ضعیف الاعتقادی اور معاشرتی رویے
جنات اتارنے والے بعض بزرگان دین اس قسم کی خدمات بغیر کسی فیس یا نذرانے کے کرتے ہیں
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس کے ساتھ لوگوں کی جہالت اور گمراہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو علم کی روشنی سے اپنے قلب و نظر کو منور کر رہے ہیں۔ مذہبی عقائد اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے لوگوں کا پیروں، فقیروں اور نجومیوں پر اعتماد بڑھ گیا ہے، گویا اپنا عمل اور عبادت کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی ہے، بلکہ ہر شخص شارٹ کٹ سے نکلنا چاہتا ہے اور حصول مقصد کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
حال ہی میں ہم نے ایک خبر پڑھی پنجاب کی خاتون کو ایم پی اے کی مخصوص نشست کے حصول کے لیے 7 تولہ زیور، ایک عدد بکرا اور نقد رقم سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پولیس ذرایع کے مطابق، محلہ نصیر آباد کی رہائشی شمیم بی بی نے الیکشن جیتنے کے لیے کچھ لوگوں کے بتانے پر بابا سے رجوع کیا جس نے دعا کی اور یہ خوشخبری سنائی کہ تم الیکشن جیت جاؤ گی اس کے ساتھ ہی اس نے خاتون کا پہنا ہوا زیور، نقدی اور بکرا فیس کے طور پر لے لیا۔ لیکن بقول خاتون کے وہ الیکشن ہار گئی جب دی ہوئی قیمتی اشیاء کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ملزمان نے جان سے مارنے کی اسے دھمکی دی۔ اس طرح کے واقعات اور حالات ہمارے معاشرے میں روز جنم لیتے ہیں۔ آج کل جنات کا لوگوں کا تنگ کرنا وبائی امراض کی شکل اختیار کر گیا ہے، ہر دوسرے گھر میں اثرات بتائے جاتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت جادو کے زیر اثر ہے۔ حالانکہ جادو کرنے والا کافروں میں شمار ہوتا ہے، قرآن پاک میں جادو کا بھی ذکر ہے اور دو فرشتوں ہاروت و ماروت کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ بابل میں ان دونوں فرشتوں پر جادو نازل کیا گیا تھا۔ وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے جب تک وہ یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو ایک ذریعہ آزمائش ہیں پس تم کافر نہ ہو اور جن لوگوں نے اس مضر علم کو لے لیا ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔ (سورۃ البقرہ)
اس نفسا نفسی و خود غرضی کے دور میں لوگوں کے ایمان اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کلام اللہ کا سہارا لینے کی بجائے جادو کا سہارا لیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو کالا جادو کرتا ہو لیکن ہندو اور دوسرے غیر مسلم اس علم میں طاق ہیں، کچھ مسلمان بھی ایسے ہیں جو کفر کی باتیں ببانگ دہل کرتے ہیں شاید وہ اسلام کی روح سے واقف ہی نہیں۔
جنات اتارنے والے بعض بزرگان دین اس قسم کی خدمات بغیر کسی فیس یا نذرانے کے کرتے ہیں، لوگوں کا کہنا ہے کہ جنات چلے جاتے ہیں پھر آ جاتے ہیں دوران علاج یہ علماء اس بات کا درس بھی دیتے ہیں کہ وہ گناہ کے کام کرنے سے باز رہیں اور نماز کی پابندی کریں، معوذتین کا ورد جاری رکھیں، معوذتین سورہ الفلق اور سورہ الناس کو کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی جادو کی کوشش کی گئی۔ اس موقعے پر دونوں سورتیں نازل ہوئیں ان میں 11 آیتیں ہیں پانچ سورہ فلق میں اور چھ سورہ الناس میں۔ ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ جادو کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ شیطانی اثرات کو زائل کرنے کے لیے بے شمار دینی کتابیں موجود ہیں جن میں جادو اتارنے کے وظیفے ہیں۔ کتابیں تو جادو، اثرات و جنات اتارنے کے حوالے سے بھی ہیں، لیکن ان پر لکھ دیا گیا ہے کہ مسلمان انھیں نہ خریدیں لہٰذا غیر مسلم انھیں خریدتے ہیں اور جادو کا توڑ جادو ہی سے کرتے ہیں۔
گزشتہ حکومت میں ملک میں بدعنوانی ، دہشتگردی، مہنگائی اور ناانصافی عروج پر تھی۔ موجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن حکومت بنتے ہی ساری امیدیں دم توڑ گئیں، آج مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ متوسط اور رزق حلال حاصل کرنے والوں کے لیے جینا دوبھر ہو گیا ہے اور پھر نئے نئے ٹیکس، عوام یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ آخر حکومت نے کس بات کا انتقام لیا ہے۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں بھی کمی نہیں آ رہی ہے۔
پہلے کراچی کے تعلیمی ماحول کو نقصان پہنچایا گیا اور نوجوان مرنے مارنے پر یقین کرنے لگے اور اب ایسی ہی فضا لاہور میں نظر آ رہی ہے یقینا بیرونی مداخلت اپنی جگہ پر ہے، ہماری اپنی کوتاہ عقلی ناعاقبت اندیشی نے پاکستان اور اس کی عوام کو بے حد پریشان کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو جادو، ٹونے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ آج قبرستان تک محفوظ نہیں ہیں اس قسم کی خبریں ہر روز ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں، بے ضمیر اور سنگدل لوگ نہ کہ قبروں سے مردے نکالتے ہیں بلکہ ان کے اعضاء کو کاٹ کاٹ کر لے جاتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے عمل کرتے ہیں۔ لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات ہر روز جنم لیتے ہیں ایک تو بے چارہ مرنے والا زندگی کے دکھوں، آزمائش وتکلیفات میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا کہ چلو قبر میں ہی چین سے سوئے گا لیکن وہاں بھی چین نہیں، نہ جینا مشکل نہ مرنا مشکل، ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ آج کل زندگی میں اتنے اخراجات کے لیے رقم ہو کہ نہ ہو لیکن مرنے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت پیش آتی ہے گورکن فی قبر کھودنے کے بھاری رقم وصول کرتے ہیں جب کہ حکومت کی طرف سے فی قبر کے لیے ڈھائی ہزار اجرت مقرر کی گئی ہے۔ جیسا علاقہ ویسی ہی اجرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے، ہر شعبہ، ہر ادارے کی کارکردگی صفر کے قریب ہے، چونکہ لوگ صرف اپنا ہی بھلا چاہتے ہیں۔ اقتدار میں آنے والے عوام کی کیا خدمت کریں گے پہلے یہ حضرات اپنی تو خدمت کر لیں اور وہ اپنی ہی خدمت کرنے میں پوری مدت گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ کرسی اقتدار چھوڑنا پڑتی ہے جس ملک کی امیدوار ایم پی اے باباؤں کو پیسہ اور اپنی مہنگی ترین اشیا دے کر قسمت کا حال پوچھے اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