زمین لرزی اور بیسیوں زندگیاں خاک میں مل گئیں
زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے غیرملکی ڈونرز نے بھی حکومت بلوچستان سے رابطے کیے ہیں۔
KARACHI:
24ستمبر2013ء کی شام4 بج کر29 منٹ پر بلوچستان کے پس ماندہ علاقے آواران اور تربت (کیچ) کے بعض علاقوں کے مکینوں کے لیے قیامت صغریٰ بن کر آئی، جب زلزلے کے جھٹکوں نے ان علاقوں کو ملیامیٹ کردیا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 8 سیکنڈ کے دورانیے کے اس زلزلے نے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت7.8 ریکارڈ کی گئی، سے ضلع آواران کے200 سے زاید افراد اور تربت (کیچ) میں43 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ 450 سے زاید افراد زخمی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 300 اور زخمیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کرگئی ہے۔ بہت سے لوگ لاپتا ہیں، کتنے ہی ابھی تک مکانات و عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔
امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، جب کہ علاقے میں فرنٹیئر کور بلوچستان، پاک افواج کے جوانوں کے علاوہ انتظامیہ کے لوگ بھی پہنچ گئے ہیں۔ ابتدائی کارروائیاں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیں، جن کا لیویز اہل کاروں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق آواران شہر کے نواحی علاقے بیدی، لباچ، تیر تریج، گیشکور، مالار اور پیررندر میں ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔ ان علاقوں میں سو سے زاید لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ 50 کی لاشیں اب تک نکالی جاچکی ہیں۔
وادی مسکے کا بیشتر حصہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ خصوصاً سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر گجر جو کہ سب سے بڑا قصبہ تھا وہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اسی طرح کنڈری کلر کچھ شریکی بانسر پروار، کونرد، گورچک اور منگولی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی سو سے زاید افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے بے یارو مددار پڑے ہیں، خواتین اور بچے کئی گھنٹوں تک امدادی کارروائیاں نہ ہونے کی وجہ سے تڑپتے رہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا ہے، جب کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلچ جو کہ بیرون ملک (لندن) دورے پر ہیں نے اس خوف ناک زلزلے کے حوالے سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے چیف سیکریٹری بلوچستان کو تمام امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی ہدایت کی ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق اس قیامت خیز زلزلے سے صوبے کے5 اضلاع، جن میں آواران، تربت (کیچ)، چاغی، گوادر اور پنجگور متاثر ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ آواران متاثر ہوا ہے، جہاں کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔
آواران سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے مطابق آواران کے90 فی صد مکانات اور دیہات تباہ ہوئے ہیں اور کئی لوگ ابھی تک ان تباہ شدہ مکانات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ سیکڑوں لوگ لاپتا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آواران ایک پس ماندہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر آبادی کچے مکانات میں مکین تھی صوبائی حکومت نے فوری طور پر ایمرجینسی نافذ کرتے ہوئے اوتھل میں بیس کیمپ قائم کردیا ہے۔
پی ڈی ایم اے نے14 ٹرکوں پر مشتمل ادویات، خیمے اور اشیائے خورونوش کا سامان آواران روانہ کردیا ہے، جب کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ٹیمیں بھی آواران کے لیے روانہ کردی گئی ہیں۔ فرنٹیئر کور بلوچستان نے فوری طور پر120 جوانوں پر مشتمل دستہ جن میں ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف شامل تھا بیلہ سے آواران بھیجا، جس نے فوری طور پر آواران پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ ایف سی کی مزید ٹیمیں بھی آواران روانہ کردی گئی ہیں۔
زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے غیرملکی ڈونرز نے بھی حکومت بلوچستان سے رابطے کیے ہیں، جب کہ ابھی تک ایران ، پاک ترک فرینڈ شپ ایسوسی ایشن، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی رابطے کرکے متاثرین کی بھرپور امداد کے لیے اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے، چوں کہ ضلع آواران امن و امان کے لحاظ سے متاثرہ علاقہ ہے اور انٹرنیشنل این جی اوز اور دیگر اداروں کو متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے دوران کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کا سامنا نہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے حکومت بلوچستان نے اس سلسلے میں فُل پروف سیکیوریٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
محکمۂ صحت بلوچستان کے مطابق زلزلے کے فوراً بعد ضلع آواران کے متاثرہ علاقوں کے لیے جہاں ضروری ادویات ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کو روانہ کیا گیا ہے، وہاں15 سے زاید ایمبولینسیں بھی روانہ کردی گئی ہیں، جب کہ قریبی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام عملے کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے اور ضروری ادویات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او اور یونیسف سے بھی متاثرین کے لیے فوری ادویات کی فراہمی کیلئے درخواست کی گئی ہے۔
24ستمبر2013ء کی شام4 بج کر29 منٹ پر بلوچستان کے پس ماندہ علاقے آواران اور تربت (کیچ) کے بعض علاقوں کے مکینوں کے لیے قیامت صغریٰ بن کر آئی، جب زلزلے کے جھٹکوں نے ان علاقوں کو ملیامیٹ کردیا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 8 سیکنڈ کے دورانیے کے اس زلزلے نے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت7.8 ریکارڈ کی گئی، سے ضلع آواران کے200 سے زاید افراد اور تربت (کیچ) میں43 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ 450 سے زاید افراد زخمی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 300 اور زخمیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کرگئی ہے۔ بہت سے لوگ لاپتا ہیں، کتنے ہی ابھی تک مکانات و عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔
امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، جب کہ علاقے میں فرنٹیئر کور بلوچستان، پاک افواج کے جوانوں کے علاوہ انتظامیہ کے لوگ بھی پہنچ گئے ہیں۔ ابتدائی کارروائیاں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیں، جن کا لیویز اہل کاروں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق آواران شہر کے نواحی علاقے بیدی، لباچ، تیر تریج، گیشکور، مالار اور پیررندر میں ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔ ان علاقوں میں سو سے زاید لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ 50 کی لاشیں اب تک نکالی جاچکی ہیں۔
وادی مسکے کا بیشتر حصہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ خصوصاً سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر گجر جو کہ سب سے بڑا قصبہ تھا وہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اسی طرح کنڈری کلر کچھ شریکی بانسر پروار، کونرد، گورچک اور منگولی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی سو سے زاید افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے بے یارو مددار پڑے ہیں، خواتین اور بچے کئی گھنٹوں تک امدادی کارروائیاں نہ ہونے کی وجہ سے تڑپتے رہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا ہے، جب کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلچ جو کہ بیرون ملک (لندن) دورے پر ہیں نے اس خوف ناک زلزلے کے حوالے سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے چیف سیکریٹری بلوچستان کو تمام امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی ہدایت کی ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق اس قیامت خیز زلزلے سے صوبے کے5 اضلاع، جن میں آواران، تربت (کیچ)، چاغی، گوادر اور پنجگور متاثر ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ آواران متاثر ہوا ہے، جہاں کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔
آواران سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے مطابق آواران کے90 فی صد مکانات اور دیہات تباہ ہوئے ہیں اور کئی لوگ ابھی تک ان تباہ شدہ مکانات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ سیکڑوں لوگ لاپتا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آواران ایک پس ماندہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر آبادی کچے مکانات میں مکین تھی صوبائی حکومت نے فوری طور پر ایمرجینسی نافذ کرتے ہوئے اوتھل میں بیس کیمپ قائم کردیا ہے۔
پی ڈی ایم اے نے14 ٹرکوں پر مشتمل ادویات، خیمے اور اشیائے خورونوش کا سامان آواران روانہ کردیا ہے، جب کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ٹیمیں بھی آواران کے لیے روانہ کردی گئی ہیں۔ فرنٹیئر کور بلوچستان نے فوری طور پر120 جوانوں پر مشتمل دستہ جن میں ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف شامل تھا بیلہ سے آواران بھیجا، جس نے فوری طور پر آواران پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ ایف سی کی مزید ٹیمیں بھی آواران روانہ کردی گئی ہیں۔
زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے غیرملکی ڈونرز نے بھی حکومت بلوچستان سے رابطے کیے ہیں، جب کہ ابھی تک ایران ، پاک ترک فرینڈ شپ ایسوسی ایشن، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی رابطے کرکے متاثرین کی بھرپور امداد کے لیے اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے، چوں کہ ضلع آواران امن و امان کے لحاظ سے متاثرہ علاقہ ہے اور انٹرنیشنل این جی اوز اور دیگر اداروں کو متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے دوران کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کا سامنا نہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے حکومت بلوچستان نے اس سلسلے میں فُل پروف سیکیوریٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
محکمۂ صحت بلوچستان کے مطابق زلزلے کے فوراً بعد ضلع آواران کے متاثرہ علاقوں کے لیے جہاں ضروری ادویات ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کو روانہ کیا گیا ہے، وہاں15 سے زاید ایمبولینسیں بھی روانہ کردی گئی ہیں، جب کہ قریبی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام عملے کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے اور ضروری ادویات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او اور یونیسف سے بھی متاثرین کے لیے فوری ادویات کی فراہمی کیلئے درخواست کی گئی ہے۔