ملک کی معاشی ترقی کیلئے روڈ میپ متعارف کرانے کا فیصلہ

حکومت نے پہلا ایک سال تو پچھلوں کو مورد الزم ٹھہراتے ٹھہراتے گزار لیا ہے۔


Irshad Ansari August 28, 2019
حکومت نے پہلا ایک سال تو پچھلوں کو مورد الزم ٹھہراتے ٹھہراتے گزار لیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے با لآخر ایک سال کا عرصہ گزارنے کے بعد حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اقتصادی جمود توڑنے کیلئے ملکی معیشت کی ترقی کیلئے روڈ میپ متعارف کروانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے اور یہ روڈ میپ اقتصادی ٹیم کی جانب سے وزیراعظم کی زیر صدارت ہونیوالے حالیہ اجلاس میں پیش کردیا گیا ہے۔

وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی اس بڑی بیٹھک میں بڑے فیصلے کئے گئے ہیں اور اسی بیٹھک میں اقتصادی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان کو ملکی معیشت کو درپیش مالی خسارے کے بڑے چیلنج سے بھی متنبہ کردیا ہے اور اس خسارے سے نکلنے کیلئے کوئی آوٹ آف دی باکس حل تلاش کرنا ہوگا جس کیلئے ریونیو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔

سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا لازم ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اسی وارننگ کے نتیجے میں حکومت احتساب کی جنگ سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے اور اب احتساب کو صرف سیاستدانوں تک محدود کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور نیب کے قوانین میں ترمیم کرکے بیورو کریٹس اور صنعتکاروں و تاجروں پر احتساب کی لٹکتی تلوار ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ سرمایہ کاروں اور بیوروکریسی کو اعتماد ملے اور ملکی نظام کا پہیہ کچھ آگے کی جانب چلے اور اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو سکیں کیونکہ اس ایک سال کے دوران مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس نے حکومت کے گراف کو ناقابل یقین حد تک گرا دیا ہے۔

ایک سال کے عرصے میں ملک کے دو بڑے طبقوں کونیب سے وابستہ نیب کے شکنجے سے نکالا جا رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے احتساب کا چورن مزید کتنا عرصہ فروخت کیا جائے گا کیونکہ اب عوام پکڑو پکڑو کے نعرے سے بھی عاجز آتے جا رہے ہیں، عوام اب رزلٹ مانگتے ہیں۔

حکومت نے پہلا ایک سال تو پچھلوں کو مورد الزم ٹھہراتے ٹھہراتے گزار لیا ہے مگر اب عوام کے دلوں میں پچھلے کرپٹ و بدعنوانوں کے بارے میں ہمدردیاں بڑھتی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کی رہنما مریم نواز کے بیانیہ کی عوام میں مقبولیت کی صورت حکمران دیکھ چکے ہیں اور تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما نہ صرف عوامی مقبلویت حاصل کر رہی تھیں بلکہ حکومتی وجود اور مقتدر حلقوں کیلئے بھی خطرہ بنتی جا رہی تھیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مریم نواز کی یہی بڑھتی ہوئی مقبولیت انکی دوبارہ سے گرفتاری کی بنیادی وجہ بنی ہے۔

اب اپوزیشن کی ساری قیادت جیلوں میں پڑی ہے اور حکومت کو کھُل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے مگر ابھی اگر حکومت عوام کیلئے کچھ ڈلیور نہیں کر پا رہی ہے تو اب حکومت کی صلاحیت پر براہ راست سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں اور اب اگر حکومت کرپشن و بدعنوانی کے نام پر جیلوں میں ڈالنے جانیوالے لوگوں سے وصولیاں نہیں کر پاتی تو یہ حکومت کیلئے بہت زیادہ تباہ کن ہوگا اور لگ یہ رہا ہے کہ جو بولے اسے اندر ڈال دو کی حکومتی پالیسی بھی اب کمزور پڑتی جا رہی ہے اگر مزید سال چھ مہینے حکومت کچھ ریکور نہیں کر پاتی تو احتساب پر سیاسی انتقام کا بیانیہ حکومت کے خلاف ایک مہر بن جائے گا۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی معیشت پر دھیان دیا جائے کیونکہ آئی ایم ایف سے لئے جانے والے قرضے کی دوسری قسط لینے کا وقت بھی قریب آرہا ہے جس کیلئے ہمیں آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط پوری کرنا ہیں اور اگر آئی ایم ایف سے اگلی قسط لینے کیلئے شرائط پر عملدرآمد نہ کرنے کے باعث زیادہ استثنٰی کی ضرورت پڑی تو ایسے میں ہمیں مزید کیا کیا سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔

یہ بہت خوفناک ہوگا اور خاص کر جن حالات میں ہم گھرے ہوئے ہیں وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک جانب فیٹف شرائط کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے تو دوسری جانب بجٹ خسارے و اقتصادی بحران کے مسائل کا سامنا ہے اور ایسے میں بین الاقوامی سطح پر جو پوزیشن بنی ہوئی ہے۔

وہ بھی کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے یو اے ای اور سعودی عرب سمیت تمام دوست ممالک سے ہم قرض اور امداد لے چکے اور مزید لے رہے ہیں جبکہ آگے بھی امیدیں لگائے ہوئے ہیں ایسے میں کشمیر جیسے اہم نوعیت کے معاملہ پر یو اے ای اور سعودی عرب سمیت تمام امت مسلمہ کے ممالک کا رویہ سب کے سامنے ہے اور ہمارے ہاتھ اقتصادی مجبوریوں نے باندھ رکھے ہیں ایسے میں ملکی معاشی ترقی کیلئے روڈ میپ کا فیصلہ یقینی طور پر امید کی ایک کرن ہے۔

فیصلہ کیا گیا ہے کہ اکنامک زونز میں بیرونی سرمایہ کاری لانے، ڈیموں کی تعمیر سمیت تمام وزارتوں سے متعلق اہم فیصلے اسی روڈ میپ کے تحت کئے جائیں گے اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں اقتصادی ٹیم کا ہر ہفتے اجلاس ہوا کرے گا اور جو بھی فیصلے کئے جائیں گے وہ اس ٹیم کے سامنے پیش کئے جایا کریں گے تاکہ فیصلوں پر عملدرآمد میں تیزی آسکے۔ اس کے علاوہ ساڑھے نو سو ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کے استعمال بارے بھی خوش آئند فیصلہ سامنے آیا ہے او ر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے مکمل ہو جائیں تو اس سے لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات پڑیں گے اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔

یہ وہ فیصلے ہیں جن پر عملدرآمد سے یقینی طور پر حکومت عوام کے دلوں میں اپنے لئے کچھ نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائے گی کیونکہ ابھی نومبر کے بعد سے حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں وہ بھی حکومت کے مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑیں گے یہی نہیں بلکہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد کی جانب ملین مارچ کا وقت بھی قریب آرہا ہے۔

اگرچہ اس بارے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں پر مشتمل رہبر کمیٹی تو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے اس لئے شائد اپوزیشن اس بارے میں متحد نہ ہو سکے اور اکیلے مولانا فضل الرحمن کو ہی یا پھر چند حلیفوں کی مدد سے ہی عوام کو سڑکوں پر لانا پڑے۔ اب یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا وہ اس میں کامیاب ہو پائیں گے اور اگر وہ کامیاب ہوگئے تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔

ایسے موقع پر جبکہ پاکستان ہر طرف سے دشمن کے گھیرے میں ہے اور دشمن سر چڑھ کر بول رہا ہے اور خود ہماری قیادت قوم سے خطاب میں اپنی بے بسی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہو کہ امت مسلمہ کے ممالک اس وقت تجارت کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگر گبھرانا نہیں ہے آگے چل کر یہ ہمارے ساتھ ہونگے۔

ایسے میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے ناکہ تقسیم در تقسیم کی روایت کو برقرار رکھا جائے اس کیلئے حکومت کو سربراہ کے طور پر آگے بڑھ کر بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور تمام آپسی اختلافات کو ایک جانب رکھ کر ملک دشمن قوتوں کے سامنے ایک جان ہوکر سیسہ پلائی دیوار بننا چاہئے کیونکہ اس وقت داخلی و خارجی سطح پر پاکستان انتہائی نازک موڑ پرکھڑا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں