بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان …
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ خان کے والد کو 1910 میں نواب کا خطاب دیا تھا۔
ISLAMABAD:
ہر زمانے میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں اس طرح سے امرہوجایا کرتی ہیں کہ ان کے ذکر کے بغیر تاریخ پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، یہ بات نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیت پر صادر آتی ہے۔ ملک میں جمہوریت کا موجودہ استحکام نوابزادہ نصراللہ خان کی شبانہ روزجدوجہد کا نتیجہ ہے، ان کا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں قربت پیدا کرکے انہیں ایک ٹیبل پر بٹھانا ایک ایسا کارنامہ ہے جس نے پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے،کل تک جو پارٹیاں ایک دوسرے کی مخالفت میں تمام حدود پار کرچکی تھیں نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاسی بصیرت کے نتیجے میں ایک دوسرے کے اتنے قریب آکر ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔
پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کے خلاف اے۔ آر۔ڈی کا قیام اور میثاق جمہوریت پر اتفاق اسی کاوش کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں سابقہ حکومت اپنی مدت اقتدار بہ احسن پوری کرکے باوقار طریقے سے رخصت ہوئی اور موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی شبانہ روز کاوشوں سے بننے والے میثاق جمہوریت کے نتیجے میں بننے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کو سہارا دینے کا نواز شریف کا عزم اور یہ کہنا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت کا ساتھ چھوڑ دے لیکن مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی حکومت کا ساتھ دے گی اور دوسری طرف نواز شریف کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعیہ تقریب کے انعقاد کے موقعے پر صدر زرداری کا اپنے خطاب میں یہ کہنا کہ ہم روایتی سیاست کے بجائے موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا پورا موقع دیں گے اور حکومت کے اچھے عمل میں تعاون کرتے رہیں گے۔
قائد جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ایک دلآویز اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ہمیشہ صاف ستھری چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیص میں ملبوس ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کوشاں اجلاسوں میں شرکت اور اہم شخصیات و سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرتے نظر آتے، وطن اور وطن کے عوام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ دم آخر بھی اجلاس میں شرکت پر اصرار تھا۔ اٹھارویں صدی میں نوابزادہ نصراللہ خان کے آباؤ اجداد افغانستان سے آکر پاکستان میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے علاقے میں آباد ہوئے، یہاں منتقل ہونے کے بعد ان کے والد محترم نے 1000 مربے زرعی زمین خریدی جو مظفر گڑھ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور خان گڑھی میں ہے جبکہ لاہور میں ان کی رہائش ریلوے اسٹیشن کے پاس 32 ۔ نکلسن روڈ کے سادہ سے کرائے کے مکان میں تھی جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر دفتر بھی تھا جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی مشاورت اور بات چیت کے لیے تشریف لاتے رہے ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ خان کے والد کو 1910 میں نواب کا خطاب دیا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی تقریباً 55 سالہ سیاسی زندگی مسلسل جدوجہد، محنت اور لگن سے عبارت ہے وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی خاندانی روایات کو توڑا اور حکومتوں سے تعاون کے بجائے اقتدار کی مخالفانہ سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے 1933 میں طالب علم کی حیثیت سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمراں جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت اختیار کی، مجلس احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلا تھا۔ 1951 کے صوبائی الیکشن میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے کامیاب ہوئے، تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
نوابزادہ نصراللہ خان نے 1953 کی تحریک ختم نبوت میں اہم کردار ادا کیا۔ یاد رہے اس تحریک کو کچلنے اور دبانے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار فوج کا استعمال کیا گیا تھا۔ 1956 میں جب پاکستان کا پہلا دستور بنا تو وہ اس دستور ساز اسمبلی کا آپ حصہ تو نہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کے لیے دیگر اکابرین کے ساتھ پیش پیش رہے۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو نوابزادہ نصراللہ خان کے سرگرم ترین سیاسی دور کا آغاز ہوا وہ اس وقت تک عوامی لیگ میں شامل ہوچکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے۔ 1962 میں باالواسطہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) وجود میں آیا انہیں اس اتحاد کا کنوینئر بنایا گیا اس پلیٹ فارم سے انہوں نے ایوب خان کے باالواسطہ انتخابی نظام کے خلاف اور 1956 کے آئین کی بحالی کی جدوجہد کی۔
1965 کے صدارتی انتخاب میں نوابزادہ نصراللہ خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا گو فاطمہ جناح ان متنازعہ انتخابات میں ہار گئیں اور نوابزادہ نصراللہ خان کو بھی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے ان کی شروع کردہ جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے چھ نکات پیش کیے جانے کے بعد ان سے علیحدگی اختیار کرکے عوامی لیگ کی الگ جماعت قائم کرلی تھی، اس کے باوجود انہوں نے ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کرلیا جس کی عوامی مہم کی زبردست کامیابی کے نتیجے میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس بلائی۔
1970 کے انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی ایک مرتبہ پھر انہوں نے پیر صاحب پگارا کی سربراہی میں حزب مخالف کو متحد کرلیا اور 1977 کے انتخابات سے پہلے پیپلزپارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے باوجود نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دیا۔
انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد ہی نوابزادہ نصراللہ خان نے پیپلز پارٹی کو زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھاکر جنرل ضیا کے مارشل لاء کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) کی بنیاد اپنے دیرینہ رفیق سالار جمہوریت مشتاق مرزا کی رہائش گاہ (مرزا ہاؤس) کراچی میں رکھی، اس اتحاد نے جنرل ضیا کے خلاف 1983 میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر آمر وقت کو ریفرنڈم کرانے اور 1985 کے انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی جمہوریت کی آبیاری کی جدوجہد جنرل ضیا کی موت کے بعد بھی جاری رہی، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں کمبائنڈ اپوزیشن کے نام سے حزب مخالف جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر اسحٰق خان نے رخصت کیا تو 1990 کے انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف کی حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو وہ ایک بار پھر نئے انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سرگرم ہوگئے۔
بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان نے دو بڑے حریفوں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بحالی جمہوریت کی تحریک (اے آر ڈی) کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے ملکی تاریخ کا بڑا کارنامہ انجام دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان بہت شائستہ اور فصیح گفتگو کرتے تھے، ان کی بھاری آواز نہایت دل آویز تھی، اپنی تقاریر میں برمحل شعروں کا استعمال کرتے، ان کی زبان سے کبھی بھی اپنے بدترین مخالف کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی۔
اگر دیکھا جائے تو بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان اپنے 55 سالہ سیاسی کیریئر میں اتنا کام کرگئے کہ آنے والی نسلیں اس سے ضرور مستفیض ہوں گی، وہ رہنماؤں کے رہنما تھے ہر وہ حکمراں جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