لاہور پولیس نے فیکٹریوں اور گھروں میں چوری کرنے والے ملازمین کا حل نکال لیا
" پولیس آئی " میں 128 فیکٹریوں اور ملوں کے 83 ہزار 7 سو95 مزدور و ملازمین کے کوائف محفوظ ہوچکے ہیں
پولیس نے " پولیس آئی " کے نام سے ایک ایپ متعارف کرائی ہے جس کے ذریعے فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کے کوائف کا اندراج کیا جائے گا۔
لاہور پولیس نے " پولیس آئی " کے نام سے ایک ایپ متعارف کروادی، اس ایپ کے نام سے اس کا مطلب بیان ہوتا ہے ۔ پولیس کی یہ آنکھ اب نظر رکھے گی تمام ملازمین پر۔
ایس ایس پی آپریشنز اسماعیل کھاڑک نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انہوں نے مانگامنڈی ، سندر اور قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ میں قریب 143 فیکٹریوں اور مل مالکان اور مینیجرز سے ملاقاتیں کیں جس میں انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی فیکٹری اور ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو پولیس کے پاس رجسٹرڈ کروائیں ، اس رجسٹریشن سے پولیس کے پاس تمام ملازمین کا ڈیٹامحفوظ ہوجائے گا، مستقبل میں اگر کوئی ملازم کسی بھی طرح کی واردات میں ملوث ہوکر فرار ہوجاتا ہے تو اس کی تلاش میں آسانی ہوگی ۔ تمام تاجروں نے رجسٹریشن پر اتفاق کیا لیکن اس کام کے لیے انہوں نے ملازمین کو تھانوں میں بھیجنے کی حامی نہیں بھری۔
اسماعیل کھاڑک نے تمام تاجروں کی سہولت کے لیے انہیں بتایا کہ لاہور پولیس ان کے کسی ایک کمیوٹر سسٹم میں ایک ایپ انسٹال کرے گی جس میں تمام مزدوروں اور ملازمین کا ڈیٹا محفوظ ہوجائے گا۔ اس ایپ کو لاہور پولیس نے " پولیس آئی" کا نام دیا ہے۔ اب تک " پولیس آئی " میں 128 فیکٹریوں اور ملوں کے 83 ہزار 7 سو95 مزدور و ملازمین کے کوائف سٹور ہوچکے ہیں ۔ اس ایپ میں ڈیٹا کی انٹری کے وقت مزدور یا سٹاف کے شخص کی تازہ تصویر ، شناختی کارڈ کی دو اطراف سے کاپی ، موبائل نمبر اور جس ریفرنس سے ملازمت پر آیا سب کوائف کا اندراج کیا جاتا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا ہے اگلے مرحلے میں شہر کی تمام بڑی رہائشی سوسائٹیز کی انتظامیہ سے میٹنگ ہورہی ہے جس کے بعد " پولیس آئی" ایپ میں تمام گھریلو ملازمین کا ڈیٹا رجسٹر کیا جائے گا، محرم الحرام کے بعد شہر کے تمام علاقوں کے رہائشیوں کو ملازمین کے اندراج کے لیے پابند کیا جائے گا تیسرے مرحلے میں مارکیٹوں اور بازاروں کی انتظامیوں سے میٹنگز کرکے دکان داروں اور تاجروں کے ملازمین بھی رجسٹرڈ ہوں گے۔ ملازمین کے ڈیٹا سے دہشت گردی، چوری اور ڈکیتی کی روک تھام میں مدد ملے گی ۔ شہریوں کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ ان کے پاس کام کرنے والا ملازم کسی غیرقانونی سرگرم میں ملوث تو نہیں اور ملازم کو پتہ ہو گا کہ اس کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے اگر اس نے کوئی جرم کیا تو قانون کی گرفت میں ہوگا ۔
لاہور پولیس نے " پولیس آئی " کے نام سے ایک ایپ متعارف کروادی، اس ایپ کے نام سے اس کا مطلب بیان ہوتا ہے ۔ پولیس کی یہ آنکھ اب نظر رکھے گی تمام ملازمین پر۔
ایس ایس پی آپریشنز اسماعیل کھاڑک نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انہوں نے مانگامنڈی ، سندر اور قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ میں قریب 143 فیکٹریوں اور مل مالکان اور مینیجرز سے ملاقاتیں کیں جس میں انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی فیکٹری اور ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو پولیس کے پاس رجسٹرڈ کروائیں ، اس رجسٹریشن سے پولیس کے پاس تمام ملازمین کا ڈیٹامحفوظ ہوجائے گا، مستقبل میں اگر کوئی ملازم کسی بھی طرح کی واردات میں ملوث ہوکر فرار ہوجاتا ہے تو اس کی تلاش میں آسانی ہوگی ۔ تمام تاجروں نے رجسٹریشن پر اتفاق کیا لیکن اس کام کے لیے انہوں نے ملازمین کو تھانوں میں بھیجنے کی حامی نہیں بھری۔
اسماعیل کھاڑک نے تمام تاجروں کی سہولت کے لیے انہیں بتایا کہ لاہور پولیس ان کے کسی ایک کمیوٹر سسٹم میں ایک ایپ انسٹال کرے گی جس میں تمام مزدوروں اور ملازمین کا ڈیٹا محفوظ ہوجائے گا۔ اس ایپ کو لاہور پولیس نے " پولیس آئی" کا نام دیا ہے۔ اب تک " پولیس آئی " میں 128 فیکٹریوں اور ملوں کے 83 ہزار 7 سو95 مزدور و ملازمین کے کوائف سٹور ہوچکے ہیں ۔ اس ایپ میں ڈیٹا کی انٹری کے وقت مزدور یا سٹاف کے شخص کی تازہ تصویر ، شناختی کارڈ کی دو اطراف سے کاپی ، موبائل نمبر اور جس ریفرنس سے ملازمت پر آیا سب کوائف کا اندراج کیا جاتا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا ہے اگلے مرحلے میں شہر کی تمام بڑی رہائشی سوسائٹیز کی انتظامیہ سے میٹنگ ہورہی ہے جس کے بعد " پولیس آئی" ایپ میں تمام گھریلو ملازمین کا ڈیٹا رجسٹر کیا جائے گا، محرم الحرام کے بعد شہر کے تمام علاقوں کے رہائشیوں کو ملازمین کے اندراج کے لیے پابند کیا جائے گا تیسرے مرحلے میں مارکیٹوں اور بازاروں کی انتظامیوں سے میٹنگز کرکے دکان داروں اور تاجروں کے ملازمین بھی رجسٹرڈ ہوں گے۔ ملازمین کے ڈیٹا سے دہشت گردی، چوری اور ڈکیتی کی روک تھام میں مدد ملے گی ۔ شہریوں کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ ان کے پاس کام کرنے والا ملازم کسی غیرقانونی سرگرم میں ملوث تو نہیں اور ملازم کو پتہ ہو گا کہ اس کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے اگر اس نے کوئی جرم کیا تو قانون کی گرفت میں ہوگا ۔