پولیو سے بے حال پاکستان

دنیا کو اس قوم سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا جن کی سوچ ہی پولیو زدہ ہوچکی ہو


پولیو کا ناسور پوری دنیا میں صرف افغانستان اور پاکستان میں رہ گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

''ہم دنیا میں چلو کسی میدان میں تو پہلے نمبر پر آئے''۔ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بے بسی اور مایوسی کا سمندر چھلک رہا تھا۔ باہر بارش کی بوندیں کھڑکی پر اپنے نقوش چھوڑے قطار در قطار نیچے گررہی تھیں۔ ان بوندوں سے ہٹ کر کچھ بوندیں میں ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ میں ڈاکٹر ایم ندیم صدیقی کے گھر پر موجود تھا، جو راول ڈیم کے نزدیک ایک کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آج کچھ زیادہ ہی مایوس تھے، ان کی مایوسی کی وجہ پولیو سے متاثرہ مریضوں میں اضافہ تھا۔

''لیکن اس کا کوئی حل تو ہوگا یا پھر ہم ہمیشہ اسی بھنور میں پھنسے رہیں گے؟'' میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا۔ ''نہیں! اب تو مستقبل قریب میں کوئی حل دکھائی نہیں دیتا، ہم نے خود کو اس بیماری کے ماحول میں ڈھال لیا ہے، ہم زندگی جی نہیں رہے بلکہ گزار رہے ہیں۔ اس قوم کو اپنی نسل کی ذرہ برابر بھی اگر فکر ہوتی تو ہم یقیناً جدید ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے۔ کتنی خطرے کی بات ہے کہ پولیو کا ناسور پوری دنیا میں صرف افغانستان اور پاکستان میں رہ گیا ہے، لیکن ہم بے حس پڑے ہیں۔ اوپر سے اعزاز یہ ہے کہ ان دو ممالک میں بھی ہم پہلے نمبر پر براجمان ہیں۔ یورپ، امریکا، چین، بھارت، روس الغرض پوری دنیا نے انہی ''سازشی ویکسین'' کے ذریعے پولیو جیسی لعنت سے نجات حاصل کی۔ ہمیں اور کچھ نہیں تو آس پڑوس سے ہی سبق حاصل کرلینا چاہیے تھا۔ مگر سچ کہتے ہیں کہ وہم کا کوئی علاج نہیں ہے، ہم اپنی نسلوں کو برباد کرنے پر تل گئے ہیں''۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ڈاکٹر صاحب دوبارہ گویا ہوئے ''میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر پولیو کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے تمام افراد کو یہ تک معلوم نہیں کہ پولیو ویکسین کیوں پلائی جاتی ہے؟ ہم من حیث القوم ایک بلاوجہ کے خوف کا شکار ہیں۔ لوگ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ دنیا کو ایسی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر کیا ملے گا جس کا موجودہ ترقی میں تعاون صفر ہے۔ پولیو کی وحشت کا اندازہ ایسے لگانا چاہیے کہ یہ ایسا لاعلاج اور خطرناک وائرس ہے جو ایک بار حملہ آور ہوکر جسم کے کسی حصے کو تباہ کردے تو وہ ہمیشہ کےلیے مفلوج ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے پولیو وائرس کو de-activate کرکے (یعنی مردہ حالت میں) بچوں کے جسم میں قطروں کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے، اس کمزور/ مردہ وائرس کے جسم میں داخل ہوتے ہی بچے کا قدرتی معدافتی نظام فوراً الرٹ ہوجاتا ہے اور وائرس پر حملہ آور ہوکر اسے ختم کردیتا ہے۔ بار بار یہ قطرے پِلانے سے معدافتی نظام مضبوط ہوتا جاتا ہے اور مستقبل میں جب کبھی پولیو کا طاقتور وائرس گندے پانی یا خوراک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اس کو حملہ آور ہونے سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے''۔

اسلام آباد کی بارش نے اگست کے مہینے میں کمرے کے اندر دسمبر جیسا ماحول بنادیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے چائے کی چسکی لے کر کرسی سے ٹیک لگائی اور بولے ''تمہیں معلوم ہے کہ اگر یہ قطرے بچوں کو نہ پلائے جائیں تو مدافعتی نظام پولیو وائرس کے خطرے کو بھانپ نہیں پاتا، جس وجہ سے جب کبھی پولیو وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو وائرس کو حملے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ بہت خطرناک لمحہ ہوتا ہے، اس دوران پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے، اب رونے دھونے اور ادویات کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم وہ قوم ہیں جو خطرے سے پہلے تیاری نہیں کرتے، مگر وقت گزرنے کے بعد گوروں کی بنی انہی ادویات کو استعمال کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جو کچھ وقت پہلے تک بقول ہمارے، ہماری نسلوں کو تباہ کرنے کےلیے بنائی گئی تھیں۔ کتنا دردناک المیہ ہے کہ نہ تو ہم ترقی چاہتے ہیں، نہ سائنس سمجھنے کے خواہاں ہیں، نہ ہی اپنی نسلوں کے ساتھ مخلص ہیں''۔

ڈاکٹر صاحب کی افسردگی کی حقیقت اب مجھ پر عیاں ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ کہنا شروع کیا ''پوری دنیا میں پولیو وائرس ختم ہوچکا ہے، اگر کہیں پولیو ہنگامی بنیادوں پر پھیل رہا ہو تو وہاں قطروں والی ویکسین استعمال کی جاتی ہے، بصورتِ دیگر سرنج کے ذریعے ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیو وائرس انسانی جسم کے علاوہ کہیں بھی پنپ نہیں سکتا، جس وجہ سے اگر کہیں 9 بچے پولیو کے قطرے پی لیتے ہیں وہاں دسواں بچہ خودبخود محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی خاطر دیگر ممالک میں اب پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاتے کیونکہ وہاں ایک بھی پولیو کا کیس موجود نہیں ہے، یعنی پولیو کا وائرس ان کے ماحول سے صاف ہوچکا ہے۔ اگر ہم نے پولیو کے خلاف جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے تو دنیا ہمارے داخلے پر پابندی لگادے گی۔ ہم دنیا میں تنہا ہوجائیں گے۔ پوری دنیا کیوں چاہے گی جس بیماری کو کروڑوں ڈالر خرچ کرکے انہوں نے اپنے ملک سے بھگایا وہ افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک کی وجہ سے دوبارہ ان کے ہاں پھیل جائے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں پولیو سے لڑنے کےلیے فنڈنگ بھی فراہم کررہے ہیں۔ اگر پولیو ویکسین سچ میں جنسی معذوری پیدا کررہی ہوتی تو آج پاکستان اور افغانستان میں انسانی آبادی ناپید ہوچکی ہوتی۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔

پوری دنیا میں مختلف بیماریوں کے خلاف باقاعدہ ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے۔ یورپ نے کئی بڑی بیماریوں مثلاً ہیپاٹائٹس، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، کن پھیڑے وغیرہ سے نجات اِنہی طریقہ کار کے ذریعے حاصل کی۔ ہم اپنی نسلوں کے جانی دشمن بن چکے۔ ہم اپنے وہم کو تحقیق کرکے بھی دفع نہیں کرنا چاہ رہے۔ اسلام آباد میں پولیو کی ویکسین چیک کرنے کےلیے باقاعدہ لیبارٹری موجود ہے، مگر ہمیں اپنے اداروں پر بھی اعتبار نہیں۔ ہم پستیوں میں گرتے جارہے ہیں۔ ہم قوم نہیں بلکہ وہ ریوڑ بن چکے ہیں جو ایک جانب ہانکے جارہا ہے۔ نہ تو ہمارا کوئی مستقبل ہے نہ کوئی وژن ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہمارا وجود تک نہیں بچے گا''۔

بارش تھم چکی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی اور نیچے گاڑی کی جانب آگیا۔ کالونی کی سڑک بارش کے پانی سے تَر تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم کتنی مضحکہ خیز قوم ہیں، ایک جانب سائنسی تحقیقات پر خرچ ہونے والی رقوم پہ یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رقم انسانی فلاح و بہبود کےلیے کیوں نہیں استعمال کی جاتی، وہیں دوسری جانب جب یہ ممالک کسی بیماری کے خلاف لڑنے کےلیے اور ہماری فلاح و بہبود کےلیے کوئی رقم فراہم کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ''مغربی سازش'' کی بو آجاتی ہے۔

جو قوم اپنے مستقبل، اپنی نسلوں کے ساتھ مخلص نہیں، اسے مٹنے کےلیے کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ اپنی نسلوں کو اپاہج کرکے ہم ان سے کتنی بڑی زیادتی کررہے ہیں۔ ان کی زندگی کو کس عذاب میں جھونک رہے ہیں اور اپاہج ہونا کتنا بڑا عذاب ہے، یہ آپ کو کوئی اپاہج ہی بہتر بتاسکتا ہے۔ یقین کریں دنیا کو اس قوم سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا جن کی سوچ ہی پولیو زدہ ہوچکی ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں