کالاباغ ڈیم ن لیگ کے مبہم موقف پر خدشات

غوث علی شاہ جیسے لیدر کو نظر انداز کر دیا گیاتو عام کارکن کا کیا حال ہو گا، لیگی کارکن مایوس


Shabbir Arbani September 24, 2013
وزیر اعظم نے صحافیوں کے اصرار کے باوجود کالا باغ ڈیم بنانے کے حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ فوٹو: فائل

مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر سید غوث علی شاہ کی جانب سے استعفا دینے کے بعد سندھ بھر سمیت ضلع گھوٹکی کے مسلم لیگی کارکن بھی مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سید غوث علی شاہ نے جیل کی صعوبتیں اور جلاوطنی بھی برداشت کی، لیکن میاں نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پھر بھی قیادت کی جانب سے نظرانداز کرنا بڑی زیادتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے اعلا عہدے پر فائز رہنے والے سینئر راہ نما کو نظرانداز کیا گیا ہےتوعام کارکن کا کیا حال ہوگا۔ کارکن بھی مسلم لیگ کی قیادت کے فیصلوں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔

کارکنوں نے میاں نواز شریف سے اپیل کی ہے کہ وہ غوث علی شاہ کے استعفے کو قبول نہ کریں اور سندھ کی دیگر سیاسی قیادت کو ایک طرف کرنے کے بجائے انہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں، کیوںکہ سندھ میں تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ نواز شریف سندھ کو نظر انداز کر رہے ہیں جس کے نتائج سیاست میں اچھے نہیں نکلیں گے۔

دوسری طرف گزشتہ دنوں گھوٹکی کے کچے کے علاقوں میں سیلابی پانی کے باعث کچے کے مکین ایک دفعہ پھر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ سندھ حکومت اور ضلعی انتظامیہ گھوٹکی کی جانب سے سیلاب متاثرین کی امداد نہ ہونے پر وہ قادر پور لوپ بند پر کھلے آسمان تلے بیٹھے مدد کے منتظر رہے۔ اس سے قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے گھوٹکی آمد سے انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی بحالی کے لیے کچھ نہ کچھ اقدام کیے جائیں گے، لیکن نواز شریف کے گھوٹکی کے دورے کے بعد انہیں مایوسی ہوئی۔ گھوٹکی پنجاب سے جڑا ہوا سندھ کا پہلا ضلع ہے، جو سب سے پہلے اس طرح کے سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔

وزیراعلا سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر سردار علی نواز عرف راجا خان نے دورے کر کے سیلابی متاثرین کی ہر ممکن مدد کے دعوے کیے اور وزیراعظم کو قادر پور لوپ بند پر انتظامیہ نے بھی سب اچھا ہے کی اطلاع دی، جس پر وزیراعظم نے وزیراعلا سندھ کی سیلاب متاثرین کی مدد پر تعریف بھی کردی۔ نواز شریف کے گھوٹکی کے دورے پر سیلاب متاثرین مایوس ہوئے۔

وہاں برسوں سے سڑکوں پر ڈنڈے کھانے والے کارکنوں کو بھی کوئی لفٹ نہیں کرائی گئی۔ ضلعی صدر سمیت سینئر کارکنوں سے وزیراعظم نے ہاتھ تک نہیں ملایا، جب کہ پارٹی کا پرچم تھامے کارکنوں پر سیکورٹی پر مامور پولیس نے ڈنڈے برسائے اور انہیں وزیراعظم کے قریب بھی نہ ہونے دیا۔ کارکنوں کے احتجاج پر بھی کسی راہ نما نے کوئی کان نہیں دھرا۔ جس کے باعث سیلاب متاثرین کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اپنے ہی راہ نما سے گھوٹکی میں نہ مل سکے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم سے ملنا تو دور کی بات ہے، اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر کارکنوں قیصر خان پٹھان، صالح آصف سمیجو، اعجاز دایو، اﷲ وسایوگھوٹو، بشیر مزاری اور دیگر نے کہا کہ کارکن کل بھی پولیس کے ڈنڈے کھاتے نظر آرہے تھے اور آج بھی کھا رہے ہیں۔

اپنے حکومت میں ان سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ آمرانہ دور میں پورے ملک کی طرح گھوٹکی کے لیگی متوالوں نے پارٹی کے ہر حکم پر لبیک کہا اور کراچی اور لاہور سے اسلام آباد تک پارٹی کے احتجاج کی کال پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، لیکن آج انہیں اپنی ہی حکومت میں اپنے قائد کے سامنے رسوا کیا جا رہا ہے، جس کے باعث ضلع بھر کے کارکن دل برداشتہ ہیں۔

نواز شریف کے گھوٹکی کے دورے کے دوران سندھ کی قیادت میں پیدا ہونے والے اختلافات بھی سامنے آئے۔ سندھ کے صدر سید غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، اسماعیل راہو، لیاقت جتوئی، زین انصاری اور دیگر نہیں آئے۔ غوث علی شاہ تو کیا آتے، کہ بعد میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا، جب کہ زین انصاری ایک روز قبل گھوٹکی پہنچے تھے، مگر وہ بھی میاں صاحب کا استقبال کرنے سے قبل اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ میاں نواز شریف کے گھوٹکی کے دورے کو ضلع انتظامیہ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

میاں صاحب کو قادر پور لوپ بند اور بعد میں شینک بند پر دو مرتبہ سیلاب کے حوالے سے بریفننگ دی گئی، لیکن وزیراعظم کو کمشنر جتنا پروٹوکول بھی نہیں دیا گیا، جب کہ وزیراعظم کو قادر پور لوپ بند پر جعلی کیمپ کا دورہ کرایا گیا۔ جہاں پر کچھ سیلاب متاثرین کو صبح سے زمین پر بٹھا کر راشن دینے کا کہا گیا، وزیراعظم کے جانے کے بعد جعلی کیمپ ختم کر دیا گیا۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ میاں نواز شریف نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا اور اہمیت نہ ملنے پر سیکیورٹی حصار سے بھی نہیں نکلے۔ اس موقع پر وزیراعظم کی بدن بولی بتا رہی تھی کہ وہ گھوٹکی کے دورے پر خوش نہیں۔

دوران گفتگو صحافیوں کے اصرار کے باوجود کالا باغ ڈیم بنانے کے حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا، جس کے باعث سندھ کے باسیوں کے ذہنوں میں ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ گھوٹکی کے دورے کے دوران این اے 200 پر منتخب ہونے والے پی پی کے رکن قومی اسمبلی سردار علی گوہر خان کی موجودگی بھی حیران کن تھی۔ جس پر میاں صاحب سے سندھ میں فارورڈ بلاک بننے سے سوال کیاگیا، لیکن وزیراعظم نے فارورڈ بلاک بننے کے متعلق نفی میں جواب دیا۔

بڑے عرصے کے بعد نواز شریف کی سندھ آمد کے باوجود سندھ کے رہایشی خالی ہاتھ رہے، حالاں کہ ضلع گھوٹکی خاصی بھاری مقدار میں ٹیکس دیتا ہے اور گھوٹکی ضلع میں ترقیاتی پیکیج دینے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر میاں صاحب نے دوبارہ گھوٹکی آنے کے بعد اعلان کرنے کو کہا۔ لیگی متوالوں کے لیے اور شہریوں کے لیے کیوں کہ ملک کے وزیراعظم کے پاس نہ کچھ دینے کو تھا نہ کچھ لینے کو تھا۔ اب تو گھوٹکی کی عوام کی طرح لیگی متوالے بھی اپنی ہی پارٹی اور حکومت سے خفا نظر آرہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں