مودی سرکار کی کھلی جارحیت اور مکروہ عزائم

بھارتی حکمرانوں کی یہ ڈھٹائی اقوام متحدہ کے مقدس ادارے کی کھلم کھلا توہین بلکہ اس کے وجود کی نفی کے مترادف ہے۔


Shakeel Farooqi August 27, 2019
[email protected]

5 کا ہندسہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت حاصل کرگیا ہے۔ اسی دن ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جب کہ رواں سال کی ٹھیک اس تاریخ یعنی 5 اگست کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔

بھارتی حکمرانوں کی یہ ڈھٹائی اقوام متحدہ کے مقدس ادارے کی کھلم کھلا توہین بلکہ اس کے وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اس مذموم کارروائی کے ذریعے بھارت کے غاصب حکمرانوں نے عالمی برادری کو ٹھینگا دکھا دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی مودی سرکارکی اس کارروائی کے خلاف زمین وآسمان سر پر اٹھا لیتی لیکن افسوس کہ اس کا ردعمل محض oh i see تک ہی محدود رہا۔ اس سرد مہری اور جذبہ اخوت کے فقدان کے حوالے سے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا

کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

خلیجی عرب ریاستوں کا ملی جذبہ بھی بیدار نہ ہوسکا ۔ سعودی عرب نے قطعی محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر محض تشویش کا اظہار کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے خود پر قابو رکھنے کی تلقین کی۔ گویا:

باغباں بھی خوش رہے

راضی رہے صیاد بھی

دیگر عرب ریاستوں بشمول کویت، قطر، بحرین اور عمان نے مصلحتاً کوئی بیان جاری کرنے سے احترازکیا جو اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ بقول شاعر:

مصلحت کچھ تو ہے جو ہم چپ ہیں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

متحدہ عرب امارات کا رویہ اس صورتحال کے حوالے سے دیگر خلیجی ریاستوں سے قطعی مختلف تھا، کیونکہ اس نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے بھارت کے فیصلے کی حمایت کی۔ یعنی:

مصلحت کے نہیں ہیں ہم قائل

دل میں جو بات تھی زباں پہ ہے

متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے دل میں بھارتی حکمرانوں کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس کا واضح ثبوت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دیا گیا اعلیٰ ترین اماراتی سویلین اعزاز ہے۔ ادھر برادر اسلامی ممالک میں ایران اور ملائیشیا نے بھی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پاکستان کے موقف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کی ہے۔ ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے شمشیر برہنہ بن کر پاکستان کا کھلم کھلا ساتھ دیا ہے ۔

خلیج کی مسلم عرب ریاستوں میں مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد 70 لاکھ سے بھی زیادہ ہے ۔ یہ بھارتی ہندو زندگی کے سب سے زیادہ مزے متحدہ امارات میں لوٹ رہے ہیں ۔ اس کے برعکس بھارت کے مسلمانوں پر مودی سرکار نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مظلوم کشمیریوں کو حاصل خصوصی رعایات و مراعات بھی ان سے چھین لی گئی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے بعد دوسرا نمبر سعودی عرب کا ہے جہاں مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد 27 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کو ابھی آٹھ ہی دن ہوئے تھے کہ بھارت سرکار کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سعودی عرب کی زیر ملکیت آرامکو نامی کمپنی بھارت کی ریلائینس آئل اینڈ کیمیکلز کمپنی سے 15 بلین ڈالر مالیت کی خریداری کا سودا کر رہی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھارت میں 2021 تک 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسی مسلم ریاستوں کے کاروباری تقاضوں کی وجہ سے مسلمانوں کی قاتل اور خون کی پیاسی مودی سرکار مضبوط اور مستحکم ہو رہی ہے۔ اگر یہ مسلم ریاستیں بھارت کی اسلام دشمن حکومت کی مذموم کارروائیوں کا فوری اور سخت نوٹس لیتے ہوئے جذبہ اسلام کی خاطر انھیں راہ راست پر لانے کے لیے ان کے ساتھ صرف کاروباری تعلقات منقطع کرنے اور ان کی افرادی قوت کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنے دیس لوٹ جانے کی محض دھمکی ہی دے ڈالیں تو ہندوتوا کی حامی اور پرچارک مودی سرکار کا طاقت اور ہندو گردی کا نشہ ذرا سی دیر میں ہرن ہوسکتا ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ چانکیہ کے چیلوں کی کامیابی میں محض ان کی چالاکیوں اور چالوں ہی کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ہم نے گربہ کشتن روز اول کی نصیحت کو فراموش کردیا ، ہم اس حقیقت کو بھی بھلا بیٹھے کہ:

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

ہم نے اللہ کی رسی کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑ دیا اور نظریہ پاکستان سے روگردانی کرتے ہوئے لسانی عصبیت، فرقہ بندیوں، قومیتوں میں تقسیم ہوگئے جس کی پاداش میں 1971 میں سانحہ سقوط مشرقی پاکستان پیش آیا جو ہمارے لیے نیند سے بیدارکرنے کی گھنٹی تھی۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے جاگے اور پھر غفلت کی نیند سو گئے۔ انتہا یہ کہ ہم نے 1971 کے عظیم سانحے کو بھی فراموش کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ 16 دسمبر 1971 کو ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا۔

آج کے سنگین حالات ہمارے لیے ایک اور wake up call ہیں۔ دشمن ہمیں تن تنہا کرکے ایک بار پھر اپنے نرغے میں لینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کے مکروہ عزائم نہ صرف ناکامی کا شکار ہوں گے بلکہ اسے منہ کی کھانا پڑے گی کیونکہ ہماری سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے اور پوری پاکستانی قوم جذبہ حب الوطنی سے سرشار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان کی پشت پناہی کے لیے ہر آن تن من دھن سے پوری طرح تیار کھڑی ہے۔

بھارت اس حقیقت کو جان لے اور مان بھی لے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو اب کسی بھی حربے سے نہ تو کچلا جاسکتا ہے اور نہ جبر و تشدد سے دبایا جاسکتا ہے کیونکہ علامہ اقبال کا یہ کہنا بالکل بجا اور ثابت شدہ ہے کہ:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

مشہور و معروف بھارتی دانشور اور نوبل انعام یافتہ مفکر اور اسکالر ڈاکٹر امریتا سین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ببانگ دہل تنقید کرتے ہوئے بالکل بجا فرمایا ہے کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے اور اس پر ان کا حق جائز اور قانونی ہے۔ بھارت کی ایک اور بے لاگ شخصیت اور جانی مانی خاتون صحافی ارون دھتی رائے بھارت کے بارے میں کھل کر یہ بات کہتی ہیں کہ ''ہم ابھی آنکھ نہیں جھپک پاتے کہ کوئی نہ کوئی شخص کسی نہ کسی تضاد کے ساتھ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔'' بھارتی جمہوریت ایک فریب اور بھارت کا سیکولر ازم ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔

جس کی قلعی بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے نتیجے میں پوری طرح کھل چکی ہے اور رہی سہی کسر بی جے پی کے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے حالیہ مکروہ ترین غیر منصفانہ اور جابرانہ اقدام نے پوری کردی ہے۔ مودی حکومت کی نظر بد کا اگلا ہدف اب آزاد کشمیر ہوگا جس کی جانب بھارت کے رکھشا منتری راج ناتھ سنگھ اپنے ایک مکروہ جارحانہ بیان میں ابھی چند روز قبل واضح اشارہ کرچکے ہیں لیکن انشا اللہ اس کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