کراچی سیاست کی نذرکب تک
ن سون کی حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کا جو حال ہوا، اس پر کراچی کی سیاست پھر عروج پر ہے
کراچی کو ''کچرا شہر''کا نام گزشتہ سال صفائی کے شدید فقدان اور کچرے کے ڈھیروں کے باعث ملا تھا۔ کراچی کا مینڈیٹ اس وقت تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے، پاکستان تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ کراچی سے قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں ملی ہیں، اس جماعت کی وفاق میں حکومت ہے۔
پیپلزپارٹی کی سندھ میں مسلسل تیسری بار صوبائی حکومت قائم ہوئی ہے جب کہ کراچی میں بلدیاتی اکثریت رکھنے والی ایم کیو ایم ہے، جس کا کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کا ایک میئر اور چار ڈی ایم سیزکے چیئرمین ہیں۔ضلع کونسل کراچی اور ملیروساؤتھ ضلع کی بلدیاتی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور پی ٹی آئی کے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں صرف چند یوسی چیئرمین منتخب ہوئے تھے اور ضلع غربی کی ڈی ایم سی میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے باہمی معاہدے کے تحت چیئرمین اور وائس چیئرمین مقررکرائے تھے اور عدالتی حکم امتناعی کے باعث ایم کیو ایم کے چیئرمین ڈی ایم سی ویسٹ دو سال تک عہدہ نہیں سنبھال سکے تھے اور بعد میں مفاہمت کے باعث کیس واپس ہوا تو چیئرمین نے چارج سنبھالا تھا۔
مون سون کی حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کا جو حال ہوا، اس پر کراچی کی سیاست پھر عروج پر ہے اور شہر قائد کی حالت زار سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے جب کہ کراچی میں بارش حیدرآباد سے کم ہوئی مگر کراچی کی سیاست میں پی ٹی آئی ایک سال قبل ایم کیو ایم کی جگہ لائی گئی تھی اور ایم کیو ایم دوسرے نمبر پر آنے کے بعد مجبور ہوکر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں شامل ہوئی کیونکہ سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت کے باعث پیپلزپارٹی کو ایم کیو ایم کی بالکل ضرورت نہیں تھی اور ایم کیو ایم کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ سندھ میں پی پی کی گزشتہ حکومت نے بھی ایم کیو ایم کو ان کی پالیسی کی وجہ سے سندھ حکومت میں شامل کیا تھا نہ مسلم لیگ کی وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کو لفٹ کرائی تھی اور پانچ سال ایم کیو ایم کسی حکومت میں شامل نہیں تھی۔
پانچ سال قبل سپریم کورٹ کے حکم پر جو بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے اس میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی اکثریت اس لیے حاصل کرلی تھی کہ وہ ایک قائد کے ماتحت تھی اور کراچی میں اس کی اہم حریف پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی تھے مگر پیپلز پارٹی کو اپنی حکومت اور مخصوص علاقوں سے کامیابی ملی تھی جب کہ جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کو چند علاقوں سے کامیابی ملی تھی اور ایم کیو ایم حقیقی بھی مکمل طور پر ناکام رہی تھی۔
پیپلز پارٹی نے سندھ میں 2008 میں جب وفاق اور سندھ میں حکومت بنائی تو دونوں جگہ ایم کیو ایم کو اپنا حلیف بنایا تھا اور آج آصف زرداری پر برسنے والے متحدہ کے اس وقت کے قائد نے ہی آصف زرداری کو ہی ایم کیو ایم کے ذریعے صدارتی امیدوار نامزد کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے حلیف ہونے کے باوجود اپنی من مانی کرکے سندھ اسمبلی میں ایک کمزور، بے اختیار بلدیاتی نظام منظورکرایا تھا جو جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی نظام کے برعکس جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام سے بھی بدتر تھا اور یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ کراچی کی بلدیاتی سربراہی کبھی بھی پیپلز پارٹی کو نہیں ملی ۔ پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں ایم کیو ایم کے کراچی میں بلدیاتی سربراہ رہے اور پیپلز پارٹی کی اپنی غلط پالیسی اور دہرے کردار کے باعث کراچی کی اکثریت نے کبھی پیپلز پارٹی کو بلدیاتی قیادت کا اہل سمجھا اور نہ ہی آیندہ ایسی کوئی امید ہے کہ کراچی میں کبھی پیپلز پارٹی اپنا میئر لا سکے گی۔
اسی وجہ سے پی پی حکومت نے ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کو اختیارات نہیں دیے اور حال ہی میں 8 سال تک سکھرکے با اختیار ضلعی ناظم رہنے والے اور موجودہ وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کو سابقہ ضلعی نظام جیسے اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اب ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی کی بی ٹیم قرار دے دیا ہے ۔
ایم کیو ایم کے میئر کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے وزیر بحری امور علی زیدی صفائی مہم چلا رہے ہیں اور دکھاؤے کے لیے پی پی کے وزیر بلدیات نے کلین کراچی مہم میں تعاون کا بھی اعلان کیا ہے مگر بعض وجوہات کی وجہ سے سابق وزیر بلدیات اور وزیر اطلاعات سعید غنی نے علی زیدی کی صفائی مہم پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہم کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور نالوں سے نکالا جانے والا کچرا پورے شہر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ کراچی کے کامیاب رہنے والے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کو تڑوانے کے بعد ایم کیو ایم کے مقابلے میں پی ایس پی بنائی تھی جب کہ ایم کیو ایم حقیقی بھی موجود ہے اور کراچی میں ایم کیو ایم کے سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم سے نکالے جانے کے بعد اپنا گروپ بنا رکھا ہے۔
جس میں اور پی ایس پی میں ایم کیو ایم کے بعض ٹاؤن ناظمین بھی شامل ہیں۔کراچی کی پارلیمانی اور شہری قیادت ایم کیو ایم سے چھنوا کر پی ٹی آئی کو دلوائی جاچکی ہے اور پی ٹی آئی کے وزیر علی زیدی کے لیے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں میئر کراچی بننا چاہ رہے ہیں اور اسی لیے کراچی کلین مہم چلا رہے ہیں۔ حالیہ بارشوں اور عیدالاضحی میں کراچی میں گندگی، کچرے کے ڈھیر اور ہر طرف پھیلی بدبو کے نتیجے میں میئر کراچی کو مہم چلانی چاہیے تھی مگر ایم کیو ایم کے میئر اور چار ڈی ایم سی چیئرمینوں کی موجودگی میں کراچی میں کوئی صفائی مہم نہیں چلائی گئی اور وہ مجبوری میں پی ٹی آئی کے وزیر علی زیدی کی کراچی کلین سٹی مہم جو اب چندوں کے ذریعے مستقل چلائی جائے گی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
متحدہ کے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور موجودہ ناظم وسیم اختر نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور مصطفیٰ کمال نے وسیم اختر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ متحدہ کے سابق ناظم شہر ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی صفائی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے والے علی زیدی کے خلاف نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو ٹیکس نہ دینے کی اپیل کرنے والے میئر کراچی پر وزیر بلدیات ناصر شاہ، وزیر اطلاعات سعید غنی اور ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے سخت تنقید کی ہے جس کی تائید مصطفیٰ کمال نے کی ہے۔
جس کی وجہ سے کراچی میں سیاسی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔سندھ حکومت جلد بلدیاتی مدت پوری ہونے پر اپنے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے گی جس کی پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مخالفت کریں گی ۔کراچی میں ایک دوسرے پر الزامات لگا کر سیاسی کشیدگی بڑھا کر سیاست کی جا رہی ہے اور کراچی سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے اور عوام سخت پریشان صفائی، فراہمی و نکاسی آب اور مسائل کے حل کے لیے تڑپ رہے ہیں مگر فکر کسی کو نہیں۔