پاکستانی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس

پاکستان میں مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، فائد اعظم کی 1947 کی تقریر

اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں نے قیام پاکستان کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور تعمیر پاکستان میں ان کی گراں قدر خدمات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
قائداعظم محمد عملی جناح نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب کیا تھا۔

اصولی طور پر اس خطاب کو پاکستان کے آئین کی اساس ہونا چاہیئے تھا ۔ ان کی تقریر کے چند الفاظ کا مفہوم کچھ یوں ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں مسلمان، عیسائی اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکار اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں اور ان کی شناخت مسلمان، عیسائی یا ہندو کے طورپر نہیں بلکہ سارے پاکستانی برابر کے شہری ہیں۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں رہنماء اصول وضع کئے تھے اور کہا تھا کہ ان اصولوں کی بنیاد پر ریاست قائم ہوگی۔ انہوں نے رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر تمام شہریوں کے حقوق کی بات کی اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دی ۔

اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں نے قیام پاکستان کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور تعمیر پاکستان خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی ان کی گراں قدر خدمات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر یہاں ہو یہ رہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ پاکستان پر مختلف وقتوں میں قائم ہونے والی حکومتوں نے انتہا پسند قوتوں کے دباؤ پر آئین میں ایسی تبدیلیاں کیں جن کی بنیاد پر غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری بنادیا گیا۔

ضیاء الحق کے زمانے میں اقلیتوں سے زیادہ امتیازی سلوک کا باعث بننے والے قوانین بنائے گئے جن کے خاتمے کا ہر دور میں مطالبہ ہوا مگر آج تک یہ قوانین ختم نہیں ہو سکے۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویہ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے۔ ہمارے دوست وزیر صحت و انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب خلیل طاہر سندھو جو ایک اچھے قانون دان بھی ہیں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعتوں پر مشتمل سابق حکومت نے اٹھارویں آئینی ترمیم متعارف کرائی، اس میں یہ شق بھی شامل کر دی گئی کہ ملک کا وزیراعظم قومی اسمبلی کے مسلمان ارکان میں سے ہوگا۔

میرے لئے یہ انکشاف یقیناً حیران کن تھا ۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ اگر کسی اقلیت میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اس سے تعلق رکھنے والا لائق سے لائق فرد بھی پاکستان کا صدر بن سکتا ہے نہ وزیراعظم تو ایسی صورت میں ان میں پیدا ہونے والے احساس محرومی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اندر مسلکی اقلیتوں کو تو چھوڑیں اگر پاکستان کے مسیحیوں کے معاملے کو دیکھا جائے تو ان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، اس کی مثال دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ملتی ہے۔ عیسائی یا مسیحی پاکستان کی سب سے زیادہ پسماندہ اور غریب کمیونٹی ہے۔

عیسائی پاکستان کی سب سے بڑی مینارٹی ہیں، ان کے پاس نہ اعلیٰ سرکاری ملازمتیں ہیں اور نہ ہی کاروبار ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں خصوصا مسیحیوں کیلئے سب سے بڑی قربانی سابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے دی ہے، وہ بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اسلام آباد پولیس نے ان کے قتل میں ملوث اصل ملزم حماد عادل کو گرفتار کر لیا ہے جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے ہے ۔ ملزم حماد عادل پنجاب پولیس میں تعینات ایس ایس پی رینک کے افسر کامران عادل کا بھائی ہے۔




وہ فوج کے سرجن لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار کے قتل میں بھی ملوث ہے تاہم اس بارے میں ابھی تفتیش کا عمل جاری ہے۔ شہباز بھٹی نے پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں اقلیتوں کیلئے تاریخی اقدامات کروائے۔ سرکاری ملازمتوں میں گریڈ 1سے اعلیٰ سول سروس تک اقلیتوں کیلئے 5فیصد کوٹہ مختص کرایا گیا ، اقلیتو ں کو ہر صوبے سے سینیٹ میں نمائندگی دی گئی ،11اگست کو یوم اقلیت قرار دیا گیا اور ہر سال پانچ بڑی اقلیتوں کیلئے دس فیسٹیول سرکاری سطح پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا ۔شہباز بھٹی نے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے کام کیا اور ان کی تجویز پر بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت قائم کی گئی، آل پاکستان مینارٹی الائینس پاکستان میں اقلیتوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے

۔ ڈاکٹر پال بھٹی بطور پارٹی چیئرمین اپنے بھائی شہباز بھٹی کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلئے متحرک ہیں اور حال میں ہی حکومت برطانیہ کی دعوت پر برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز سے بھی خطاب کر کے آئے ہیں۔ وہ گرجا گھر خود کش دھماکے پر فوری پشاور پہنچے اور ہسپتال جاکر مریضوں کی عیادت بھی کی۔ ڈاکٹر پال بھٹی نے اس سانحے پر سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی بات کی اور انہیں سندھ حکومت کی طرف سے مالی امداد کی درخواست کی، سندھ حکومت نے سابق صدر کی ہدایت پر سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کیلئے پانچ ، پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ۔ ڈاکٹر پال بھٹی کا کہنا ہے کہ'' حکومت انتہاء پسندوں سے مذاکرات کے معاملے میں کمزوری دکھا رہی ہے۔

دہشت گردوں کے ساتھ کوئی کمپرومائزنہیں ہونا چاہئے۔ دہشت گردی میں ملوث عناصر کی کاروائیوں کا سخت جواب دیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آل پار ٹیز کانفرنس میں اقلیتوں کو آن بورڈ نہیں لیا گیا اورانہیں نظر انداز کیا گیا۔ دو ہفتے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہا ہوں مگر مجھے وقت نہیں دیا گیا۔ میں اقلیتوں کو در پیش سکیورٹی ایشوز اور اپنے بھائی سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کی تفتیش کے معاملے پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں سے بات چیت کرنا چاہتا تھا اور میں نے اس حوالے سے وزیر داخلہ کو خط بھی لکھا لیکن اس خط کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا''۔

سانحہ پشاور سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بڑا دھچکا پہنچا ہے، اب پاکستان کے اندر بھی طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کیلئے دباؤ بڑھ گیا ہے ۔ ادھرصورتحال یہ ہے کہ مذاکرات میں بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ طالبان کے رویے میں پہلے کوئی لچک تھی نہ اب کوئی تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ماضی میں بھی کئی بار طالبان سے مذاکرات ہوئے مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ اے پی سی دہشت گردی پر قومی پالیسی بنانے کیلئے بلائی گئی مگر اس کو مذاکرات کے ون پوائنٹ ایجنڈے تک محدود کر دیا گیا۔ حکومت نے کمزوری دکھائی اور اس کا فائدہ دہشت گرد اٹھا گئے۔

دہشت گرد مختلف گروہ ہیں کوئی ایک فرد نہیں جس سے مذاکرات ہوسکیں۔ حکومت نے مذاکرات کیلئے کوئی ہوم ورک بھی تیار نہیں کیا تھا اور تیاری کے بغیر مذاکرات کی دعوت دی گئی۔ لندن میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت نے اچھی نیت سے ایک نیک کام کا آغاز کیا اور طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کو کل جماعتی کانفرنس میں موجود تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کی جو سوچ تھی وہ آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔

لگتا ہے کہ میاںصاحب کو احساس ہوچکا ہے کہ مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور انہیں بالآخر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی طرف آنا ہوگا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب مسلم لیگ ن میں شامل انتہا پسندوں کے ہمدردوں کو کارنر کرسکیں گے ؟عمران خان ، فضل الرحمنٰ اور منورحسن کھل کر طالبان اور انتہا پسندوں کی حمایت کررہے ہیں، کیا میاں صاحب ان کی مخالفت کا سامنا کر پائیں گے۔ اب یہ طے ہے کہ مسلے کا حل بے رحم آپریشن ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میاں صاحب خود کو ناکام ہی سمجھیں۔
Load Next Story