نوجوانوں کے لیے اسکیمیں
لہٰذا مادی اور غیر مادی سرمایہ کی تشکیل سے ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں بڑی سرعت پیدا کی جا سکتی ہے۔
PESHAWAR/ISLAMABAD:
سرمایہ کی تشکیل دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مادی سرمایہ اور دوسرا غیر مادی سرمایہ یعنی انسانی سرمایہ۔ غیر مادی سرمایہ کی تشکیل سے مراد ملک میں ہر قسم کے ہنرمند افراد تیار کرنا۔ فنی ماہرین تیار کرنا وغیرہ۔ انسانی سرمایہ میں نوجوان انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ قوم کا اصل سرمایہ اصل قوت اس کی پائیدار اور قابل اعتماد اور حقیقی دولت نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ مضمحل اور درماندہ قوم کو جو کہ دہشت گردی، کم بیرونی سرمایہ کاری، روپے کی کمزوری معیشت کی نڈھالی، کے باعث مایوسی کی جانب جا رہی ہو قوم میں نئے عزم اور ولولے بھرنے والے یہی نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس غیر مادی سرمایہ یا نوجوان افرادی قوت جو کہ تعلیم یافتہ بھی ہوں، انھیں ہنرمند بھی بنا دیا جائے فنی تربیت بھی مہیا کر دی جائے، اس کے ساتھ ہی انھیں مادی سرمایہ یعنی رقوم تھما دی جائیں کہ ان سے خود بھی برسر روزگار ہو جائیں اور دوسروں کو بھی روزگار کی فراہمی کا وسیلہ بن جائیں گے۔
لہٰذا مادی اور غیر مادی سرمایہ کی تشکیل سے ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں بڑی سرعت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر سرمایہ موجود بھی ہو لیکن افرادی قوت جوان نہ ہو تربیت یافتہ نہ ہو ہنرمند نہ ہوں۔ تو ملک کے لیے ترقی کا حصول محال ہو جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی اور جاپان میں ہر طرف تباہی و بربادی مچا دی گئی تھی۔ وہاں کی افرادی قوت کی بے پناہ کوششوں کے باعث یہ ممالک جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ پاکستان میں سرمایہ کی کمی ہے تو کیا ہوا۔ بیرونی سرمایہ کار منہ موڑ گئے یا پھر ملکی سرمایہ کار بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ پھر بھی کیا ہوا۔ ملک میں ہمت و جرأت رکھنے والے نوجوان ہر مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ملک کو ترقی دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
21 ستمبر 2013 کو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ملک کے نوجوانوں کے لیے 20 ارب روپے سے 6 اسکیمیں شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ رقم کم ہے۔ ہر قسم کے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق جن ممالک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں لوگ زیادہ دیر تک کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں اسی طرح وہاں کی افرادی قوت کی بہتر استعداد کار اور آبادی کا معیار بہتر ہوتا ہے کیونکہ نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے جو کہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے حوصلہ افزا ہوتی ہے، اور اگر ان میں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متحرک کر دیا جائے انھیں فنی تربیت سے لیس کر دیا جائے انھیں ہنر و فن سکھا کر مزید کارآمد بنا دیا جائے تو ایسے افراد جی ڈی پی میں اضافے اور معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ افرادی قوت کی ترقی اقتصادی خوشحالی کی خشت اول ہے۔
معیاری افرادی وسائل کے بغیر بلند شرح پیداوار کو برقرار رکھنا کسی بھی ملک کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اگر مختص کردہ رقم کہیں زیادہ ہوتی تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شمولیت کے باعث معاشی ترقی کے ثمرات کو عوام کی نچلی سطح تک جلد از جلد لے جایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اگر نیک نیتی کے ساتھ ان تمام اسکیموں پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے تو کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان اسکیموں میں سب سے اہم اسکیم ڈھائی لاکھ افراد کو مارک اپ کے بغیر چھوٹے قرضے دیے جائیں گے۔ 50 ہزار گریجویٹس کو تربیت دی جائے گی اور انھیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ ایک لاکھ طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک رعایتی قرضہ دیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت50 فیصد خواتین کو قرض فراہم کیا جائے گا جس پر 8 فیصد شرح سود چارج کیا جائے گا۔ اس میں سے باقی سود حکومت ادا کرے گی۔
مارک اپ کے بغیر ڈھائی لاکھ افراد کو چھوٹے قرضے دیے جائیں گے۔ پسماندہ علاقوں کے طلباء کو تعلیم دلانے کے لیے حکومت ان کی فیسیں ادا کرے گی۔ ترقی پذیر ممالک میں معاشی ترقی کے اصل ڈھانچے کی کمی ہوتی ہے۔ جو عموماً شہری مراکز میں پایا جاتا ہے۔ شہروں میں جدید دور کی بہت سی سہولیات موجود ہوتی ہیں جب کہ دیہات میں اس قسم کی سہولت موجود نہیں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے عوام ترقی کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کی ناکافی سہولیات ہوتی ہیں۔ نیز غربت کے باعث دیہی علاقوں کے طالب علم اپنے تعلیمی اخراجات پورا نہ کرنے کے سبب تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بعض طلبا و طالبات انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن وسائل کی کمی کے باعث ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتے ہیں۔ لہٰذا حکومت نے جس اسکیم کا اعلان کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان طلبا کا انتخاب کرے اور ان کی فیسیں ادا کرنے کا موثر نظام قائم کرے۔ اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرنے سے کچھ ہی عرصے میں دیہی علاقوں میں معاشی ناہمواری میں کسی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 6 اسکیموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلی اسکیم بلاسود چھوٹے قرضوں کی ہے جو کمزور مالی طبقات کے افراد کے لیے مخصوص ہے جس کے لیے ساڑھے تین ارب روپے رکھے گئے ہیں اس سے ڈھائی لاکھ لوگوں کو استفادے کا موقع ملے گا۔ یہ بلا سود قرض ہے، جہاں تک بلا سود قرضے کی فراہمی کی بات ہے جو کہ چھوٹے اور کمزور طبقات کو فراہم کیے جائیں گے اگر اس کے لیے رقم کم رکھی گئی ہے۔ اس طرح اس رقم سے ڈھائی لاکھ افراد کو قرض فراہم کیا جائے گا جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو 13 یا 14 ہزار روپے ہی دیے جا سکیں گے۔ جو کہ اس دور میں انتہائی قلیل ترین رقم ہے کیا بعید وہ رقم لے کر گھر آئے اور اسے بجلی کا بل ہی 15 یا 16 ہزار روپے کا مل جائے جس کی ادائیگی میں ہی وہ رقم خرچ ہو جائے گی۔ یا اگر چھوٹی سی دکان ہے تو شوکیس بنوانے میں ہی وہ رقم صرف ہو جائے۔ لہٰذا رقم کی کم ازکم حد 50 ہزار روپے ہونا چاہیے تا کہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کی ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکے۔
البتہ تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کو 5 لاکھ سے 20 لاکھ تک کے قرضے دیے جائیں گے جس میں سے خواتین کا حصہ 50 فیصد ہو گا جس پر 8 فیصد مارک اپ کی شرح ہو گی۔ باقی حکومت خود ادا کرے گی۔ اگرچہ بعض کاروباری افراد اس سے قبل بھی مارک اپ پر قرض لیتے رہے ہیں۔ لیکن بعض اوقات چونکہ سرد بازاری یا مندی کا راج ہوتا ہے یا مصنوعات کی لاگت میں اضافے کے باعث وہ اتنا منافع نہیں کما پاتے کہ لیا گیا قرض اور مارک اپ ادا کر سکیں لہٰذا ایسے کاروباری افراد یا اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ماہرین اس مسئلے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تا کہ بینکوں سے قرض لینے کی مانند انھیں کسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جن 50 ہزار افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔ ان کے لیے ایک سال کے دوران ٹریننگ 10 ہزار وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ اس طرح ماسٹر ڈگری کے حامل افراد کو ٹریننگ کے بعد جاب کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو بہت سے میدان میں مزید کامیابیاں حاصل کرنا ہوں گی تا کہ ان کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کیے جا سکیں۔ کیونکہ اب سرکاری شعبوں میں نوکری کے مواقعے تقریباً ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ نجی اداروں کی ترقی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بصورت دیگر طلبا ٹریننگ حاصل کر کے اپنی قابلیت کے مطابق جاب حاصل نہ کر سکیں گے جس سے ان میں مایوسی پھیل سکتی ہے۔
حکومت نے مڈل پاس نوجوانوں کے لیے محض 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں اور 6 ماہ تک تربیت کی فراہمی کے دوران 5 ہزار روپے وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے اس بات کا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ 6 اسکیموں کو مزید موثر اور شفاف اور 100 فیصد میرٹ کے مطابق بنانے کے لیے عوام کی طرف سے تجاویز 3 اکتوبر تک وصول کی جائیں گی۔ حکومت کے اعلان کردہ اسکیموں کا اطلاق چاروں صوبوں بشمول فاٹا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں یکساں طور پر ہو گا۔ اب ملک کے نوجوان کو چاہیے کہ ان اسکیموں میں مزید بہتری کے لیے حکومت کو تجاویز پیش کریں۔
