محرم الحرام کے بعد پنجاب حکومت میں بڑی تبدیلیاں متوقع
عثمان بزدار کو 7/8 وزراء اور اراکین اسمبلی پر مشتمل گروپ کی وجہ سے بھی منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
عمران خان کی زندگی استقامت، صبر اور جہد مسلسل کی مثال ہے،کپتان نے موجوں کے مخالف تیرنے کو ترجیح دی،بھرپور کوشش کی مگرجب ساحل پر پہنچنا ممکن دکھائی نہیں دیا تو موجوں کی سمت میں ان کے ساتھ تیرنا شروع کردیا کیونکہ موجوں کے مخالف تیرتے ہوئے ہار جانا کسی قسم کی بہادری یا عقلمندی نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین بار بار فیصلے تبدیل کرنے کی وجہ سے جب کپتان کو''یو ٹرن ماسٹر'' کہتے ہیں تو عمران خان انہیں یہ جواب دیتے ہیں کہ عظیم لیڈر وہی ہوتا ہے جو بروقت یو ٹرن لیکر درست فیصلہ کرے۔ سیاسی و حکومتی حالات کو دیکھ کر معلوم ہو رہا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں ( محرم الحرام) کے بعد پنجاب حکومت کے حوالے سے کپتان اپنی ٹیم میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کا یوٹرن لینے والے ہیں۔
پنجاب کی وزارت اعلی اور کابینہ میں وسیع پیمانے پر اہم حکومتی تبدیلیاں آنے کی باتیں تحریک انصاف کے باخبر حلقوں میں زور پکڑ رہی ہیں اور نہایت باخبر حلقوں کی سنجیدہ گفتگو سے محسوس ہو رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ صرف''شیر آیا، شیر آیا'' کا شور نہیں مچے گا بلکہ حقیقت میں''شیر'' آئے گا۔
پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار''حادثاتی'' طور پر اس عہدے کیلئے منتخب ہوئے تھے لیکن وہ ایک سال میں کارکردگی کے حوالے سے خود پر ہونی والی تنقید کو ختم نہیں کر پائے۔ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں، اپوزیشن، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی شدید تنقید اور وزیر اعلی کو تبدیل کیئے جانے کے مطالبے کا دباو برداشت کرتے ہوئے عمران خان نے ایک برس میں سردار عثمان بزدار کو تین مرتبہ ''لائف لائن'' مہیا کی لیکن اب عمران خان خود بھی پنجاب حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔
حکومت، تحریک انصاف اور بیوروکریسی کے سنجیدہ اور معتبر حلقوں میں گزشتہ چند روز سے بہت شدت اور وثوق کے ساتھ یہ بات سنائی دے رہی ہے کہ محرم الحرام کے بعد عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلی اور صوبائی کابینہ میں اہم ترین تبدیلیوں کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ وفاقی کابینہ میں بھی اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔
سردار عثمان بزدارکو وزیر اعلی پنجاب بنانا عمران خان کا ''اول انتخاب'' نہیں تھا۔جہانگیر ترین کی تکنیکی بنیادوں پر نا اہلی کے بعد وزیر اعلی پنجاب کیلئے اولین انتخاب عبدالعلیم خان تھے۔ مسلم لیگ(ن) کا قلعہ سمجھے جانے والے لاہور میں جہاں شریف برادران کی مکمل بلکہ آمرانہ اجارہ داری قائم تھی وہاں علیم خان نے ساتھی رہنماوں کو ساتھ شامل کر کے اپنے ذاتی مالی وسائل خرچ کر کے تحریک انصاف کو مضبوط بنایا۔ لاہور میں لاک ڈاون ہو یا پھر مینار پاکستان پر تین مرتبہ گرینڈ جلسہ منعقد کرنا ہو یا پھر اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے لاہور سے مارچ کا شاندار آغاز کرنا ہو۔
ہر ٹاسک میں علیم خان کامیاب رہے اور اس کامیابی میں انہیں ساتھی رہنماوں کی معاونت بھی حاصل رہی لیکن کچھ رہنما ایسے بھی ہیں جو آج تک علیم خان کو تسلیم کرنے کی ہمت پیدا نہیں کر سکے۔ الیکشن جیتنے کے بعد علیم خان ہی وزارت اعلی کے واحد اور مضبوط امیدوار تھے اور عمران خان کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی انہوں نے پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم پوری کرنے کیلئے جہانگیر ترین کے ساتھ مختلف ملاقاتیں کی تھیں۔
