وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ طے کابینہ میں توسیع التوا کا شکار

بلوچستان میں محکموں اور وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ افہام و تفہیم سے طے ہوگیا ہے۔

نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی کابینہ میں شامل کئے گئے اپنے وزراء اور مشیروں کے نام فائنل کرلئے ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کی کابینہ میں توسیع کا معاملہ بدستور التواء میں ہے تاہم اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محکموں اور وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ افہام و تفہیم سے طے ہوگیا ہے جس کے تحت مسلم لیگ (ن) کو چھ وزارتیں اور دو مشیر، پشتونخواملی عوامی پارٹی کو چار وزارتیں دو مشیر اور نیشنل پارٹی کو چار وزارتیں اور ایک مشیر ملے گا۔

جبکہ محکموں میں مسلم لیگ (ن) کو کمیونیکیشن اینڈ ورکس، ایری گیشن اینڈ انرجی، مائنز اینڈ منرلز، فوڈ اینڈ فشریز، داخلہ و قبائلی اُمور جیلخانہ جات، پی ڈی ایم اے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اینڈ ریونیو، محنت و افرادی قوت، سوشل ویلفیئر، زکواۃ و عشر، بین الصوبائی رابطہ، نان فارمل ایجوکیشن، وویمن ڈیویلپمنٹ جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، بی ڈی اے،کیو ڈی اے، جی ڈی اے، پی ایچ ای، ایجوکیشن، واسا، انفارمیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی،لائیو سٹاک، جنگلات، لوکل گورنمنٹ و دیہی منصوبہ بندی و ترقی، قانون و پارلیمانی اُمور اور ماحولیات جبکہ نیشنل پارٹی کو ایس اینڈ جی اے ڈی، زراعت، خزانہ،صحت،پاپولیشن ویلفیئر، اقلیت و انسانی حقوق، کھیل و ثقافت، یوتھ افیئرز، لائبریری آرکائیوز، میوزیم ٹورازم کے محکمے ملیں گے۔

دوسری جانب نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کابینہ میں شامل کئے گئے اپنے وزراء اور مشیروں کے نام فائنل کرلئے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک اپنے ناموں کو حتمی شکل نہیں دی، توقع کی جارہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف جو کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بھی ہیں کی بیرون ملک سے واپسی کے بعد ان ناموں کو بھی حتمی شکل دے دی جائے گی جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی اس وقت لندن کے دورے پر ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کا یہ دورہ انتہائی اہم نوعیت کا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے لندن میں فیض احمد فیض مرحوم کی سالگرہ کی سو سالہ تقریبات میں شرکت کی اور اپنے اس دورے کے دوران توقع کی جارہی ہے کہ وہ جلاوطن ناراض سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے جبکہ دوسری جانب بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے ان اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیاگیا اور ہماری جماعت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بھی شوق نہیں ہے ۔

کیونکہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر بلوچ مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے نام پر پہلے بھی بہت دھوکے کھا چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ دورہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے دیکھنا یہ ہے کہ ان کی جلاوطن ناراض رہنماؤں سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں، تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی واپسی کے بعد ہی کابینہ میں توسیع کی جاسکے گی۔




بلوچستان کے مایہ ناز معالج ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو گذشتہ دنوں پشین سٹاپ کے قریب ان کے نجی ہسپتال سے گھر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا تھا جس کے بعد بلوچستان بھر خصوصاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز نے علامتی ہڑتال کا آغاز کردیا ہے جس کے باعث عوام الناس کو صحت کی سہولیات ناپید ہوگئی ہیں اور عوام اس صورتحال سے سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں جبکہ لورالائی سے اغواء ہونے والے تین ڈاکٹروں کو اغواء کاروں نے رہا کردیا ہے اور یہ ڈاکٹرز 103 روز کے بعد اپنے علاقے قلعہ سیف اﷲ پہنچے۔

ڈاکٹر مناف کے اغواء کے بعد صوبے کی سیاسی جماعتوں نے اسے حکومت کی نا اہلی سے تعبیر کرتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حکومتی سطح پر ڈاکٹر عبدالمناف ترین کی بازیابی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جانے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ تاہم تاحال ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔ ڈاکٹر عبدالمناف ترین کے اغواء کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کی بلوچستان رجسٹری میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کیلئے کوئٹہ میں موجود تھے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیس میں وزارت داخلہ، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کی عدم دلچسپی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرنٹیئر کور کے افسران اور دیگر اہلکاروں سمیت جو بھی وردی والے لوگ مقدمات میں نامزد کئے گئے ہیں کو تفتیش کیلئے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

تین رکنی بنچ نے بلوچستان بدامنی کیس کی بھی سماعت کی، عدالت نے لاپتہ افراد کے کیس کو چار کیٹگریز میں تقسیم کردیا ، پہلی کیٹگری میں فرنٹیئر کور، دوسری میں خفیہ ایجنسیوں، تیسری میں پولیس اور چوتھی میں مشکوک کیسز کو رکھا گیا ہے ،بنچ نے خفیہ ایجنسیوں، ایف سی اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ لاپتہ افراد کے متعلق دس دن میں رپورٹ دی جائے۔ جبکہ جو لوگ فراری کیمپوں میں ہیں ان کی بھی رپورٹ پیش کی جائے۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کی جا رہی ہے اس لئے کچھ چیزیں کھلی عدالت میں وہ نہیں بتاسکتے۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر مناف ترین کے اغواء کا بھی نوٹس لیا اور ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں ایف سی، لیویز اور پولیس کے موجود ہونے کے باوجود لوگ اغواء کئے جا رہے ہیں پراسیکیوٹر جنرل بھی اغواء ہوا جسے رقم دے کر بازیاب کرایا گیا، ان کا کہنا تھا کہ کتنا اسلحہ اور منشیات یہاں لائی جاتی ہے اور کتنے بندے اغواء ہوئے اس کی بھی تفصیل دی جائے۔ چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر سے کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسلحہ منشیات اور غیر قانونی گاڑیوں کی سمگلنگ کو روکیں، شعیب سڈل کی رپورٹ سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ،کوئٹہ شہر جدید اسلحے سے بھرا ہے بتایا جائے کہ یہ اسلحہ آسمان سے گرا ہے یا کہیں اور سے آرہا ہے۔
Load Next Story