گیارہ اکتوبر
اس سلسلے میں سب سے خوش قسمت عمران خان ہیں۔ وہ مغربی میڈیا کی ایک پسندیدہ شخصیت ہیں۔
ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاؤس میں کسی کی ایک تصویر لگ جائے تو سمجھو کہ بس اس کا کام ہو گیا۔ کچھ لوگ تو یہاں آئے ہی اپنا ایک فوٹو لگوانے کو تھے۔ کتنوں نے اسے سرفراز کیا اور کتنے اس اعزاز کی بے توقیری کا سبب بنے اس کے بارے میں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ فریم میں ٹنگی ہوئی اور اخبار میں چھپی ہوئی تصویر کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ جسے اس کا چسکا لگ جائے وہ جانے کیا کیا جتن کرتا ہے۔ ''ٹائم'' میگزین کے سرورق پر شایع ہونا اب ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن ایک زمانے میں اس کے لیے بڑے ترلے کرنا پڑتے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر خود کو پیش کرنے کا یہ ایک بہترین راستہ تھا۔ اسی لیے جوڑ توڑ بھی کیے جاتے، لابنگ بھی ہوتی، پیسہ بھی استعمال ہوتا اور بہت بڑے بڑے ایشوز بھی تراشے جاتے۔ تب کہیں جا کے بات بنتی۔ بھٹو صاحب کی تصویر ''ٹائم'' کے سرورق پر شایع ہوئی تو وہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ اس کے بعد تو بہت لوگ اس ٹائٹل کی زینت بنے۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف کو بھی جگہ مل گئی۔
اس سلسلے میں سب سے خوش قسمت عمران خان ہیں۔ وہ مغربی میڈیا کی ایک پسندیدہ شخصیت ہیں۔ انھیں نہ صرف ''ٹائم'' اور ''نیوزویک'' میں بارہا آنا نصیب ہوا ہے بلکہ بی بی سی اور سی این این بھی متعدد بار ان پر پروگرام کر چکے ہیں۔ اس سلسلے کی ہماری تازہ اسٹار ملالہ یوسف زئی ہے۔ میڈیا جس قدر اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہا ہے اتنی ہی اہم لوگوں کی کوریج بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی ملالہ کے ساتھ ہوا ہے۔ اسے ناقابل یقین پذیرائی ملی ہے اور وہ اب ایک بڑی اسٹار ہے۔ ''ڈیوڈ فراسٹ'' کا گزشتہ ماہ انتقال ہو گیا لیکن اگر زندہ ہوتا تو شاید کسی مرحلے پر ملالہ سے بھی انٹرویو کرتا۔ یہ بھی ایک بڑا اعزاز ہوتا کیونکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس سے انٹرویو کروانے کے لیے جو جو پاپڑ بیلے تھے ان کی تفصیل پر پردہ ہی پڑا رہے تو اچھا ہے۔پردہ اٹھا تو بہت سے بتوں میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔
اب چند ہی روز کے بعد ایک اور بین الاقوامی اعزاز کا اعلان ہونے والا ہے۔ یعنی نوبل انعام کا۔ اس میں ہماری دلچسپی رہ سہہ کے بس امن کے نوبل انعام تک محدود ہے اور وہ بھی ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے۔ ملالہ نے گزشتہ کچھ عرصے میں جس تیزی سے کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے ہیں اسے دیکھ کر بہت سوں کو امید ہے کہ ملالہ یہ انعام بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن یہ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ اس انعام کے لیے اب کی بار نوبل کمیٹی کو ریکارڈ تعداد میں نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔ ان کی تعداد 259 ہے۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ 241 نامزدگیوں کا تھا۔ یہ دو سال پہلے یعنی 2011کا ذکر ہے۔
یہ نامزدگیاں کسی قسم کی مقبولیت وغیرہ کے لحاظ سے نہیں ہوتیں بلکہ نوبل انعام کی انتظامیہ نے کچھ اصولوں کے تحت کچھ اداروں کو، افراد کو اور ممالک کی حکومتوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کسی کی نامزدگی ارسال کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے انھیں طے شدہ معیار کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ اسی معیار کے تحت اس دفعہ ملالہ بھی اس دوڑ میں شامل ہے اور نامزد ہے۔ یہ نامزدگی ہماری حکومت نے نہیں بھیجی ہے بلکہ اسے بین الاقوامی اداروں اور افراد کے گروہوں کی طرف سے نامزد کیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نامزدگی نے بھی اسے ایک اعزاز تو بخش ہی دیا ہے۔ وہ امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کی جانے والی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت نے کبھی اس کام میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ مختلف اوقات میں اس نے کبھی عوام کے دباؤ کے تحت اور کبھی جوڑ توڑ کو پذیرائی بخشتے ہوئے نامزدگیاں تو ضرور ارسال کی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ملالہ کی حکومتی نامزدگی پر دھیان نہ دینے کی وجہ شاید یہی ہے کہ حکومت ''اس طرف والی'' امن کی مذاکراتی ٹیم کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ہاں البتہ گزشتہ برس جناب عبدالستار ایدھی کو سرکاری طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے، کئی برس ہوئے، حکومت نے جے سالک کو بھی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔ جے سالک کا تعلق اسی مظلوم برادری سے ہے جس کے چرچ پر مبینہ طور پر ''اس طرف والی'' امن کی مذاکراتی ٹیم نے حملہ کیا ہے۔ اسی کی وجہ سے ملالہ کی نامزدگی سے اجتناب برتا گیا تھا۔ زندگی ایسے ہی حقائق سے عبارت ہے اور اداس کرتی ہے۔
یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس دفعہ سب سے زیادہ نامزدگیاں آئی ہیں۔ ان میں افراد کے علاوہ ادارے اور تنظیمیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ انھیں بھی یہ انعام مل سکتا ہے۔ یوں جیسے کبھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کو یا پاکستان تحریک انصاف کو امن کا نوبل پرائز مل جائے۔ ویسے یہ بعد والا نام میں نے محض ان لوگوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے لکھا ہے۔ ملالہ کا نام اب کی بار نمایاں ترین افراد میں سے ہے لیکن ایک اور شخص سے اس کا سخت مقابلہ ہے۔ یہ ''بریڈ لے میننگ'' ہے ۔ اس 25 سالہ نوجوان کو گزشتہ ماہ 35 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ ایک امریکی فوجی ہے اور اس وقت امریکی فوج کی جیل میں ہے۔ یہ وہی نوجوان انٹیلی جنس انالسٹ ہے جس نے 2009 اور 2010 میں ''وکی لیکس'' کے لیے ہزاروں صفحات کی وہ خفیہ دستاویزات لیک کی تھیں جن کی وجہ سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا اور تمام سیاسی اور فوجی منظرنامہ تبدیل ہو گیا تھا۔ اسی کی وجہ سے جنگ عراق کا دورانیہ کم ہوا اور امریکا کو خوار ہونا پڑا۔ ظاہر ہے اب امریکا تو اس کے حق میں نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ اسے امن کے انعام کا حقدار سمجھتے ہیں۔ لاکھوں افراد نے اس کے حق میں پٹیشن پر دستخط کر کے نوبل کمیٹی کو ارسال کی ہے اور اس کے حق میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔
آخر میں جیت کس کی ہو گی؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ کوئی مقبولیت کی دوڑ تو ہے نہیں۔ 11 اکتوبر تک فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اس وقت تک 5 رکنی کمیٹی نے قواعد کے مطابق طے کرنا ہے کہ کون ان کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ میری رائے اس ''معیار'' کے بارے میں کیا ہے۔ یہ مت پوچھیے۔ اس پر پردہ ہی پڑا رہے تو اچھا ہے۔ ویسے یہ تو آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں گنتی آتی ہے اور دوسرے وہ جنھیں گنتی بالکل بھی نہیں آتی۔ اور تیسرے...!!!
اس سلسلے میں سب سے خوش قسمت عمران خان ہیں۔ وہ مغربی میڈیا کی ایک پسندیدہ شخصیت ہیں۔ انھیں نہ صرف ''ٹائم'' اور ''نیوزویک'' میں بارہا آنا نصیب ہوا ہے بلکہ بی بی سی اور سی این این بھی متعدد بار ان پر پروگرام کر چکے ہیں۔ اس سلسلے کی ہماری تازہ اسٹار ملالہ یوسف زئی ہے۔ میڈیا جس قدر اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہا ہے اتنی ہی اہم لوگوں کی کوریج بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی ملالہ کے ساتھ ہوا ہے۔ اسے ناقابل یقین پذیرائی ملی ہے اور وہ اب ایک بڑی اسٹار ہے۔ ''ڈیوڈ فراسٹ'' کا گزشتہ ماہ انتقال ہو گیا لیکن اگر زندہ ہوتا تو شاید کسی مرحلے پر ملالہ سے بھی انٹرویو کرتا۔ یہ بھی ایک بڑا اعزاز ہوتا کیونکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس سے انٹرویو کروانے کے لیے جو جو پاپڑ بیلے تھے ان کی تفصیل پر پردہ ہی پڑا رہے تو اچھا ہے۔پردہ اٹھا تو بہت سے بتوں میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔
اب چند ہی روز کے بعد ایک اور بین الاقوامی اعزاز کا اعلان ہونے والا ہے۔ یعنی نوبل انعام کا۔ اس میں ہماری دلچسپی رہ سہہ کے بس امن کے نوبل انعام تک محدود ہے اور وہ بھی ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے۔ ملالہ نے گزشتہ کچھ عرصے میں جس تیزی سے کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے ہیں اسے دیکھ کر بہت سوں کو امید ہے کہ ملالہ یہ انعام بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن یہ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ اس انعام کے لیے اب کی بار نوبل کمیٹی کو ریکارڈ تعداد میں نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔ ان کی تعداد 259 ہے۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ 241 نامزدگیوں کا تھا۔ یہ دو سال پہلے یعنی 2011کا ذکر ہے۔
یہ نامزدگیاں کسی قسم کی مقبولیت وغیرہ کے لحاظ سے نہیں ہوتیں بلکہ نوبل انعام کی انتظامیہ نے کچھ اصولوں کے تحت کچھ اداروں کو، افراد کو اور ممالک کی حکومتوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کسی کی نامزدگی ارسال کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے انھیں طے شدہ معیار کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ اسی معیار کے تحت اس دفعہ ملالہ بھی اس دوڑ میں شامل ہے اور نامزد ہے۔ یہ نامزدگی ہماری حکومت نے نہیں بھیجی ہے بلکہ اسے بین الاقوامی اداروں اور افراد کے گروہوں کی طرف سے نامزد کیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نامزدگی نے بھی اسے ایک اعزاز تو بخش ہی دیا ہے۔ وہ امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کی جانے والی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت نے کبھی اس کام میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ مختلف اوقات میں اس نے کبھی عوام کے دباؤ کے تحت اور کبھی جوڑ توڑ کو پذیرائی بخشتے ہوئے نامزدگیاں تو ضرور ارسال کی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ملالہ کی حکومتی نامزدگی پر دھیان نہ دینے کی وجہ شاید یہی ہے کہ حکومت ''اس طرف والی'' امن کی مذاکراتی ٹیم کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ہاں البتہ گزشتہ برس جناب عبدالستار ایدھی کو سرکاری طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے، کئی برس ہوئے، حکومت نے جے سالک کو بھی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔ جے سالک کا تعلق اسی مظلوم برادری سے ہے جس کے چرچ پر مبینہ طور پر ''اس طرف والی'' امن کی مذاکراتی ٹیم نے حملہ کیا ہے۔ اسی کی وجہ سے ملالہ کی نامزدگی سے اجتناب برتا گیا تھا۔ زندگی ایسے ہی حقائق سے عبارت ہے اور اداس کرتی ہے۔
یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس دفعہ سب سے زیادہ نامزدگیاں آئی ہیں۔ ان میں افراد کے علاوہ ادارے اور تنظیمیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ انھیں بھی یہ انعام مل سکتا ہے۔ یوں جیسے کبھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کو یا پاکستان تحریک انصاف کو امن کا نوبل پرائز مل جائے۔ ویسے یہ بعد والا نام میں نے محض ان لوگوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے لکھا ہے۔ ملالہ کا نام اب کی بار نمایاں ترین افراد میں سے ہے لیکن ایک اور شخص سے اس کا سخت مقابلہ ہے۔ یہ ''بریڈ لے میننگ'' ہے ۔ اس 25 سالہ نوجوان کو گزشتہ ماہ 35 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ ایک امریکی فوجی ہے اور اس وقت امریکی فوج کی جیل میں ہے۔ یہ وہی نوجوان انٹیلی جنس انالسٹ ہے جس نے 2009 اور 2010 میں ''وکی لیکس'' کے لیے ہزاروں صفحات کی وہ خفیہ دستاویزات لیک کی تھیں جن کی وجہ سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا اور تمام سیاسی اور فوجی منظرنامہ تبدیل ہو گیا تھا۔ اسی کی وجہ سے جنگ عراق کا دورانیہ کم ہوا اور امریکا کو خوار ہونا پڑا۔ ظاہر ہے اب امریکا تو اس کے حق میں نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ اسے امن کے انعام کا حقدار سمجھتے ہیں۔ لاکھوں افراد نے اس کے حق میں پٹیشن پر دستخط کر کے نوبل کمیٹی کو ارسال کی ہے اور اس کے حق میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔
آخر میں جیت کس کی ہو گی؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ کوئی مقبولیت کی دوڑ تو ہے نہیں۔ 11 اکتوبر تک فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اس وقت تک 5 رکنی کمیٹی نے قواعد کے مطابق طے کرنا ہے کہ کون ان کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ میری رائے اس ''معیار'' کے بارے میں کیا ہے۔ یہ مت پوچھیے۔ اس پر پردہ ہی پڑا رہے تو اچھا ہے۔ ویسے یہ تو آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں گنتی آتی ہے اور دوسرے وہ جنھیں گنتی بالکل بھی نہیں آتی۔ اور تیسرے...!!!