الیکشن جیتنے کے پانچ دن بعد ''خفیہ'' ہاتھ اور پارٹی میں موجود مخالفین سرگرم ہوئے اور پھر نیب نے علیم خان کی طلبیوں کا نیا ریکارڈ بنایا، پارٹی میں مخالف گروپ نے کپتان کے کان بھی بھرے لیکن اصل بے وفائی تو ان پتوں نے کی جن پر تکیہ تھا، یہ الگ بات ہے کہ اپنی غلطی کا احساس ہونے پر آج وہ ''پتے'' تناور درخت کی مانند عبدالعلیم خان کو طاقت فراہم کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کے مطابق سردار عثمان بزدار کے حوالے سے عمران خان بہت پر امید تھے کہ وہ واقعی''وسیم اکرم پلس'' ثابت ہوں گے لیکن اب ایک سال بعد بیوروکریسی،عوام، اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنماوں کی جانب سے فیڈ بیک ملنے کے بعد عمران خان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔اپوزیشن بھی پنجاب کے حوالے سے ٹف ٹائم دے رہی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی پنجاب حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
معتبر حلقوں کے مطابق اگر آئندہ چند ہفتوں میں وزارت اعلی کے عہدے پر تبدیلی کا معاملہ''حتمی'' مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو نئے وزیر اعلی کیلئے تین نام بہت اہمیت اختیار کر سکتے ہیں، ایک مرتبہ پھر سے عبدالعلیم خان سب سے مضبوط امیدوار ہوں گے اور اس مرتبہ انہیں مقتدر حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ دوسرے امیدوار مخدوم ہاشم جواں بخت ہیں جو اس وقت وزیر خزانہ پنجاب ہیں اور عمران خان کی گڈ بک میں شامل ہیں۔
تیسرے امیدوار میاں اسلم اقبال ہیں جو کہ اس سے پہلے بھی تین مرتبہ سنجیدہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے لیکن ہر مرتبہ بعض اعتراضات کی وجہ سے دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں، بعض حلقوں کے مطابق عمران خان کو شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور کے ناموں کو بھی وزیر اعلی پنجاب کیلئے زیر غور لانا چاہئے۔
یہ دونوں رہنما سیاسی طور پر بھی اہم مقام رکھتے ہیں اور یہ ایک متحرک اور فعال وزیر اعلی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کابینہ میں بھی بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے، عمران خان کے قریبی حلقوں کے مطابق 20 سے زائد صوبائی وزیر ایسے ہیں جن کے بارے عمران خان کی رائے ہے کہ یا تو انہیں تبدیل کر دینا چاہئے یا پھر ان کا محکمہ تبدیل کر دینا چاہئے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ عثمان بزدار کو 7/8 وزراء اور اراکین اسمبلی پر مشتمل گروپ کی وجہ سے بھی منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے اس گروپ نے عثمان بزدار کے ساتھ نتھی ہو کر خود تو فائدے اٹھائے لیکن سردار صاحب کا بیڑہ ڈبو دیا۔ حیران کن طور پرگزشتہ روز رکن پنجاب اسمبلی ملک اسد کھوکھر نے چیئرمین وزیر اعلی شکایت سیل کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
ملک اسد کھوکھر کو وزیر اعلی کے انتہائی قریب لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اس لئے ان کے استعفٰی پر بہت سی آراء پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق وائس چیئرمین شکایت سیل ناصر سلمان کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے استعفی دیا جبکہ بعض اہم لوگ یہ بتا رہے ہیں کہ ملک اسد کھوکھر آنے والے دنوں میں پنجاب کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے دوران خود کو صوبائی وزیر بنوانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے خود کو چیئرمین کے عہدے سے الگ کیا ہے۔
حکومتی حلقوں میں ایک اہم واقعہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کے مطابق مبینہ طور چند روز قبل ایک خفیہ ایجنسی نے ایوان وزیر اعظم کو ایک ریکارڈنگ ٹیپ بھیجی ہے جس میں جی او آر ون میں قائم 5 کلب روڈ سرکاری عمارت کے ایک کمرے میں ایک حکومتی شخصیت کسی پرائیویٹ بندے کے ساتھ پیسوں کے لین دین کی بات کر رہی ہے۔ذرائع کے مطابق ایوان وزیر اعظم نے یہ رپورٹ اور ریکارڈنگ ملنے کے بعد وزیر اعلی پنجاب سے رابطہ کر کے انہیں اس معاملہ کی تحقیق کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس عمارت میں متعدد حکومتی شخصیات کے دفاتر قائم ہیں جبکہ جنوبی پنجاب محاذ والوں کو بھی اسی عمارت میں کمرہ دیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ میں ایک مرتبہ پھر ردوبدل ہونے والا ہے اور بعض نئے چہرے دکھائی دیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین بار بار فیصلے تبدیل کرنے کی وجہ سے جب کپتان کو''یو ٹرن ماسٹر'' کہتے ہیں تو عمران خان انہیں یہ جواب دیتے ہیں کہ عظیم لیڈر وہی ہوتا ہے جو بروقت یو ٹرن لیکر درست فیصلہ کرے۔ سیاسی و حکومتی حالات کو دیکھ کر معلوم ہو رہا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں ( محرم الحرام) کے بعد پنجاب حکومت کے حوالے سے کپتان اپنی ٹیم میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کا یوٹرن لینے والے ہیں۔
پنجاب کی وزارت اعلی اور کابینہ میں وسیع پیمانے پر اہم حکومتی تبدیلیاں آنے کی باتیں تحریک انصاف کے باخبر حلقوں میں زور پکڑ رہی ہیں اور نہایت باخبر حلقوں کی سنجیدہ گفتگو سے محسوس ہو رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ صرف''شیر آیا، شیر آیا'' کا شور نہیں مچے گا بلکہ حقیقت میں''شیر'' آئے گا۔
پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار''حادثاتی'' طور پر اس عہدے کیلئے منتخب ہوئے تھے لیکن وہ ایک سال میں کارکردگی کے حوالے سے خود پر ہونی والی تنقید کو ختم نہیں کر پائے۔ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں، اپوزیشن، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی شدید تنقید اور وزیر اعلی کو تبدیل کیئے جانے کے مطالبے کا دباو برداشت کرتے ہوئے عمران خان نے ایک برس میں سردار عثمان بزدار کو تین مرتبہ ''لائف لائن'' مہیا کی لیکن اب عمران خان خود بھی پنجاب حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔
حکومت، تحریک انصاف اور بیوروکریسی کے سنجیدہ اور معتبر حلقوں میں گزشتہ چند روز سے بہت شدت اور وثوق کے ساتھ یہ بات سنائی دے رہی ہے کہ محرم الحرام کے بعد عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلی اور صوبائی کابینہ میں اہم ترین تبدیلیوں کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ وفاقی کابینہ میں بھی اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔
سردار عثمان بزدارکو وزیر اعلی پنجاب بنانا عمران خان کا ''اول انتخاب'' نہیں تھا۔جہانگیر ترین کی تکنیکی بنیادوں پر نا اہلی کے بعد وزیر اعلی پنجاب کیلئے اولین انتخاب عبدالعلیم خان تھے۔ مسلم لیگ(ن) کا قلعہ سمجھے جانے والے لاہور میں جہاں شریف برادران کی مکمل بلکہ آمرانہ اجارہ داری قائم تھی وہاں علیم خان نے ساتھی رہنماوں کو ساتھ شامل کر کے اپنے ذاتی مالی وسائل خرچ کر کے تحریک انصاف کو مضبوط بنایا۔ لاہور میں لاک ڈاون ہو یا پھر مینار پاکستان پر تین مرتبہ گرینڈ جلسہ منعقد کرنا ہو یا پھر اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے لاہور سے مارچ کا شاندار آغاز کرنا ہو۔
ہر ٹاسک میں علیم خان کامیاب رہے اور اس کامیابی میں انہیں ساتھی رہنماوں کی معاونت بھی حاصل رہی لیکن کچھ رہنما ایسے بھی ہیں جو آج تک علیم خان کو تسلیم کرنے کی ہمت پیدا نہیں کر سکے۔ الیکشن جیتنے کے بعد علیم خان ہی وزارت اعلی کے واحد اور مضبوط امیدوار تھے اور عمران خان کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی انہوں نے پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم پوری کرنے کیلئے جہانگیر ترین کے ساتھ مختلف ملاقاتیں کی تھیں۔
الیکشن جیتنے کے پانچ دن بعد ''خفیہ'' ہاتھ اور پارٹی میں موجود مخالفین سرگرم ہوئے اور پھر نیب نے علیم خان کی طلبیوں کا نیا ریکارڈ بنایا، پارٹی میں مخالف گروپ نے کپتان کے کان بھی بھرے لیکن اصل بے وفائی تو ان پتوں نے کی جن پر تکیہ تھا، یہ الگ بات ہے کہ اپنی غلطی کا احساس ہونے پر آج وہ ''پتے'' تناور درخت کی مانند عبدالعلیم خان کو طاقت فراہم کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کے مطابق سردار عثمان بزدار کے حوالے سے عمران خان بہت پر امید تھے کہ وہ واقعی''وسیم اکرم پلس'' ثابت ہوں گے لیکن اب ایک سال بعد بیوروکریسی،عوام، اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنماوں کی جانب سے فیڈ بیک ملنے کے بعد عمران خان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔اپوزیشن بھی پنجاب کے حوالے سے ٹف ٹائم دے رہی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی پنجاب حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
معتبر حلقوں کے مطابق اگر آئندہ چند ہفتوں میں وزارت اعلی کے عہدے پر تبدیلی کا معاملہ''حتمی'' مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو نئے وزیر اعلی کیلئے تین نام بہت اہمیت اختیار کر سکتے ہیں، ایک مرتبہ پھر سے عبدالعلیم خان سب سے مضبوط امیدوار ہوں گے اور اس مرتبہ انہیں مقتدر حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ دوسرے امیدوار مخدوم ہاشم جواں بخت ہیں جو اس وقت وزیر خزانہ پنجاب ہیں اور عمران خان کی گڈ بک میں شامل ہیں۔
تیسرے امیدوار میاں اسلم اقبال ہیں جو کہ اس سے پہلے بھی تین مرتبہ سنجیدہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے لیکن ہر مرتبہ بعض اعتراضات کی وجہ سے دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں، بعض حلقوں کے مطابق عمران خان کو شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور کے ناموں کو بھی وزیر اعلی پنجاب کیلئے زیر غور لانا چاہئے۔
یہ دونوں رہنما سیاسی طور پر بھی اہم مقام رکھتے ہیں اور یہ ایک متحرک اور فعال وزیر اعلی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کابینہ میں بھی بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے، عمران خان کے قریبی حلقوں کے مطابق 20 سے زائد صوبائی وزیر ایسے ہیں جن کے بارے عمران خان کی رائے ہے کہ یا تو انہیں تبدیل کر دینا چاہئے یا پھر ان کا محکمہ تبدیل کر دینا چاہئے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ عثمان بزدار کو 7/8 وزراء اور اراکین اسمبلی پر مشتمل گروپ کی وجہ سے بھی منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے اس گروپ نے عثمان بزدار کے ساتھ نتھی ہو کر خود تو فائدے اٹھائے لیکن سردار صاحب کا بیڑہ ڈبو دیا۔ حیران کن طور پرگزشتہ روز رکن پنجاب اسمبلی ملک اسد کھوکھر نے چیئرمین وزیر اعلی شکایت سیل کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
ملک اسد کھوکھر کو وزیر اعلی کے انتہائی قریب لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اس لئے ان کے استعفٰی پر بہت سی آراء پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق وائس چیئرمین شکایت سیل ناصر سلمان کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے استعفی دیا جبکہ بعض اہم لوگ یہ بتا رہے ہیں کہ ملک اسد کھوکھر آنے والے دنوں میں پنجاب کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے دوران خود کو صوبائی وزیر بنوانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے خود کو چیئرمین کے عہدے سے الگ کیا ہے۔
حکومتی حلقوں میں ایک اہم واقعہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کے مطابق مبینہ طور چند روز قبل ایک خفیہ ایجنسی نے ایوان وزیر اعظم کو ایک ریکارڈنگ ٹیپ بھیجی ہے جس میں جی او آر ون میں قائم 5 کلب روڈ سرکاری عمارت کے ایک کمرے میں ایک حکومتی شخصیت کسی پرائیویٹ بندے کے ساتھ پیسوں کے لین دین کی بات کر رہی ہے۔ذرائع کے مطابق ایوان وزیر اعظم نے یہ رپورٹ اور ریکارڈنگ ملنے کے بعد وزیر اعلی پنجاب سے رابطہ کر کے انہیں اس معاملہ کی تحقیق کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس عمارت میں متعدد حکومتی شخصیات کے دفاتر قائم ہیں جبکہ جنوبی پنجاب محاذ والوں کو بھی اسی عمارت میں کمرہ دیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ میں ایک مرتبہ پھر ردوبدل ہونے والا ہے اور بعض نئے چہرے دکھائی دیں گے۔