نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر
ایک وقت یہ تھا کہ ہم علم، فلسفہ، روشن خیالی، اخلاقیات، محبت میں یکتا تھے
خدا نے انسان کو قلم کے ذریعے علم دیا اور وہ علم دیا جسے انسان جانتا نہیں تھا (سورۃ علق) علم نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر کا نام ہے بے عملی سے بڑی بلا کو ئی اور نہیں بے عملی سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ ایک سریانی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے ایک مرتبہ ایک اسرائیلی بادشاہ کی آزمائش کی اور ویسی سخت آزمائش جس سے کسی فانی انسان کو سابقہ نہیں پڑا ''خداوند رات کے وقت حضرت سلیمان کو خواب میں دکھائی دیے اور خداوند نے کہا مانگ میں تجھے کیا دوں حضرت سلیمان نے کہا تو اپنے خادم کو سمجھنے والا دل عنایت کر۔
یہ بات خداوند کو پسند آئی کہ سلیمان نے یہ چیز مانگی اور خدا نے اس سے کہا چونکہ تو نے یہ چیز مانگی اور اپنے لیے عمر درازی کی درخواست نہ کی اور نہ اپنے لیے دولت کا سوال کیا اور نہ اپنے دشمنوں کی جان مانگی بلکہ انصاف پسندی کے لیے تو نے اپنے واسطے عقل مندی کی درخواست کی ہے سو دیکھ میں نے تیری درخواست کے مطابق کیا کیا میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھے بخشا ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہوا اور نہ کوئی تیر ے بعد تجھ سا ہو گا اور میں نے تجھ کو کچھ اور بھی دیا جو تو نے نہیں مانگا یعنی دولت اور عزت ایسی کہ بادشاہوں میں تیری عمر بھر کوئی تیر ی مانند نہ ہو گا۔''
خدا ایک ہے وہ ایک حقیقت ہے ایک سچائی ہے خدا تک رسائی حاصل کر نا ہر ایک مذہب کی روح ہے اور اس کے تین مراحل ہیں اخلا قیات، علم اور محبت کی راہ۔ یہ مراحل خدا کے ساتھ روح کے صو فیانہ ملاپ کا راستہ ہیں قرآن نے آدم کی فضیلت کا سبب بھی علم الاسماء کو قرار دیا، انسان کے لیے علم و قلم کو خاص نعمت قرار دینے اور حیات و کائنات کے سربستہ رازوں کے علم و عرفان کی صلاحیت کو انسانی فضیلت کا معیار ٹھہرا دینے سے وہ روحانی بنیاد قائم ہوئی جس پر مشرق میں مسلم فکر و فلسفہ اور علوم عقلی کی عمارت تعمیر کی گئی مذہب کی تاریخ میں قرآن پہلا صحیفہ تھا جس میں شروع سے آخر تک بار بار انسان کو غور و فکر کی تلقین کرتے ہوئے مطالعہ فطر ت کی ترغیب دی گئی ۔
آپ ﷺ نے بدر کے جنگی قیدیوں کے فدیے کی ایک صورت یہ رکھی کہ وہ چند مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں آپ ﷺ نے حکمت کو مومن کی متا ع گم گشتہ قرار دے کر اسے کہیں سے بھی حاصل کرنے کا حکم دیا اور حصول علم کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ان ارشادات میں دینی وغیر دینی علوم کی کوئی تخصیص نہیں تھیں۔ اسلام کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پرعلم حاصل کرنا فرض تھا جس کی تکمیل کے لیے عمر کی کوئی قید اور تحصیل کی کوئی حد نہیں تھی۔ اس لیے اسلام جہاں جہاں سے گزرا اپنے پیچھے فکر و افکار کی ایک سرسبز و شاداب دنیا چھوڑتا گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور حضرت محمد ﷺ کی بعثت سے قبل پورا مغرب علمی اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اندھیروں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ عباسیوں کے دور میں مغرب کا تقریباً تمام علمی سرمایہ عربی میں ترجمہ ہوا اور پھر عربی ہی کی وساطت سے دوبارہ مغرب تک پہنچا اگر فکر یونان اور فکر مغرب کے مابین مسلمانوں کا فکر ایک میڈیم کا کام نہ کرتا تو فکر یونان کا قصہ پارینہ بن چکا ہوتا اور شاید اس کا نام و نشان بھی نہ ملتا، مسلمانوں نے وہ تمام علوم و فنو ن جومغرب میں فکر انسانی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے انھیں ترجموں کی مدد سے دنیا تک پہنچایا اور مغرب میں علمی جمود کے باعث بند ہونے والے چشموں کو جاری کر دیا۔ مسلمانوں نے اند ھیروں کو پاٹ کر روشنی کی وہ صبح طلوع کی جس سے مغرب کا تعلق اور رشتہ فکر یونان کے ساتھ استوار ہو گیا۔
