ٹارگیٹڈ آپریشن سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں توجہ کی متقاضی
سپریم کورٹ اور حکومت کے فیصلوں کے باعث ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کا کردار بنیادی نہیں بلکہ ثانوی بن کر رہ گیا ہے۔
LONDON:
حکومت سندھ اس وقت عجیب وغریب صورت حال سے دو چار ہے ۔
ایک طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی میں دہشت گردی ، بدامنی اور بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے حکومت سندھ کو احکامات جاری کر رہی ہے اور دوسری طرف وفاقی حکومت براہ راست اپنی نگرانی میں ٹارگیٹڈ آپریشن سے متعلق امور انجام دے رہی ہے اور حکومت سندھ آپریشن کے لیے صرف سہولت فراہم کرنے والے ادارے کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر عمل در آمد کے حوالے سے اکثر اوقات پولیس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے جبکہ ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کا کردار بنیادی نہیں بلکہ ثانوی بن کر رہ گیا ہے۔
اس صورت حال سے مستقبل قریب میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور وہ پہلے مرحلے کے نتائج پر اطمینان کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن کراچی کے لوگوں میں اطمینان کی وہ کیفیت نہیں ہے ۔ اگرچہ ٹارگٹ کلنگ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن کراچی کے لوگوں کو گزشتہ تیس سال کے تجربے کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں کمی دہشت گردوں کی کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہو سکتی ہے ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن جو رخ اختیار کر رہا ہے، اس سے نہ صرف بعض پیچیدگیاں اجاگر ہونے لگی ہیں بلکہ آپریشن سے وابستہ لوگوں کی امیدیں بھی سوالات میں تبدیل ہو رہی ہیں ۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی ، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے حکم دیا کہ کراچی میں 33665مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے ، ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور کراچی میں ملائشیا کی طرز پر آپریشن کیا جائے ۔ جناب چیف جسٹس نے پیرول پر رہا کئے جانے والے ملزمان اور مقتول پولیس اہلکاروں کے مقدمات کی بھی تفصیلات طلب کرلیں ۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ حکومت سندھ غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے لیے اقدامات کرے اور کراچی میں اسلحہ کی بازیابی کے لیے کرفیو بھی لگانا پڑے تو لگایا جائے ۔
سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات اور اس سے قبل دیئے جانے والے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لیے پولیس کا کردار زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بھی سوال کیا کہ پولیس اگر دہشت زدہ ہو تو امن کیسے ممکن ہے ؟ لیکن کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جو ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جارہا ہے ، اس کی بنیاد اس ''تھیوری'' پر ہے کہ پولیس ناکام ہو چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کو رینجرزکے ما تحت کردیا گیا ہے اور آئی جی سندھ پولیس بھی ڈی جی رینجرز کی کمان میں کام کریں گے ۔ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ، جس کے تحت رینجرز کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ وارننگ دے کر دہشت گردوں ، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروںکو گولی مار دے ۔
رینجرز کو حراست میں رکھنے اور تفتیش کرنے کے بھی اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ حکومت سندھ نے ابھی تک وفاقی کابینہ کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون انسانی حقوق سے متصادم نہیں ہوا تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ حکومت سندھ وفاقی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جو پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں، ان پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ خطرناک مسائل کی صورت اختیار کر سکتی ہیں ۔ رینجرز کی قیادت میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا منصوبہ بنانے والوں کی اپروچ اور سندھ کی سیاسی جماعتوں اور سندھ پولیس کی اپروچ میں جو فرق نمایاں ہو رہا ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کراچی بد امنی کیس میں کراچی کے حالات کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہے ، اس کا مکمل ادراک کرنا ضروری ہے ۔
اسی کیس کی سماعت کے دوران مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس سے یہ انکشافات ہوئے ہیں کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں صرف پاکستان کے اندر کی نہیں بلکہ باہر کی قوتیں بھی ملوث ہیں اور کراچی کی بد امنی نے ایک ایسا ''مخصوص مفاد '' تخلیق کردیا ہے ، جو نہ صرف اس بد امنی کا تحفظ کرتا ہے بلکہ اسے پروان بھی چڑھاتا ہے ۔
یہ مخصوص مفاد امن قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ کراچی آپریشن کے پہلے مرحلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، وہ کراچی میں بد امنی کے اصل کردار نہیں ہیں بلکہ اصل کردار یا تو محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوگئے ہیں یا انہیں سیاسی مصلحتوں کی پناہ گاہیں فراہم کردی گئی ہیں ۔ اس طرح آپریشن کے پہلے مرحلے کو وفاقی وزیرداخلہ کی طرف سے کامیاب قرار دینے کے دعوے پر بہت سے سوالات سامنے آرہے ہیں ۔
آپریشن کا دوسرا اور تیسرا مرحلہ وفاقی وزیر داخلہ کے بقول زیادہ سخت ہو گا ۔ لیکن اگر آپریشن کے بارے میں اپروچ تبدیل نہ کی گئی اور سندھ کی سیاسی جماعت کی اجمتاعی دانش اور سندھ پولیس کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو آپریشن کے خلاف رد عمل بھی سخت ہو سکتا ہے ۔ آپریشن کے لیے کراچی بد امنی کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات ایک گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ کیس کی سماعت کے دوران کراچی کے مسئلے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے ۔
کراچی کے ٹارگیٹڈ آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے شاید مسئلے کو اس قدر گہرائی تک نہیں سمجھ پائے ہوں گے۔ اس لیے آپریشن کے پہلے مرحلے میں بہت سی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں ، جو بعد میں پیچیدہ مسائل بن سکتی ہیں ۔ سندھ حکومت اور سندھ پولیس کو معاملات میں زیادہ آن بورڈ رکھنا ہوگا ۔
کراچی میں رینجرز کو زیادہ اختیارات دینے پر سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی باقاعدہ اعتراض نہیں کیا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کو اگرچہ آپریشن کے حوالے سے اندرون خانہ کچھ تحفظات ہیں لیکن انہوںنے ان تحفظات کا اظہار بھی نہیں کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو آپریشن کے لیے مکمل سازگار سیاسی ماحول فراہم کیا جا رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں کوئی اعتراض نہیں کریں گی اور زیادہ عرصے تک خاموش رہیں گی ۔ وہ صرف ایک مخصوص مدت کے لیے حالات کو دیکھ رہی ہیں ۔
وہ اس بات کا جائزہ لے رہی ہیں کہ آپریشن کیا رخ اختیار کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں ۔ کراچی میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بھی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔ پولیس کو بھی ناکام قرار دے دیا گیا ہے ۔
سیاسی جماعتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ رینجرز ناکام ہوں کیونکہ اس ناکامی کے نتائج بہت خطرناک ہیں ۔ وفاقی حکومت کو صورت حال کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا اور آپریشن کی حکمت عملی بنانے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتوں کی اجتماعی دانش سے بھی رہنمائی حاصل کرنا ہوگی اور سندھ پولیس کا مورال بلند کرتے ہوئے اسے اگلے محاذوں پر ساتھ رکھنا ہوگا کیونکہ رینجرز کا کام مکمل ہونے کے بعد پولیس کو ہی مستقل بنیادوں پر صورت حال کو کنٹرول کرنا ہو گا ۔ کراچی مختلف لسانی گروہوں کا مسکن ہے ، جو سیاسی طور پر انتہائی حساس ہیں ۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا ۔ لیکن وفاقی حکومت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے مسئلے پر جس طرح پھنسی ہوئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ دیگر معاملات میں بھی اس کی سوچ زیادہ واضح نہیں ہے اور یہی بات تشویش ناک ہے ۔
حکومت سندھ اس وقت عجیب وغریب صورت حال سے دو چار ہے ۔
ایک طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی میں دہشت گردی ، بدامنی اور بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے حکومت سندھ کو احکامات جاری کر رہی ہے اور دوسری طرف وفاقی حکومت براہ راست اپنی نگرانی میں ٹارگیٹڈ آپریشن سے متعلق امور انجام دے رہی ہے اور حکومت سندھ آپریشن کے لیے صرف سہولت فراہم کرنے والے ادارے کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر عمل در آمد کے حوالے سے اکثر اوقات پولیس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے جبکہ ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کا کردار بنیادی نہیں بلکہ ثانوی بن کر رہ گیا ہے۔
اس صورت حال سے مستقبل قریب میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور وہ پہلے مرحلے کے نتائج پر اطمینان کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن کراچی کے لوگوں میں اطمینان کی وہ کیفیت نہیں ہے ۔ اگرچہ ٹارگٹ کلنگ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن کراچی کے لوگوں کو گزشتہ تیس سال کے تجربے کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں کمی دہشت گردوں کی کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہو سکتی ہے ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن جو رخ اختیار کر رہا ہے، اس سے نہ صرف بعض پیچیدگیاں اجاگر ہونے لگی ہیں بلکہ آپریشن سے وابستہ لوگوں کی امیدیں بھی سوالات میں تبدیل ہو رہی ہیں ۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی ، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے حکم دیا کہ کراچی میں 33665مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے ، ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور کراچی میں ملائشیا کی طرز پر آپریشن کیا جائے ۔ جناب چیف جسٹس نے پیرول پر رہا کئے جانے والے ملزمان اور مقتول پولیس اہلکاروں کے مقدمات کی بھی تفصیلات طلب کرلیں ۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ حکومت سندھ غیر قانونی اسلحہ کی بازیابی کے لیے اقدامات کرے اور کراچی میں اسلحہ کی بازیابی کے لیے کرفیو بھی لگانا پڑے تو لگایا جائے ۔
سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات اور اس سے قبل دیئے جانے والے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لیے پولیس کا کردار زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بھی سوال کیا کہ پولیس اگر دہشت زدہ ہو تو امن کیسے ممکن ہے ؟ لیکن کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جو ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جارہا ہے ، اس کی بنیاد اس ''تھیوری'' پر ہے کہ پولیس ناکام ہو چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کو رینجرزکے ما تحت کردیا گیا ہے اور آئی جی سندھ پولیس بھی ڈی جی رینجرز کی کمان میں کام کریں گے ۔ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ، جس کے تحت رینجرز کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ وارننگ دے کر دہشت گردوں ، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروںکو گولی مار دے ۔
رینجرز کو حراست میں رکھنے اور تفتیش کرنے کے بھی اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ حکومت سندھ نے ابھی تک وفاقی کابینہ کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون انسانی حقوق سے متصادم نہیں ہوا تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ حکومت سندھ وفاقی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جو پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں، ان پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ خطرناک مسائل کی صورت اختیار کر سکتی ہیں ۔ رینجرز کی قیادت میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا منصوبہ بنانے والوں کی اپروچ اور سندھ کی سیاسی جماعتوں اور سندھ پولیس کی اپروچ میں جو فرق نمایاں ہو رہا ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کراچی بد امنی کیس میں کراچی کے حالات کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہے ، اس کا مکمل ادراک کرنا ضروری ہے ۔
اسی کیس کی سماعت کے دوران مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس سے یہ انکشافات ہوئے ہیں کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں صرف پاکستان کے اندر کی نہیں بلکہ باہر کی قوتیں بھی ملوث ہیں اور کراچی کی بد امنی نے ایک ایسا ''مخصوص مفاد '' تخلیق کردیا ہے ، جو نہ صرف اس بد امنی کا تحفظ کرتا ہے بلکہ اسے پروان بھی چڑھاتا ہے ۔
یہ مخصوص مفاد امن قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ کراچی آپریشن کے پہلے مرحلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، وہ کراچی میں بد امنی کے اصل کردار نہیں ہیں بلکہ اصل کردار یا تو محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوگئے ہیں یا انہیں سیاسی مصلحتوں کی پناہ گاہیں فراہم کردی گئی ہیں ۔ اس طرح آپریشن کے پہلے مرحلے کو وفاقی وزیرداخلہ کی طرف سے کامیاب قرار دینے کے دعوے پر بہت سے سوالات سامنے آرہے ہیں ۔
آپریشن کا دوسرا اور تیسرا مرحلہ وفاقی وزیر داخلہ کے بقول زیادہ سخت ہو گا ۔ لیکن اگر آپریشن کے بارے میں اپروچ تبدیل نہ کی گئی اور سندھ کی سیاسی جماعت کی اجمتاعی دانش اور سندھ پولیس کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو آپریشن کے خلاف رد عمل بھی سخت ہو سکتا ہے ۔ آپریشن کے لیے کراچی بد امنی کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات ایک گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ کیس کی سماعت کے دوران کراچی کے مسئلے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے ۔
کراچی کے ٹارگیٹڈ آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے شاید مسئلے کو اس قدر گہرائی تک نہیں سمجھ پائے ہوں گے۔ اس لیے آپریشن کے پہلے مرحلے میں بہت سی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں ، جو بعد میں پیچیدہ مسائل بن سکتی ہیں ۔ سندھ حکومت اور سندھ پولیس کو معاملات میں زیادہ آن بورڈ رکھنا ہوگا ۔
کراچی میں رینجرز کو زیادہ اختیارات دینے پر سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی باقاعدہ اعتراض نہیں کیا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کو اگرچہ آپریشن کے حوالے سے اندرون خانہ کچھ تحفظات ہیں لیکن انہوںنے ان تحفظات کا اظہار بھی نہیں کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو آپریشن کے لیے مکمل سازگار سیاسی ماحول فراہم کیا جا رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں کوئی اعتراض نہیں کریں گی اور زیادہ عرصے تک خاموش رہیں گی ۔ وہ صرف ایک مخصوص مدت کے لیے حالات کو دیکھ رہی ہیں ۔
وہ اس بات کا جائزہ لے رہی ہیں کہ آپریشن کیا رخ اختیار کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں ۔ کراچی میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بھی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔ پولیس کو بھی ناکام قرار دے دیا گیا ہے ۔
سیاسی جماعتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ رینجرز ناکام ہوں کیونکہ اس ناکامی کے نتائج بہت خطرناک ہیں ۔ وفاقی حکومت کو صورت حال کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا اور آپریشن کی حکمت عملی بنانے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتوں کی اجتماعی دانش سے بھی رہنمائی حاصل کرنا ہوگی اور سندھ پولیس کا مورال بلند کرتے ہوئے اسے اگلے محاذوں پر ساتھ رکھنا ہوگا کیونکہ رینجرز کا کام مکمل ہونے کے بعد پولیس کو ہی مستقل بنیادوں پر صورت حال کو کنٹرول کرنا ہو گا ۔ کراچی مختلف لسانی گروہوں کا مسکن ہے ، جو سیاسی طور پر انتہائی حساس ہیں ۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا ۔ لیکن وفاقی حکومت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے مسئلے پر جس طرح پھنسی ہوئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ دیگر معاملات میں بھی اس کی سوچ زیادہ واضح نہیں ہے اور یہی بات تشویش ناک ہے ۔