سرمایہ کی تشکیل دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مادی سرمایہ اور دوسرا غیر مادی سرمایہ یعنی انسانی سرمایہ۔ غیر مادی سرمایہ کی تشکیل سے مراد ملک میں ہر قسم کے ہنرمند افراد تیار کرنا۔ فنی ماہرین تیار کرنا وغیرہ۔ انسانی سرمایہ میں نوجوان انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ قوم کا اصل سرمایہ اصل قوت اس کی پائیدار اور قابل اعتماد اور حقیقی دولت نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ مضمحل اور درماندہ قوم کو جو کہ دہشت گردی، کم بیرونی سرمایہ کاری، روپے کی کمزوری معیشت کی نڈھالی، کے باعث مایوسی کی جانب جا رہی ہو قوم میں نئے عزم اور ولولے بھرنے والے یہی نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس غیر مادی سرمایہ یا نوجوان افرادی قوت جو کہ تعلیم یافتہ بھی ہوں، انھیں ہنرمند بھی بنا دیا جائے فنی تربیت بھی مہیا کر دی جائے، اس کے ساتھ ہی انھیں مادی سرمایہ یعنی رقوم تھما دی جائیں کہ ان سے خود بھی برسر روزگار ہو جائیں اور دوسروں کو بھی روزگار کی فراہمی کا وسیلہ بن جائیں گے۔
لہٰذا مادی اور غیر مادی سرمایہ کی تشکیل سے ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں بڑی سرعت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر سرمایہ موجود بھی ہو لیکن افرادی قوت جوان نہ ہو تربیت یافتہ نہ ہو ہنرمند نہ ہوں۔ تو ملک کے لیے ترقی کا حصول محال ہو جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی اور جاپان میں ہر طرف تباہی و بربادی مچا دی گئی تھی۔ وہاں کی افرادی قوت کی بے پناہ کوششوں کے باعث یہ ممالک جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ پاکستان میں سرمایہ کی کمی ہے تو کیا ہوا۔ بیرونی سرمایہ کار منہ موڑ گئے یا پھر ملکی سرمایہ کار بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ پھر بھی کیا ہوا۔ ملک میں ہمت و جرأت رکھنے والے نوجوان ہر مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ملک کو ترقی دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
21 ستمبر 2013 کو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ملک کے نوجوانوں کے لیے 20 ارب روپے سے 6 اسکیمیں شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ رقم کم ہے۔ ہر قسم کے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق جن ممالک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں لوگ زیادہ دیر تک کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں اسی طرح وہاں کی افرادی قوت کی بہتر استعداد کار اور آبادی کا معیار بہتر ہوتا ہے کیونکہ نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے جو کہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے حوصلہ افزا ہوتی ہے، اور اگر ان میں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متحرک کر دیا جائے انھیں فنی تربیت سے لیس کر دیا جائے انھیں ہنر و فن سکھا کر مزید کارآمد بنا دیا جائے تو ایسے افراد جی ڈی پی میں اضافے اور معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ افرادی قوت کی ترقی اقتصادی خوشحالی کی خشت اول ہے۔
معیاری افرادی وسائل کے بغیر بلند شرح پیداوار کو برقرار رکھنا کسی بھی ملک کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اگر مختص کردہ رقم کہیں زیادہ ہوتی تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شمولیت کے باعث معاشی ترقی کے ثمرات کو عوام کی نچلی سطح تک جلد از جلد لے جایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اگر نیک نیتی کے ساتھ ان تمام اسکیموں پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے تو کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان اسکیموں میں سب سے اہم اسکیم ڈھائی لاکھ افراد کو مارک اپ کے بغیر چھوٹے قرضے دیے جائیں گے۔ 50 ہزار گریجویٹس کو تربیت دی جائے گی اور انھیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ ایک لاکھ طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک رعایتی قرضہ دیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت50 فیصد خواتین کو قرض فراہم کیا جائے گا جس پر 8 فیصد شرح سود چارج کیا جائے گا۔ اس میں سے باقی سود حکومت ادا کرے گی۔
مارک اپ کے بغیر ڈھائی لاکھ افراد کو چھوٹے قرضے دیے جائیں گے۔ پسماندہ علاقوں کے طلباء کو تعلیم دلانے کے لیے حکومت ان کی فیسیں ادا کرے گی۔ ترقی پذیر ممالک میں معاشی ترقی کے اصل ڈھانچے کی کمی ہوتی ہے۔ جو عموماً شہری مراکز میں پایا جاتا ہے۔ شہروں میں جدید دور کی بہت سی سہولیات موجود ہوتی ہیں جب کہ دیہات میں اس قسم کی سہولت موجود نہیں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے عوام ترقی کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کی ناکافی سہولیات ہوتی ہیں۔ نیز غربت کے باعث دیہی علاقوں کے طالب علم اپنے تعلیمی اخراجات پورا نہ کرنے کے سبب تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بعض طلبا و طالبات انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن وسائل کی کمی کے باعث ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتے ہیں۔ لہٰذا حکومت نے جس اسکیم کا اعلان کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان طلبا کا انتخاب کرے اور ان کی فیسیں ادا کرنے کا موثر نظام قائم کرے۔ اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرنے سے کچھ ہی عرصے میں دیہی علاقوں میں معاشی ناہمواری میں کسی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 6 اسکیموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلی اسکیم بلاسود چھوٹے قرضوں کی ہے جو کمزور مالی طبقات کے افراد کے لیے مخصوص ہے جس کے لیے ساڑھے تین ارب روپے رکھے گئے ہیں اس سے ڈھائی لاکھ لوگوں کو استفادے کا موقع ملے گا۔ یہ بلا سود قرض ہے، جہاں تک بلا سود قرضے کی فراہمی کی بات ہے جو کہ چھوٹے اور کمزور طبقات کو فراہم کیے جائیں گے اگر اس کے لیے رقم کم رکھی گئی ہے۔ اس طرح اس رقم سے ڈھائی لاکھ افراد کو قرض فراہم کیا جائے گا جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو 13 یا 14 ہزار روپے ہی دیے جا سکیں گے۔ جو کہ اس دور میں انتہائی قلیل ترین رقم ہے کیا بعید وہ رقم لے کر گھر آئے اور اسے بجلی کا بل ہی 15 یا 16 ہزار روپے کا مل جائے جس کی ادائیگی میں ہی وہ رقم خرچ ہو جائے گی۔ یا اگر چھوٹی سی دکان ہے تو شوکیس بنوانے میں ہی وہ رقم صرف ہو جائے۔ لہٰذا رقم کی کم ازکم حد 50 ہزار روپے ہونا چاہیے تا کہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کی ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکے۔
البتہ تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کو 5 لاکھ سے 20 لاکھ تک کے قرضے دیے جائیں گے جس میں سے خواتین کا حصہ 50 فیصد ہو گا جس پر 8 فیصد مارک اپ کی شرح ہو گی۔ باقی حکومت خود ادا کرے گی۔ اگرچہ بعض کاروباری افراد اس سے قبل بھی مارک اپ پر قرض لیتے رہے ہیں۔ لیکن بعض اوقات چونکہ سرد بازاری یا مندی کا راج ہوتا ہے یا مصنوعات کی لاگت میں اضافے کے باعث وہ اتنا منافع نہیں کما پاتے کہ لیا گیا قرض اور مارک اپ ادا کر سکیں لہٰذا ایسے کاروباری افراد یا اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ماہرین اس مسئلے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تا کہ بینکوں سے قرض لینے کی مانند انھیں کسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جن 50 ہزار افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔ ان کے لیے ایک سال کے دوران ٹریننگ 10 ہزار وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ اس طرح ماسٹر ڈگری کے حامل افراد کو ٹریننگ کے بعد جاب کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو بہت سے میدان میں مزید کامیابیاں حاصل کرنا ہوں گی تا کہ ان کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کیے جا سکیں۔ کیونکہ اب سرکاری شعبوں میں نوکری کے مواقعے تقریباً ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ نجی اداروں کی ترقی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بصورت دیگر طلبا ٹریننگ حاصل کر کے اپنی قابلیت کے مطابق جاب حاصل نہ کر سکیں گے جس سے ان میں مایوسی پھیل سکتی ہے۔
حکومت نے مڈل پاس نوجوانوں کے لیے محض 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں اور 6 ماہ تک تربیت کی فراہمی کے دوران 5 ہزار روپے وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے اس بات کا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ 6 اسکیموں کو مزید موثر اور شفاف اور 100 فیصد میرٹ کے مطابق بنانے کے لیے عوام کی طرف سے تجاویز 3 اکتوبر تک وصول کی جائیں گی۔ حکومت کے اعلان کردہ اسکیموں کا اطلاق چاروں صوبوں بشمول فاٹا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں یکساں طور پر ہو گا۔ اب ملک کے نوجوان کو چاہیے کہ ان اسکیموں میں مزید بہتری کے لیے حکومت کو تجاویز پیش کریں۔