اسی زمانے میں عرب، اسپین اور ایران میں مسلم تہذیب اپنے عروج پر تھی اسی طرح چین میں بھی تہذیب و ثقافت کی شمع روشن تھی، جارج سارٹن کے نزدیک ''ہمیں نہ صرف نئے حقائق دریافت کرنے والوں کا بلکہ ان سب افرادکا احسان ماننا چاہیے جن کی استقامت اور دلیری کے طفیل عہد قدیم کا خزانہ بالاخر ہمیں دستیاب ہوا۔ جس کی بدولت ایسا بن جانے میں جیسے ہم آج بن گئے مدد ملی''۔ ایتھنز کے زوال کے بعد اسکندر یہ فلسفہ و سائنس کا اہم مرکز تھا چھٹی صدی کے وسط سے شاہ ایران نوشیروان کا جندی شاہ پور میں قائم کردہ علمی ادارہ بھی معتبر حیثیت رکھتا تھا اور نصیبین میں بھی نسطوری علما کا ایک گروہ موجود رہا فلسطین میں قیصریہ اور سلوقیہ و حران کے مکاتب فکر بھی مسلم فلسفیانہ روایت کے لیے زمین ہموار کر رہے تھے۔ حرانی مکتب فکر پر نو فلاطونیت غالب تھی ان علمی مراکز میں رومن جنگوں اور کلیسا کے تصرف سے بچے رہنے والا وقیع علمی سرمایہ موجود تھا دوسرے عباسی خلیفہ المنصور (754) نے فلسفہ، سائنس اور ادب کی کتابوں کے تراجم کی سرپرستی کی اخلاقیات کی سنسکرت کتاب کلیلہ و دمنہ سے لے کر اقلیہ کی المجتی اور مبادیات، ہو مر کی ایلیڈ، جالینوس، بقراط، بطلیموس کی کتابیں عربی میں منتقل کی گئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلم مفکرین ابن رشد، ابن سینا، الکند ی، منصور الحلاج، رابعہ بصری، عمر خیام، رومی، الغزالی، سعدی، امیر خسرو، حافظ شیراز، جامی، ابن فرید، الفارابی، ابن الہیثم، ابوبکر ابن باجہ، ابوبکر ابن طفیل، ابن مسکو یہ، الرازی، اور دیگر نے علمی سفر کو معراج پر پہنچایا۔ مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور سیاسی جبر کی صورتحال المتوکل کے تخت نشینی کے بعد پیدا ہوئی اور اس سے مماثل مسلم مغرب میں المنصور کی تخت نشینی سے پیدا ہوئی دونوں حکمرانوں نے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی اور تنگ نظری کے جوشیلے سپاہیوں کا سہارا لے کر مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھو نٹ دیا اور جلد ہی مسلمان دانشور بھی کٹر راسخ الاعتقادی کی زد میں آ گئے۔ اس کے بعد فرقہ واریت ، منگول یلغار، سیاسی انتشار، مسلم دنیا کی علمی سرگرمیوں کے ضعف کے اہم اسباب ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی۔
ایک وقت یہ تھا کہ ہم علم، فلسفہ، روشن خیالی، اخلاقیات، محبت میں یکتا تھے اور دنیا بھر میں ہماری با دشاہت تھی ہمارا سفر روشنی اور اجالوں کی جانب تھا پھر ہمیں اپنی نظر ہی لگ گئی، اب ہمارا سفر روشنی اور اجالوں سے اندھیروں کی سمت ہے وقت کا سفر کبھی نہیں رکتا جو وقت کے ساتھ سفر نہیں کرتا وہ اندھیروں کی اندھی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ مغرب کی ساری ترقی اور خوشحالی علم اور روشن خیالی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے اور ہماری ذلت اور بدنامی علم اور روشن خیالی سے دوری کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ ہم آخر اتنی بلندی سے اتنی پستی میں کیوں گر گئے اس پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے قرآن بھی بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، غور و فکر کے بعد نتیجے پر آپ خو د بخود پہنچ جائیں گے۔
