نجکاری حل نہیں
پاکستان اسٹیل ملز کو مصنوعی تنفس فراہم کر کے چلایا جا رہا ہے، ریلوے ’’رل وے‘‘ کے مقام پر کھڑی سیٹی بجا رہی ہے...
پاکستان اسٹیل ملز کو مصنوعی تنفس فراہم کر کے چلایا جا رہا ہے، ریلوے ''رل وے'' کے مقام پر کھڑی سیٹی بجا رہی ہے، باکمال لوگوں کا ادارہ کہلانے والا، بے کمال لوگوں کا ادارہ بن چکا ہے۔ ملک اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے شعبہ تعلیم کو سیاست کے دامن میں ڈال کر اب اسے مکمل طور پر غیروں کی جھولی میں ڈالنے کے لیے کمر کسی جا رہی ہے۔ نوے کی دہائی سے قبل کیا تھا؟ پاکستان اسٹیل ملز نہ صرف کامیابی سے اپنے پائوں پر کھڑی بلکہ پاکستانی معیشت کی ایک لڑی بھی تھی۔ ریلوے کا حال کم تر سہولیات کے باوجود مناسب تھا۔ آج جس ادارے سے حکومتی سطح پر جان چھڑانے کے لیے چھری تیز کی جا رہی ہے نوے کی دہائی سے قبل یہی قومی ادارہ ''لاجواب سروس'' کے مونوگرام کے سائے تلے اپنی رفعت کی منازل طے کر رہا تھا۔
تعلیمی شعبے میں تعلیمی سہولیات محض ''کیکر کی چھائوں'' کی حد تک میسر ہونے کے باوجود سرکاری اسکول بہترین نتائج دے رہے تھے۔ آج کے دور کے مقابلے میں نسبتاً کم تعلیم یافتہ اساتذہ تھے لیکن معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے کے امین تھے۔ نوے کے آس پاس میں جمہور آئی، جمہور ساتھ جمہوریت لائی۔ عوام کو دلوں کی بھڑاس نکالنے کے مواقعے میسر ہوئے، جمہور کے علم بردار جمہوریت نامی گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے۔ آمریت کو برا بھلا فیشن اور جمہوریت کی مضبوطی ان سیاست دانوں کی تسبیح کا دانہ بنی۔ لیکن عملی طور پر کیا ہوا؟ ملک سنوارو، قوم کی زندگیوں کو آسان بنانے کے نعرے محض زبانی جمع تفریق کی دلربا داستان ٹھہری۔ 1988سے لے کر 2013 تک انتخابات کی مشق کئی بار کی گئی۔ انتخابات نامی مشق کے وقتوں میں ملکی اداروں کو سنوارنے اور قوم کے دن پھیرنے کے بلند بانگ دعوے اتنے کیے گئے کہ اب یہ دعوے پاکستانی کوچہ سیاست کا ''آئین'' شمار ہونے لگے ہیں۔ لیکن جمہوریت حقیقت میں ہر ملکی ادارے میں من پسند سیاست کے لیے ایک نہیں بے شمار در کھول گئی۔
گزشتہ پچیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے۔ جو آیا اس نے ہر ملکی ادارے میں من پسند پالیسیوں کا نفاذ کیا، ملکی اداروں کو ذاتی ''بیل گاڑی'' بنا کر دماغ سے نہیں بلکہ دل کے بھائو کے حساب سے چلایا۔ ہر اہم ادارے میں نہ صرف منظور نظر افراد کی فوج ظفر موج کو بھرتی کیا بلکہ جو ''بھلے'' لگے ان کو قانون سے ہٹ کر کلیدی عہدوں پر بٹھایا۔ انھی ادوار میں میٹرک فیل تحصیلدار کی بھرتی اور اس جیسے بے شمار اسکینڈل سامنے آئے۔ بہت سے اداروں میں کوچہ سیاست کے دوستوں کو کمان داری سونپی گئی۔ کیا پاکستان اسٹیل ملز ''خود رو'' طریقے سے اس انجام بلا خیز تک پہنچی؟ کیا ریلوے خود پامال ہوتا رہا؟ کیا تعلیم میں پائی جانے والی زبوں حالی کے ذمے دار صرف اس محکمے سے وابستہ لوگ ہیں؟ باکمال لوگوں کے پسندیدہ ادارے کو زوال میں دھکیلنے کے عوامل و اسباب کچھ نہیں؟ تباہی کا منہ کب کھلتا ہے؟ تباہی کا نقطہ آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ قوم نے کبھی اس نکتے پر سوچا ہے؟ جب معاملات کو خلاف آئین و قانون تولا اور ''ٹالا'' جائے، جب قانون کی پاسداری پر دل کی تابعداری اور ذاتی یاری کو فوقیت دی جائے، یہ ہے نکتہ آغاز تباہی کا۔
کیا پی آئی اے جیسے ادارے میں نوازے جانے کا عمل زوروں پر نہیں رہا؟ کیا ریلوے میں من پسند لوگوں کی تقرریاں اور من پسند افسران کو کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے کی رسم رائج نہیں رہی؟ کیا پاکستان اسٹیل ملز کو ذاتی کارخانہ بنا کر اپنے سیاسی کوچوں کے ''سیاسی پریمیوں'' کو نوازنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا؟ کیا تعلیم جیسے شعبے میں نوے سے لے کر 97 تک بھرتیاں میرٹ پر ہوئیں؟ کیا شعبہ تعلیم کے بل پر ہنوز سیاست کا رواج قائم نہیں؟ دل کی دُکھن اور من کی چُبھن کو ایک جانب رکھ کر بتائیے کیا ہر ادارے میں سیاست کو ''ہوا'' نہیں دی گئی؟ آج کا تیکھا سچ یہ ہے کہ ملک کا ہر وہ ادارہ آج عالم نزاع میں ہے جسے کوچہ سیاست کا ''دلبر'' بنانے کی کوشش کی گئی۔ میرٹ کی پامالی، قانون سے رو گردانی اور آئین کے ساتھ کھلے بندوں ''سیاست'' کا نتیجہ آج سیاسی شرفاء نہیں بلکہ ان کے کیے دھرے کی سزا عام اور متوسط شہری بھگتنے پر مجبور ہیں۔ آج پی آئی اے کا سودا ہو جائے گا لیکن اس ادارے کا چپڑاسی کہاں جائے گا؟
آج ریلوے نجی ہائی وے بن جائے گا مگر اس محکمے کا سفید پوش کلرک کہاں جائے گا؟ کیا ملکی اداروں کو بیچنے میں ہی مسائل کا حل چھپا ہے؟ نہیں۔ اگر تمام ملکی اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان میں سیاسی مداخلت ختم کر دیجیے، ان اداروں کو میرٹ پر چلانے کا ہنر اپنا لیجیے۔ یہ ادارے جو آج ''بیمار'' ہیں چند سال میں معاشی طور پر تندرست و توانا ہو کر ملکی اور قومی معیشت میں پہلے سے کہیں زیادہ بہترین کردار ادا کرنا شروع کر دیں گے۔ اگر ارباب اختیار بکنے کی راہ پر گامزن رہے پھر مان لیں کہ ملک کا ہر ادارہ جلد یا بدیر بکے گا، کیونکہ سیاست کی دیمک سے کوئی بھی ملکی ادارہ محفوظ و مامون نہیں رہ سکتا۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ قوم کی ''دوا'' اور دعا سے اقتدار میں آنے والے قوم کی دعائیں لینے کا فعل اپنائیں، ورنہ عوام کی بددعائوں کے سامنے بڑے بڑے فرعون نہ ٹھہر سکے، اور بھلا کون کیا ٹھہرے گا؟
تعلیمی شعبے میں تعلیمی سہولیات محض ''کیکر کی چھائوں'' کی حد تک میسر ہونے کے باوجود سرکاری اسکول بہترین نتائج دے رہے تھے۔ آج کے دور کے مقابلے میں نسبتاً کم تعلیم یافتہ اساتذہ تھے لیکن معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے کے امین تھے۔ نوے کے آس پاس میں جمہور آئی، جمہور ساتھ جمہوریت لائی۔ عوام کو دلوں کی بھڑاس نکالنے کے مواقعے میسر ہوئے، جمہور کے علم بردار جمہوریت نامی گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے۔ آمریت کو برا بھلا فیشن اور جمہوریت کی مضبوطی ان سیاست دانوں کی تسبیح کا دانہ بنی۔ لیکن عملی طور پر کیا ہوا؟ ملک سنوارو، قوم کی زندگیوں کو آسان بنانے کے نعرے محض زبانی جمع تفریق کی دلربا داستان ٹھہری۔ 1988سے لے کر 2013 تک انتخابات کی مشق کئی بار کی گئی۔ انتخابات نامی مشق کے وقتوں میں ملکی اداروں کو سنوارنے اور قوم کے دن پھیرنے کے بلند بانگ دعوے اتنے کیے گئے کہ اب یہ دعوے پاکستانی کوچہ سیاست کا ''آئین'' شمار ہونے لگے ہیں۔ لیکن جمہوریت حقیقت میں ہر ملکی ادارے میں من پسند سیاست کے لیے ایک نہیں بے شمار در کھول گئی۔
