بات تو سچ ہے مگر
ہم اگر اپنی اداؤں پر غور کرلیں تو شاید دوسروں سے ہمارے گلے شکوے ختم ہوجائیں
ISLAMABAD:
انسان کی زندگی کا ہر دن اور ہر پل اسے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اب جو اس حقیقت کا سراغ پالیتا ہے تو وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی مثبت طریقے سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور جو وقت کے استاد کی بات پر دھیان نہیں دیتا، وہ ساری زندگی دوسروں کے پاؤں کی ٹھوکر بنا رہتا ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ جس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، پھر ہمیں پاکستان جیسا ملک دیا۔ اس احسان عظیم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے وقت کے ساتھ اپنی ان ساری باتوں کو بھلا دیا کہ جن پر عمل کرنے کی خواہش نے ہمیں الگ اسلامی ملک حاصل کرنے کےلیے تن من دھن کی بازی لگانے کی آگ میں جھونکا تھا۔ آزادی کے حصول کی خاطر ہم اس آگ سے تو سرخرو ہوکر نکلے اور بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات حاصل کرلی، مگر بعد میں آہستہ آہستہ اپنی عادات و اطوار کی طرف غور کرنے سے ہمارا دھیان ہٹتا چلا گیا اور آج ہم اپنے اصولوں اور تعلیمات سے کس قدر بیزار ہوچکے ہیں کہ برائی کو برائی بھی نہیں سمجھتے۔ اپنے لیے ہر بات کا مفہوم الگ اور دوسروں کےلیے اسی بات کے ہم نے الگ معانی و مطالب بنا رکھے ہیں۔ وقت کے تجربے سے کشید شدہ نیچے دی گئی کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے شاید انکار ممکن نہیں اور اسی وجہ سے دنیا میں ہم اپنا وہ جائز مقام بھی حاصل نہ کرسکے جس کے ہم حقدار تھے۔ مسلم ممالک بحیثیت مجموعی کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے بھی اسی لیے قاصر ہیں کہ ہر جگہ بس انیس بیس کے فرق سے یہی صورتحال ہے۔ آئیے ہمت کرکے ذرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ وقت کو زمانے کا استاد مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس نے وقت کی قدر نہیں کی وہ ساری عمر پچھتاتا ہے لیکن قربان جائیے ہماری قوم کے، جس نے وقت کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی ہے۔ آج کون سا ایسا کام ہے جو اپنے مقررہ وقت پر کیا جاتا ہے، سوائے مساجد میں نماز کا جو وقت مقرر ہے اسی پر نماز ادا کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں ذرا سی تاخیر بھی نمازی برداشت نہیں کرتے کہ ان کے مساجد کے علاوہ اور بھی ضروری کام ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی کام ہو مقررہ وقت سے تاخیر کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے جس کام کو ایک گھنٹے میں باآسانی نمٹایا جاسکتا ہے، اس کو سرانجام دینے کےلیے تین سے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ولیمہ کی دعوت کو ہی لے لیجئے، کارڈ پر جلی حروف میں ''وقت کی پابندی کریں'' بھی تحریر ہوتا ہے۔ مگر کون سا کارڈ اور کون سی تحریر۔ اگر کوئی شخص وقت پر پہنچ بھی جائے تو اس کی ملاقات وہاں صفائی کرنے والے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اب جس نے جہاں جانا ہوتا ہے وہ گھر سے بہت دیر سے نکلتا ہے کہ ابھی تو کوئی بھی نہیں آیا ہوگا، اتنی جلدی جاکر کیا کرنا۔ سرکاری دفاتر میں ہماری حاضری اور وقت کی پابندی کی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہماری اس عادت نے وقت کو بالکل بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے اور ہماری زندگی کا شیڈول درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے، مگر مجال ہے کہ ہمارے کان پر جوں تک رینگی ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
2۔ ہمیشہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھنے کی روش نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے اور اوپر سے ہمارے اندر عدم برداشت کے جذبے نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس وہم میں پوری طرح مبتلا ہوچکے ہیں کہ ہمارے جیسا سچا، کھرا، ایماندار اور مخلص اس پوری کائنات میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم کسی دوسرے کی بات کو وزن دینا تو بہت دور کی بات، ہم اسے آرام سے سننے تک کے روادار تک نہیں ہیں۔ ہم اس ڈگر پر چلتے ہوئے اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ خود کو افلاطون، ارسطو اور نیوٹن سے کم سمجھنے کو تیار نہیں، جب کہ مخالف سمت میں بیٹھے ہوئے کو ہم جاہل اور پینڈو جیسے القابات سے نوازنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ جب ہمارا مخالف زیادہ تین پانچ کرے تو بات پہلے زبانی بحث اور پھر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور نقصان دونوں کا ہوتا ہے، مگر اس بات کی کس کو پرواہ ہے، کیونکہ ہم نے ہر حال میں اپنی فتح کا جھنڈا گاڑنا ہوتا ہے۔
3۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا میں سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا، جب کہ سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔ لیکن اس مقولے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے سے محفوظ رکھنا اور ہر دوسرے کا گریبان چاک کرنا بھی آج کل ہمارے فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسروں کی ہر بات میں کیڑے نکالنا، ان کے اچھے کاموں کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا بھی ہمیں خوب آتا ہے اور خود کو دودھ میں دھلا ثابت کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں ہار ہی ہمارا مقدر ہے، لیکن ہم یہ کھیل چھوڑنے پر بالکل بھی تیار نہیں۔
4۔ اپنی چیز اور اپنی بات کو دوسروں سے برتر جاننا بھی جدید بیماری کی ایک قسم ہے، جس کا ہم شکار ہیں۔ ہم اپنے کتے کو ٹامی اور دوسرے کے کتے کو کتا کہتے ہیں۔ اپنی خارش کو الرجی اور دوسرے کی خارش کو کھرک کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کے پرہیزی کھانے کو بیماری، جب کہ اپنے پرہیزی کھانے کو ڈائیٹنگ کہتے ہیں۔ دوسرا بندہ کمزور ہو تو کہتے ہیں کچھ کھاؤ پیو، جب کہ اپنی کمزوری کو اسمارٹ نیس کہہ کر فتح کا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں۔ خود قہوہ پیئیں تو ماڈرن اور دوسرا پیے تو دودھ خریدنے کی سکت نہیں۔ خود فاسٹ فوڈ سے شوق فرمائیں تو مہذب اور دوسرا ایسا کرے تو آپے سے باہر۔ اب کوئی کہے تو کیا کہے۔
5۔ سیاسی لیڈروں کی اندھی تقلید نے ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار کو تہس نہس کردیا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈر کے نظریات کو پسند کرنا، انتخابات میں اس کی سپورٹ کرنا اور ووٹ دینا بالکل جائز ہے اور سارے بندے کسی ایک پارٹی یا لیڈر کو پسند کرنے والے ہو بھی نہیں سکتے۔ مختلف الخیال لوگ مختلف نظریات کے حامی ہو سکتے ہیں، ان کا لیڈر دوسرے کے لیڈر سے مختلف ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا کیا کریں کہ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم تو مخالف کو مرنے مارنے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ ہم اپنی پسند کو اچھائی کا دیوتا بنادیتے ہیں، جب کہ مخالف کو ہم ملک دشمن، غدار، کرپٹ اور سیکیورٹی رسک تک قرار دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم مخالف نظریات کے حامیوں کا قلع قمع ہی کرکے رکھ دیں۔
یہ شدت پسندی ہمیں بہت نقصان پہنچارہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جیسے گرو ویسے چیلے۔ پارٹیوں کے لیڈر خود ہی اپنے حامیوں کو شہ دیتے ہیں اور پھر اندھی تقلید والے جو کرسکتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ اگر ہم ملک کے فائدے اور سچ کا ساتھ دیں تو ملک کے ساتھ ہمارا بھی بھلا ہوجائے، مگر وہ کلچر اب واپس آتا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ نظریات میں شدت پسندی پہلے سے بڑھتی جارہی ہے، جس کو روکنے میں کوئی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
6۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے، لیکن مارکیٹ میں اپنے لیے خالص چیز ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں اگر کرپشن سے مسئلہ ہے تو وہ دوسروں کی کرپشن ہے، اپنی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں ہمیں کوئی نہ روکے، کوئی نہ ٹوکے، لیکن دوسرے سب فرشتے بن جائیں اور ہم جو خواہش کریں وہ حاضر کردیں۔ دودھ والا پانی ملا کر کرپٹ حکمرانوں سے نجات کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ مرچ، دھنیا، ہلدی، چینی، گھی وغیرہ میں سے کون سی چیز آج ہمیں خالص دستیاب ہے۔ مارکیٹ میں کاسمیٹکس کا نوے فیصد سامان جعلی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نے ہماری صحت تباہ کرکے رکھ دی ہے۔ کولڈ ڈرنکس اور جوسز جعلی دستیاب ہیں اور نہ جانے ہم پر خالص چیزیں لینے کا بھوت کیوں سوار ہے۔
اس ملاوٹ میں اب ہماری تعلیم بھی شامل ہے۔ پرائیویٹ اسکولز اور کالجز اپنے طلبا کی کامیابی کےلیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں اور پھر دوسرے اسکولز اور کالجز کے ساتھ الفاظ کی جنگ کرتے ہیں کہ ہم نے یہ کردیا، وہ کردیا۔ اب سرکاری اسکولز بھی طلبا کو امتحانات کے دوران مدد کرنے کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں، تاکہ افسران سے شاباش وصول کرسکیں اور اپنی کھنچائی سے بچ سکیں۔ اسی وجہ سے اب تعلیم بھی خالص نہیں رہی۔ ایک گریجویٹ ڈھنگ کی انگریزی تو کجا اردو میں درخواست تک لکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
7۔ حکمرانوں کا طرز عمل کسی ملک کے انداز حکمرانی اور اس ملک کے عوام کی سمجھ بوجھ کا پتہ دیتا ہے، مگر اللہ ہدایت دے ہمارے حکمرانوں کو جن کے نظریات حکومت اور اپوزیشن میں بدلتے رہتے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہوئے یہ ہر وہ کام ببانگ دہل کرتے ہیں جس کی مخالفت میں وہ اپوزیشن کے دور میں آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں مثالیں ریاست مدینہ کی دیتے ہیں، جب کہ حکومت بادشاہوں کی طرح کرتے ہیں۔ مثالیں صلاح الدین ایوبی کی دیتے ہیں لیکن تلواریں صرف رقص کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں حکومت کے ہر کام کی مخالفت کرتے ہیں اور حکومت میں آکر خود سارے وہی کام کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں میڈیا کی فل کوریج کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور حکومت میں آکر اپوزیشن کو جتنا دبا سکتے ہیں اتنا دباتے ہیں۔
یہ باتیں مکمل نہیں ہیں اور ہو بھی نہیں سکتیں۔ بس یہ تو ایک اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ایک دودھ میں پانی ملانے والا ہر روز یہ دہائی دیتا ہے کہ نہ جانے کرپٹ حکمرانوں سے کب جان چھوٹے گی۔ ملاوٹ میں لتھڑی قوم بازار سے خالص چیزیں ڈھونڈ رہی ہے۔ کرپشن اور سفارش میں ڈوبے لوگ میرٹ کی دہائی دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی اداؤں پر غور کرلیں تو شاید دوسروں سے ہمارے گلے ختم ہوجائیں، کیونکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
انسان کی زندگی کا ہر دن اور ہر پل اسے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اب جو اس حقیقت کا سراغ پالیتا ہے تو وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی مثبت طریقے سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور جو وقت کے استاد کی بات پر دھیان نہیں دیتا، وہ ساری زندگی دوسروں کے پاؤں کی ٹھوکر بنا رہتا ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ جس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، پھر ہمیں پاکستان جیسا ملک دیا۔ اس احسان عظیم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے وقت کے ساتھ اپنی ان ساری باتوں کو بھلا دیا کہ جن پر عمل کرنے کی خواہش نے ہمیں الگ اسلامی ملک حاصل کرنے کےلیے تن من دھن کی بازی لگانے کی آگ میں جھونکا تھا۔ آزادی کے حصول کی خاطر ہم اس آگ سے تو سرخرو ہوکر نکلے اور بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات حاصل کرلی، مگر بعد میں آہستہ آہستہ اپنی عادات و اطوار کی طرف غور کرنے سے ہمارا دھیان ہٹتا چلا گیا اور آج ہم اپنے اصولوں اور تعلیمات سے کس قدر بیزار ہوچکے ہیں کہ برائی کو برائی بھی نہیں سمجھتے۔ اپنے لیے ہر بات کا مفہوم الگ اور دوسروں کےلیے اسی بات کے ہم نے الگ معانی و مطالب بنا رکھے ہیں۔ وقت کے تجربے سے کشید شدہ نیچے دی گئی کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے شاید انکار ممکن نہیں اور اسی وجہ سے دنیا میں ہم اپنا وہ جائز مقام بھی حاصل نہ کرسکے جس کے ہم حقدار تھے۔ مسلم ممالک بحیثیت مجموعی کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے بھی اسی لیے قاصر ہیں کہ ہر جگہ بس انیس بیس کے فرق سے یہی صورتحال ہے۔ آئیے ہمت کرکے ذرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ وقت کو زمانے کا استاد مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس نے وقت کی قدر نہیں کی وہ ساری عمر پچھتاتا ہے لیکن قربان جائیے ہماری قوم کے، جس نے وقت کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی ہے۔ آج کون سا ایسا کام ہے جو اپنے مقررہ وقت پر کیا جاتا ہے، سوائے مساجد میں نماز کا جو وقت مقرر ہے اسی پر نماز ادا کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں ذرا سی تاخیر بھی نمازی برداشت نہیں کرتے کہ ان کے مساجد کے علاوہ اور بھی ضروری کام ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی کام ہو مقررہ وقت سے تاخیر کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے جس کام کو ایک گھنٹے میں باآسانی نمٹایا جاسکتا ہے، اس کو سرانجام دینے کےلیے تین سے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ولیمہ کی دعوت کو ہی لے لیجئے، کارڈ پر جلی حروف میں ''وقت کی پابندی کریں'' بھی تحریر ہوتا ہے۔ مگر کون سا کارڈ اور کون سی تحریر۔ اگر کوئی شخص وقت پر پہنچ بھی جائے تو اس کی ملاقات وہاں صفائی کرنے والے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اب جس نے جہاں جانا ہوتا ہے وہ گھر سے بہت دیر سے نکلتا ہے کہ ابھی تو کوئی بھی نہیں آیا ہوگا، اتنی جلدی جاکر کیا کرنا۔ سرکاری دفاتر میں ہماری حاضری اور وقت کی پابندی کی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہماری اس عادت نے وقت کو بالکل بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے اور ہماری زندگی کا شیڈول درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے، مگر مجال ہے کہ ہمارے کان پر جوں تک رینگی ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
2۔ ہمیشہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھنے کی روش نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے اور اوپر سے ہمارے اندر عدم برداشت کے جذبے نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس وہم میں پوری طرح مبتلا ہوچکے ہیں کہ ہمارے جیسا سچا، کھرا، ایماندار اور مخلص اس پوری کائنات میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم کسی دوسرے کی بات کو وزن دینا تو بہت دور کی بات، ہم اسے آرام سے سننے تک کے روادار تک نہیں ہیں۔ ہم اس ڈگر پر چلتے ہوئے اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ خود کو افلاطون، ارسطو اور نیوٹن سے کم سمجھنے کو تیار نہیں، جب کہ مخالف سمت میں بیٹھے ہوئے کو ہم جاہل اور پینڈو جیسے القابات سے نوازنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ جب ہمارا مخالف زیادہ تین پانچ کرے تو بات پہلے زبانی بحث اور پھر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور نقصان دونوں کا ہوتا ہے، مگر اس بات کی کس کو پرواہ ہے، کیونکہ ہم نے ہر حال میں اپنی فتح کا جھنڈا گاڑنا ہوتا ہے۔
3۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا میں سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا، جب کہ سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔ لیکن اس مقولے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے سے محفوظ رکھنا اور ہر دوسرے کا گریبان چاک کرنا بھی آج کل ہمارے فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسروں کی ہر بات میں کیڑے نکالنا، ان کے اچھے کاموں کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا بھی ہمیں خوب آتا ہے اور خود کو دودھ میں دھلا ثابت کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں ہار ہی ہمارا مقدر ہے، لیکن ہم یہ کھیل چھوڑنے پر بالکل بھی تیار نہیں۔
4۔ اپنی چیز اور اپنی بات کو دوسروں سے برتر جاننا بھی جدید بیماری کی ایک قسم ہے، جس کا ہم شکار ہیں۔ ہم اپنے کتے کو ٹامی اور دوسرے کے کتے کو کتا کہتے ہیں۔ اپنی خارش کو الرجی اور دوسرے کی خارش کو کھرک کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کے پرہیزی کھانے کو بیماری، جب کہ اپنے پرہیزی کھانے کو ڈائیٹنگ کہتے ہیں۔ دوسرا بندہ کمزور ہو تو کہتے ہیں کچھ کھاؤ پیو، جب کہ اپنی کمزوری کو اسمارٹ نیس کہہ کر فتح کا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں۔ خود قہوہ پیئیں تو ماڈرن اور دوسرا پیے تو دودھ خریدنے کی سکت نہیں۔ خود فاسٹ فوڈ سے شوق فرمائیں تو مہذب اور دوسرا ایسا کرے تو آپے سے باہر۔ اب کوئی کہے تو کیا کہے۔
5۔ سیاسی لیڈروں کی اندھی تقلید نے ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار کو تہس نہس کردیا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈر کے نظریات کو پسند کرنا، انتخابات میں اس کی سپورٹ کرنا اور ووٹ دینا بالکل جائز ہے اور سارے بندے کسی ایک پارٹی یا لیڈر کو پسند کرنے والے ہو بھی نہیں سکتے۔ مختلف الخیال لوگ مختلف نظریات کے حامی ہو سکتے ہیں، ان کا لیڈر دوسرے کے لیڈر سے مختلف ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا کیا کریں کہ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم تو مخالف کو مرنے مارنے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ ہم اپنی پسند کو اچھائی کا دیوتا بنادیتے ہیں، جب کہ مخالف کو ہم ملک دشمن، غدار، کرپٹ اور سیکیورٹی رسک تک قرار دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم مخالف نظریات کے حامیوں کا قلع قمع ہی کرکے رکھ دیں۔
یہ شدت پسندی ہمیں بہت نقصان پہنچارہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جیسے گرو ویسے چیلے۔ پارٹیوں کے لیڈر خود ہی اپنے حامیوں کو شہ دیتے ہیں اور پھر اندھی تقلید والے جو کرسکتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ اگر ہم ملک کے فائدے اور سچ کا ساتھ دیں تو ملک کے ساتھ ہمارا بھی بھلا ہوجائے، مگر وہ کلچر اب واپس آتا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ نظریات میں شدت پسندی پہلے سے بڑھتی جارہی ہے، جس کو روکنے میں کوئی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
6۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے، لیکن مارکیٹ میں اپنے لیے خالص چیز ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں اگر کرپشن سے مسئلہ ہے تو وہ دوسروں کی کرپشن ہے، اپنی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں ہمیں کوئی نہ روکے، کوئی نہ ٹوکے، لیکن دوسرے سب فرشتے بن جائیں اور ہم جو خواہش کریں وہ حاضر کردیں۔ دودھ والا پانی ملا کر کرپٹ حکمرانوں سے نجات کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ مرچ، دھنیا، ہلدی، چینی، گھی وغیرہ میں سے کون سی چیز آج ہمیں خالص دستیاب ہے۔ مارکیٹ میں کاسمیٹکس کا نوے فیصد سامان جعلی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نے ہماری صحت تباہ کرکے رکھ دی ہے۔ کولڈ ڈرنکس اور جوسز جعلی دستیاب ہیں اور نہ جانے ہم پر خالص چیزیں لینے کا بھوت کیوں سوار ہے۔
اس ملاوٹ میں اب ہماری تعلیم بھی شامل ہے۔ پرائیویٹ اسکولز اور کالجز اپنے طلبا کی کامیابی کےلیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں اور پھر دوسرے اسکولز اور کالجز کے ساتھ الفاظ کی جنگ کرتے ہیں کہ ہم نے یہ کردیا، وہ کردیا۔ اب سرکاری اسکولز بھی طلبا کو امتحانات کے دوران مدد کرنے کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں، تاکہ افسران سے شاباش وصول کرسکیں اور اپنی کھنچائی سے بچ سکیں۔ اسی وجہ سے اب تعلیم بھی خالص نہیں رہی۔ ایک گریجویٹ ڈھنگ کی انگریزی تو کجا اردو میں درخواست تک لکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
7۔ حکمرانوں کا طرز عمل کسی ملک کے انداز حکمرانی اور اس ملک کے عوام کی سمجھ بوجھ کا پتہ دیتا ہے، مگر اللہ ہدایت دے ہمارے حکمرانوں کو جن کے نظریات حکومت اور اپوزیشن میں بدلتے رہتے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہوئے یہ ہر وہ کام ببانگ دہل کرتے ہیں جس کی مخالفت میں وہ اپوزیشن کے دور میں آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں مثالیں ریاست مدینہ کی دیتے ہیں، جب کہ حکومت بادشاہوں کی طرح کرتے ہیں۔ مثالیں صلاح الدین ایوبی کی دیتے ہیں لیکن تلواریں صرف رقص کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں حکومت کے ہر کام کی مخالفت کرتے ہیں اور حکومت میں آکر خود سارے وہی کام کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں میڈیا کی فل کوریج کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور حکومت میں آکر اپوزیشن کو جتنا دبا سکتے ہیں اتنا دباتے ہیں۔
یہ باتیں مکمل نہیں ہیں اور ہو بھی نہیں سکتیں۔ بس یہ تو ایک اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ایک دودھ میں پانی ملانے والا ہر روز یہ دہائی دیتا ہے کہ نہ جانے کرپٹ حکمرانوں سے کب جان چھوٹے گی۔ ملاوٹ میں لتھڑی قوم بازار سے خالص چیزیں ڈھونڈ رہی ہے۔ کرپشن اور سفارش میں ڈوبے لوگ میرٹ کی دہائی دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی اداؤں پر غور کرلیں تو شاید دوسروں سے ہمارے گلے ختم ہوجائیں، کیونکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