جنگ مسائل کا حل نہیں ہے
پاکستان بھارت کی جانب سے تمام تر شر انگیزیوں کے باوجود جنگ سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے۔
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
یہ نظم 60ء کی دہائی میں عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ نے لکھی اور دو ترقی پسند نظریات رکھنے والے فلمی تخلیق کاروں، خلیل قیصر و ریاض شاہد نے اس نظم کو فلم '' شہید '' میں شامل کیا۔ اس کو اپنی خوبصورت آواز میں گایا منیر حسین نے۔ جب فلم ''شہید'' تخلیق کی جا رہی تھی تو اس وقت ملک کے طول و عرض میں ایوبی آمریت مسلط تھی اور اہل دانش پوری طرح سے آگاہ ہیں کہ آمریت کے دور میں سر اٹھا کے چلنا کس قدر مشکل امر ہوتا ہے، چنانچہ اس وقت یہ نظم پوری طرح پاکستانی سماج کی بھرپور عکاسی کرتی نظر آتی تھی۔
عرض کرتا چلوں کہ اس وقت پاکستان کے دونوں حصے متحد تھے اور مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان کہلاتے تھے البتہ بعدازاں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ فلم ''شہید'' چونکہ فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے پس منظر میں بنائی گئی تھی اسی باعث اس نظم کو فلم ''شہید'' میں شامل کر لیا گیا۔ فیض احمد فیضؔ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کا کلام ہر دور میں جبر و استحصال زدہ سماج کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے چنانچہ عصر حاضر میں اگر اس نغمے کی شاعری پر غور کریں تو یہ نغمہ سو فیصد مقبوضہ کشمیر کی اس انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ ''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔''
چنانچہ کشمیر کی موجودہ و ماضی کی کیفیت یہ ہے کہ کشمیر گزشتہ 72 برسوں سے ایک متنازعہ علاقہ چلا آرہا ہے ، البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل زور بازو سے ممکن ہوتا تو یہ مسئلہ 1948ء میں ہی حل ہوچکا ہوتا کہ جب میجر اسحاق محمد وجنرل اکبر خان قبائلی مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے سری نگر سے فقط چھ کلو میٹر دوری پر تھے کہ انھیں اسی مقام پر پیش قدمی سے روک دیا گیا تھا انھیں مزید پیش قدمی سے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت نے روکا تھا۔ اس کا باعث یہ تھا کہ اپنی شکست جواہر لال نہرو نے دیکھ کر سلامتی کونسل میں امریکا کی وساطت سے مسئلہ کشمیر کو لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
گویا جواہر لال نہرو نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اورکشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے مگر صداقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کی بجائے تاخیرکا شکار ہوتا چلا گیا البتہ 50ء کی دہائی میں اگر یہ مسئلہ سلامتی کونسل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ شکل اختیار نہ کرتا، اسی تاخیرکے باعث مسئلہ کشمیر کے باعث دو ہولناک جنگیں بھی پاک بھارت دونوں ممالک کے درمیان ہوچکی ہیں۔
ظاہر ہے جنگیں مسئلے کا حل نہیں ہوتیں بلکہ جنگیں مزید مسائل پیدا کرتی ہیں ، چنانچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کشمیرکو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے تو بھارت کے نزدیک کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، البتہ ایک سنجیدہ کوشش اس وقت بھی ہوئی جب 70ء کی دہائی میں شملہ میں پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو و بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے اپنے وفود کی قیادت کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ان مذاکرات میں ایک اہم ترین مسئلہ کشمیر پر بھی یہ پیشرفت ہوئی کہ پاک و بھارتی وفود اس بات پر متفق ہوئے کہ کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔
اس رائے شماری میں کشمیریوں کی جو بھی رائے سامنے آئے گی اس کی روشنی میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ یہ معاہدہ ''معاہدہ شملہ'' کہلایا۔ اس شملہ معاہدے پر بھی اگر عمل درآمد ہو جاتا تو ممکن تھا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل آتا مگر افسوس کہ معاہدہ شملہ پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ نریندر مودی سرکار نے 5 اگست 2019ء کو تمام تر عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قانون سے آرٹیکل 35A اور 370 کو حذف کردیا ہے جن کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔
انھی قوانین کے تحت کسی بھارتی شہری کو یہ حق نہ تھا کہ وہ کشمیر میں کوئی جائیداد خرید سکے۔ بلاشبہ ان قوانین کے خاتمے کے کا مقصد یہ بھی ہے کہ دیگر بھارتی شہری کشمیر میں آبادکاری کریں تاکہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا سکے۔ دوم کشمیر کی موجودہ آبادی کو آزاد کشمیر کی جانب دھکیلا جا سکے۔
مودی حکومت نے ایک ستم یہ بھی کیا کہ اسی روز یعنی 5 اگست 2019ء کو پوری وادی کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا جوکہ تادم تحریر جاری ہے جس کے باعث تمام ضروری اشیا کی قلت پیدا ہوچکی ہے ان اشیا میں خوراک و ادویات بھی شامل ہیں جب کہ ستم یہ بھی ہے کہ کشمیر کی کل آبادی 90 لاکھ ہونے کے باوجود وہاں 9 لاکھ بھارتی فوجیں موجود ہیں جوکہ تمام تر عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہر قسم کے مظالم کشمیریوں پر روا رکھے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے تمام ذریعے معطل کر دیے گئے ہیں گویا کشمیر وادی کا تمام تر رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہے گوکہ مودی حکومت کے ان اقدامات کے خلاف پوری مہذب دنیا سراپا احتجاج ہے۔ بشمول بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔
جن میں دو سو اہل قلم وہی اہل قلم جوکہ سماج کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں حد تو یہ ہے کہ بھارتی شہری ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ امریتا سین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مودی حکومت کے ان غیر انسانی اقدامات کے باعث مجھے شرمندگی ہے کہ میں بھارتی شہری ہوں جب کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بھی نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے قانون سے آرٹیکل 370 و 35A حذف کرنے و کشمیر میں جاری تشدد پر نریندر مودی حکومت کے ان اقدامات کی کھلے الفاظ میں مخالفت کی ہے جب کہ ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔
کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ گرفتار شدگان کی تعداد اس سے کہیں زائد ہے اورکشمیری جیلوں میں مزید قیدی رکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے اور اب ان اسیران کو کشمیر کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں کی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب سلامتی کونسل کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے جس میں پانچ مستقل و دس غیر مستقل ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی۔
اس اجلاس کا منعقد ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی ایجنڈے پر موجود ہے اور ایک حل طلب مسئلہ ہے یہ تمام حالات اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ مودی حکومت اس خطے کے پچاس کروڑ انسانوں کو ایک ہولناک جنگ کی جانب دھکیل رہی ہے۔
البتہ اس حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ پاکستان و بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور جنگ کی صورت میں فقط پاکستان و بھارت متاثر نہیں ہوں گے بلکہ یہ تباہی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے چنانچہ اس کیفیت میں پوری دنیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نریندر مودی کو ان اقدامات سے باز رکھے جو جنگ کی جانب جاتے ہیں جب کہ بھارتی عوام کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا اپنے وزیر اعظم کو یہ باور کرائیں کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اس مسئلے کا حل جلد یا بدیر مذاکرات کی میز پر ہی ہونا ہے جنگ کے میدان میں نہیں۔
البتہ ان تمام تر حالات میں پاکستان سفارتی محاذ پر سرگرم ہوچکا ہے کوشش یہ بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالت انصاف میں لے کر جائے البتہ یہ بھی لازم ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے تمام تر شر انگیزیوں کے باوجود جنگ سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستانی قوم کسی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی یوں بھی جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