گزشتہ پچیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے۔ جو آیا اس نے ہر ملکی ادارے میں من پسند پالیسیوں کا نفاذ کیا، ملکی اداروں کو ذاتی ''بیل گاڑی'' بنا کر دماغ سے نہیں بلکہ دل کے بھائو کے حساب سے چلایا۔ ہر اہم ادارے میں نہ صرف منظور نظر افراد کی فوج ظفر موج کو بھرتی کیا بلکہ جو ''بھلے'' لگے ان کو قانون سے ہٹ کر کلیدی عہدوں پر بٹھایا۔ انھی ادوار میں میٹرک فیل تحصیلدار کی بھرتی اور اس جیسے بے شمار اسکینڈل سامنے آئے۔ بہت سے اداروں میں کوچہ سیاست کے دوستوں کو کمان داری سونپی گئی۔ کیا پاکستان اسٹیل ملز ''خود رو'' طریقے سے اس انجام بلا خیز تک پہنچی؟ کیا ریلوے خود پامال ہوتا رہا؟ کیا تعلیم میں پائی جانے والی زبوں حالی کے ذمے دار صرف اس محکمے سے وابستہ لوگ ہیں؟ باکمال لوگوں کے پسندیدہ ادارے کو زوال میں دھکیلنے کے عوامل و اسباب کچھ نہیں؟ تباہی کا منہ کب کھلتا ہے؟ تباہی کا نقطہ آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ قوم نے کبھی اس نکتے پر سوچا ہے؟ جب معاملات کو خلاف آئین و قانون تولا اور ''ٹالا'' جائے، جب قانون کی پاسداری پر دل کی تابعداری اور ذاتی یاری کو فوقیت دی جائے، یہ ہے نکتہ آغاز تباہی کا۔
کیا پی آئی اے جیسے ادارے میں نوازے جانے کا عمل زوروں پر نہیں رہا؟ کیا ریلوے میں من پسند لوگوں کی تقرریاں اور من پسند افسران کو کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے کی رسم رائج نہیں رہی؟ کیا پاکستان اسٹیل ملز کو ذاتی کارخانہ بنا کر اپنے سیاسی کوچوں کے ''سیاسی پریمیوں'' کو نوازنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا؟ کیا تعلیم جیسے شعبے میں نوے سے لے کر 97 تک بھرتیاں میرٹ پر ہوئیں؟ کیا شعبہ تعلیم کے بل پر ہنوز سیاست کا رواج قائم نہیں؟ دل کی دُکھن اور من کی چُبھن کو ایک جانب رکھ کر بتائیے کیا ہر ادارے میں سیاست کو ''ہوا'' نہیں دی گئی؟ آج کا تیکھا سچ یہ ہے کہ ملک کا ہر وہ ادارہ آج عالم نزاع میں ہے جسے کوچہ سیاست کا ''دلبر'' بنانے کی کوشش کی گئی۔ میرٹ کی پامالی، قانون سے رو گردانی اور آئین کے ساتھ کھلے بندوں ''سیاست'' کا نتیجہ آج سیاسی شرفاء نہیں بلکہ ان کے کیے دھرے کی سزا عام اور متوسط شہری بھگتنے پر مجبور ہیں۔ آج پی آئی اے کا سودا ہو جائے گا لیکن اس ادارے کا چپڑاسی کہاں جائے گا؟
آج ریلوے نجی ہائی وے بن جائے گا مگر اس محکمے کا سفید پوش کلرک کہاں جائے گا؟ کیا ملکی اداروں کو بیچنے میں ہی مسائل کا حل چھپا ہے؟ نہیں۔ اگر تمام ملکی اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان میں سیاسی مداخلت ختم کر دیجیے، ان اداروں کو میرٹ پر چلانے کا ہنر اپنا لیجیے۔ یہ ادارے جو آج ''بیمار'' ہیں چند سال میں معاشی طور پر تندرست و توانا ہو کر ملکی اور قومی معیشت میں پہلے سے کہیں زیادہ بہترین کردار ادا کرنا شروع کر دیں گے۔ اگر ارباب اختیار بکنے کی راہ پر گامزن رہے پھر مان لیں کہ ملک کا ہر ادارہ جلد یا بدیر بکے گا، کیونکہ سیاست کی دیمک سے کوئی بھی ملکی ادارہ محفوظ و مامون نہیں رہ سکتا۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ قوم کی ''دوا'' اور دعا سے اقتدار میں آنے والے قوم کی دعائیں لینے کا فعل اپنائیں، ورنہ عوام کی بددعائوں کے سامنے بڑے بڑے فرعون نہ ٹھہر سکے، اور بھلا کون کیا ٹھہرے گا؟