اور ایک مخصوص طبقے کے خلاف موڑ دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے راہ نماؤں، کارکنوں اور ہم دَردوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھانے کے ساتھ عوام کو ایم کیو ایم کے خلاف گُم راہ کرنے کے لیے جناح پور بنانے کی سازش کا سراسر جھوٹا بے بنیاد اور شرم ناک الزام عاید کیا گیا۔ 1992ء آپریشن کے اہم کردار بریگیڈئیر امتیاز نے نجی ٹی وی پر آکر اس الزام کی تردید کی تھی، لیکن ایم کیو ایم کے مخالفین دو دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک اس الزام کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
اب ایک بار پھر مہاجر ری پبلکن آرمی کا شوشا چھوڑ کر اس کی آڑ میں سندھ کے شہری عوام کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے کی سازش کی جا رہی ہے، ہم پاکستان کے ارباب اختیار اور ریاستی اداروں کو واضح طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں عدل و انصاف، جمہوریت اور امن و امان کے قیام کے لیے ہمارا غیر مشروط تعاون کل بھی حاضر تھا اور آج بھی ہے، اگر کسی کے ذہن میں یہ خام خیال ہے کہ وہ جھوٹے الزامات عاید کر کے ایم کیو ایم کو کچل دے گا، تو اس خیال پر افسوس اور ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ چند ماہ سے سیاسی جماعتوں، لندن پولیس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی بری طرح زَد پر نظر آتی ہے۔ سکھر کے اہم چوراہوں، سیاسی و نجی بیٹھکوں میں مہاجر ری پبلکن آرمی کے انکشاف کے ساتھ متحدہ کے خلاف جاری کارروائیوں کا چرچا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی، اندرون سندھ تنظیمی کمیٹی اور زون کی سطح پر موجود قیادت بھرپور انداز سے اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
صدارتی انتخابات میںمسلم لیگ ن کی اعلا قیادت نے چھوٹے صوبے سے صدارتی امیدوار لے کر اہم فیصلہ کیا اور سیاسی جماعتوں میں پذیرائی حاصل کی، مگر سندھ میں جاری اندرونی خلفشار ایک لاوے کی شکل اختیار کر گیا اور قیادت کی جانب سے اعلا عہدے کے لیے نظر انداز کیے جانے پر سابق وزیر اعلا سندھ اور ن لیگ کے صوبائی صدر سید غوث علی شاہ کی جانب سے صوبائی صدارت سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد سکھر ڈویژن کے جنرل سیکریٹری غلام شبیر دایو ایڈوکیٹ، جوائنٹ سیکریٹری ریاض احمد جتوئی و دیگر نے بھی اپنے استعفیٰ ن لیگ کے قائد وزیر اعظم نواز شریف کو ارسال کر دیے۔
مسلم لیگ ن جو کہ اندرون سندھ میں ویسے ہی اختلافات، دھڑے بندی کا شکار تھی۔ سید غوث علی شاہ اور ان کے گروپ میں شامل بعض ذمے داران اور کارکنان کے استعفے دیے جانے کے بعد ن لیگ کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور درجنوں کارکن اور ذمہ داران کی جانب سے مزید استعفیٰ دیئے جانے کا امکان ہے۔ مذکورہ استعفوں کے بعد ضلعی صدر سرور لطیف کی سیاسی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی اور وہ ایک عرصے سے سید غوث علی شاہ کے کیمپ میں موجود تھے اور انہوں نے سابق وزیر اعلا کے ہم راہ پارٹی کے لیے اہم خدمات انجام دیں، مگر اب غوث علی شاہ اور ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد کے استعفے دینے سے سرور لطیف کی ضلعی صدارت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اور یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ انہیں باضابطہ طور پر ضلعی صدارت سے فارغ کر دیا جائے گا۔
کراچی سمیت ملک میں جاری دہشت گردی، بدامنی کے خاتمے کے لیے جمعیت علمائے پاکستان بھی انتہائی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جے یو پی کے مرکزی راہ نما شاہ اویس نورانی نے سکھر کا دورہ کیا، اس موقع پر انہوں نے الزام لگایا کہ متحدہ کا موجودہ مینڈیٹ جعلی ہے۔ ایم کیو ایم اگر نظریاتی سیاست کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنی پارٹی سے عسکری ونگ کا خاتمہ کرے۔ ممنون حسین کے ووٹ کے لیے نواز لیگ کے نائن زیرو جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا رہا کہ 5 سال تک ایم کیو ایم کی مخالفت کرنے والے نائن زیرو پہنچے، حالاں کہ انہیں اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم ضیا الحق کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کراچی میں فوج بلانا چاہتے ہیں۔ اگر سول انتظامیہ کو تحفظ فراہم کیا جائے تو فوج بلانے کی ضرورت نہیں۔ ماضی میں آپریشن کرنے والے پولیس افسران کو قتل کر دیا گیا، لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپریشن کو کام یاب بنانے کے لیے غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، کیوں کہ آپریشن سے عوام پریشان ہوتے ہیں اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے پاکستان اہل سنت کی مدر پارٹی ہے، ہماری جماعت میں کوئی عسکری ونگ نہیں ہے، اہلسنت کے پاس اس وقت لیڈر شپ کی کمی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے اہل سنت کی تمام جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا۔
متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بھرپور بیان بازی عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ میں مہاجر ریپبلکن آرمی کی موجودگی اور پھر چوہدری نثار کے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں دیے جانے والے بیان کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے نظر آئیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد اور اختلاف کا سلسلہ جاری ہے، کراچی میں جاری کارروائی پر متحدہ کے شدید تحفظات کا اظہار اور پھر نواز لیگ کا انہیں دور کرنے کی یقین دہانی اور پھر روٹھے ہوئے گورنر کو واپس اپنے عہدے پر بلانا اس کی مثال ہے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی مخالف سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کو کراچی کے حالات کے حوالے سے آڑے ہاتھ لے رہی ہیں۔ بندرگاہ سے اسلحے کے کنٹینروں کی گُم شدگی کے معاملے سے لے کر کراچی میں جاری گرفتاریوں پرمتحدہ قومی موومنٹ کی قیادت بھی اپنے دفاع کے لیے انتہائی متحرک نظر آتی ہے۔ سکھر و دیگر علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے ذمہ داران اور ان کے نمایندے پریس کانفرنسوں، جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کے دوران سخت ردعمل دے رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی دیوان چند چاولہ، زونل انچارج قطب الدین و دیگر نے تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت جس قسم کے خطرات اور نازک صورت حال سے دوچار ہے، اس کے پیش نظر قومی اتحاد و یک جہتی کی اشد ضرورت ہے، لیکن وزارت داخلہ کے بعض لوگ مہاجر ری پبلکن آرمی کا شوشا چھوڑ کر ملک کو انتشار کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی واحد جماعت ہے، جو گزشتہ 35 برس سے 98 فی صد غریب و متوسط طبقے کے حقوق کے حصول اور مظلوم قومیتوں کے درمیان پیدا کی گئی لسانی، قومیتی اور مذہبی تفریق اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے، ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حق پرست عوام کو دیوار سے لگانے کے لیے جناح پور کی طرح مہاجر ری پبلکن آرمی کا نہایت سنگین اور گھناؤنا شوشا چھوڑا گیا ہے۔
19 جون 1992ء کو حکومت کو ڈاکوؤں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث 72 افراد کی فہرست پیش کی گئی تھی، لیکن اصل ملزمان کے خلاف آپریشن کرنے کے بہ جائے آپریشن کا رخ ایم کیو ایم اور ایک مخصوص طبقے کے خلاف موڑ دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے راہ نماؤں، کارکنوں اور ہم دَردوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھانے کے ساتھ عوام کو ایم کیو ایم کے خلاف گُم راہ کرنے کے لیے جناح پور بنانے کی سازش کا سراسر جھوٹا بے بنیاد اور شرم ناک الزام عاید کیا گیا۔ 1992ء آپریشن کے اہم کردار بریگیڈئیر امتیاز نے نجی ٹی وی پر آکر اس الزام کی تردید کی تھی، لیکن ایم کیو ایم کے مخالفین دو دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک اس الزام کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
اب ایک بار پھر مہاجر ری پبلکن آرمی کا شوشا چھوڑ کر اس کی آڑ میں سندھ کے شہری عوام کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے کی سازش کی جا رہی ہے، ہم پاکستان کے ارباب اختیار اور ریاستی اداروں کو واضح طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں عدل و انصاف، جمہوریت اور امن و امان کے قیام کے لیے ہمارا غیر مشروط تعاون کل بھی حاضر تھا اور آج بھی ہے، اگر کسی کے ذہن میں یہ خام خیال ہے کہ وہ جھوٹے الزامات عاید کر کے ایم کیو ایم کو کچل دے گا، تو اس خیال پر افسوس اور ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ چند ماہ سے سیاسی جماعتوں، لندن پولیس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی بری طرح زَد پر نظر آتی ہے۔ سکھر کے اہم چوراہوں، سیاسی و نجی بیٹھکوں میں مہاجر ری پبلکن آرمی کے انکشاف کے ساتھ متحدہ کے خلاف جاری کارروائیوں کا چرچا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی، اندرون سندھ تنظیمی کمیٹی اور زون کی سطح پر موجود قیادت بھرپور انداز سے اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
صدارتی انتخابات میںمسلم لیگ ن کی اعلا قیادت نے چھوٹے صوبے سے صدارتی امیدوار لے کر اہم فیصلہ کیا اور سیاسی جماعتوں میں پذیرائی حاصل کی، مگر سندھ میں جاری اندرونی خلفشار ایک لاوے کی شکل اختیار کر گیا اور قیادت کی جانب سے اعلا عہدے کے لیے نظر انداز کیے جانے پر سابق وزیر اعلا سندھ اور ن لیگ کے صوبائی صدر سید غوث علی شاہ کی جانب سے صوبائی صدارت سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد سکھر ڈویژن کے جنرل سیکریٹری غلام شبیر دایو ایڈوکیٹ، جوائنٹ سیکریٹری ریاض احمد جتوئی و دیگر نے بھی اپنے استعفیٰ ن لیگ کے قائد وزیر اعظم نواز شریف کو ارسال کر دیے۔
مسلم لیگ ن جو کہ اندرون سندھ میں ویسے ہی اختلافات، دھڑے بندی کا شکار تھی۔ سید غوث علی شاہ اور ان کے گروپ میں شامل بعض ذمے داران اور کارکنان کے استعفے دیے جانے کے بعد ن لیگ کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور درجنوں کارکن اور ذمہ داران کی جانب سے مزید استعفیٰ دیئے جانے کا امکان ہے۔ مذکورہ استعفوں کے بعد ضلعی صدر سرور لطیف کی سیاسی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی اور وہ ایک عرصے سے سید غوث علی شاہ کے کیمپ میں موجود تھے اور انہوں نے سابق وزیر اعلا کے ہم راہ پارٹی کے لیے اہم خدمات انجام دیں، مگر اب غوث علی شاہ اور ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد کے استعفے دینے سے سرور لطیف کی ضلعی صدارت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اور یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ انہیں باضابطہ طور پر ضلعی صدارت سے فارغ کر دیا جائے گا۔
کراچی سمیت ملک میں جاری دہشت گردی، بدامنی کے خاتمے کے لیے جمعیت علمائے پاکستان بھی انتہائی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جے یو پی کے مرکزی راہ نما شاہ اویس نورانی نے سکھر کا دورہ کیا، اس موقع پر انہوں نے الزام لگایا کہ متحدہ کا موجودہ مینڈیٹ جعلی ہے۔ ایم کیو ایم اگر نظریاتی سیاست کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنی پارٹی سے عسکری ونگ کا خاتمہ کرے۔ ممنون حسین کے ووٹ کے لیے نواز لیگ کے نائن زیرو جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا رہا کہ 5 سال تک ایم کیو ایم کی مخالفت کرنے والے نائن زیرو پہنچے، حالاں کہ انہیں اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم ضیا الحق کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کراچی میں فوج بلانا چاہتے ہیں۔ اگر سول انتظامیہ کو تحفظ فراہم کیا جائے تو فوج بلانے کی ضرورت نہیں۔ ماضی میں آپریشن کرنے والے پولیس افسران کو قتل کر دیا گیا، لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپریشن کو کام یاب بنانے کے لیے غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، کیوں کہ آپریشن سے عوام پریشان ہوتے ہیں اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے پاکستان اہل سنت کی مدر پارٹی ہے، ہماری جماعت میں کوئی عسکری ونگ نہیں ہے، اہلسنت کے پاس اس وقت لیڈر شپ کی کمی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے اہل سنت کی تمام جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا۔