یہ بات خداوند کو پسند آئی کہ سلیمان نے یہ چیز مانگی اور خدا نے اس سے کہا چونکہ تو نے یہ چیز مانگی اور اپنے لیے عمر درازی کی درخواست نہ کی اور نہ اپنے لیے دولت کا سوال کیا اور نہ اپنے دشمنوں کی جان مانگی بلکہ انصاف پسندی کے لیے تو نے اپنے واسطے عقل مندی کی درخواست کی ہے سو دیکھ میں نے تیری درخواست کے مطابق کیا کیا میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھے بخشا ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہوا اور نہ کوئی تیر ے بعد تجھ سا ہو گا اور میں نے تجھ کو کچھ اور بھی دیا جو تو نے نہیں مانگا یعنی دولت اور عزت ایسی کہ بادشاہوں میں تیری عمر بھر کوئی تیر ی مانند نہ ہو گا۔''
خدا ایک ہے وہ ایک حقیقت ہے ایک سچائی ہے خدا تک رسائی حاصل کر نا ہر ایک مذہب کی روح ہے اور اس کے تین مراحل ہیں اخلا قیات، علم اور محبت کی راہ۔ یہ مراحل خدا کے ساتھ روح کے صو فیانہ ملاپ کا راستہ ہیں قرآن نے آدم کی فضیلت کا سبب بھی علم الاسماء کو قرار دیا، انسان کے لیے علم و قلم کو خاص نعمت قرار دینے اور حیات و کائنات کے سربستہ رازوں کے علم و عرفان کی صلاحیت کو انسانی فضیلت کا معیار ٹھہرا دینے سے وہ روحانی بنیاد قائم ہوئی جس پر مشرق میں مسلم فکر و فلسفہ اور علوم عقلی کی عمارت تعمیر کی گئی مذہب کی تاریخ میں قرآن پہلا صحیفہ تھا جس میں شروع سے آخر تک بار بار انسان کو غور و فکر کی تلقین کرتے ہوئے مطالعہ فطر ت کی ترغیب دی گئی ۔
آپ ﷺ نے بدر کے جنگی قیدیوں کے فدیے کی ایک صورت یہ رکھی کہ وہ چند مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں آپ ﷺ نے حکمت کو مومن کی متا ع گم گشتہ قرار دے کر اسے کہیں سے بھی حاصل کرنے کا حکم دیا اور حصول علم کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ان ارشادات میں دینی وغیر دینی علوم کی کوئی تخصیص نہیں تھیں۔ اسلام کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پرعلم حاصل کرنا فرض تھا جس کی تکمیل کے لیے عمر کی کوئی قید اور تحصیل کی کوئی حد نہیں تھی۔ اس لیے اسلام جہاں جہاں سے گزرا اپنے پیچھے فکر و افکار کی ایک سرسبز و شاداب دنیا چھوڑتا گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور حضرت محمد ﷺ کی بعثت سے قبل پورا مغرب علمی اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اندھیروں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ عباسیوں کے دور میں مغرب کا تقریباً تمام علمی سرمایہ عربی میں ترجمہ ہوا اور پھر عربی ہی کی وساطت سے دوبارہ مغرب تک پہنچا اگر فکر یونان اور فکر مغرب کے مابین مسلمانوں کا فکر ایک میڈیم کا کام نہ کرتا تو فکر یونان کا قصہ پارینہ بن چکا ہوتا اور شاید اس کا نام و نشان بھی نہ ملتا، مسلمانوں نے وہ تمام علوم و فنو ن جومغرب میں فکر انسانی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے انھیں ترجموں کی مدد سے دنیا تک پہنچایا اور مغرب میں علمی جمود کے باعث بند ہونے والے چشموں کو جاری کر دیا۔ مسلمانوں نے اند ھیروں کو پاٹ کر روشنی کی وہ صبح طلوع کی جس سے مغرب کا تعلق اور رشتہ فکر یونان کے ساتھ استوار ہو گیا۔
اسی زمانے میں عرب، اسپین اور ایران میں مسلم تہذیب اپنے عروج پر تھی اسی طرح چین میں بھی تہذیب و ثقافت کی شمع روشن تھی، جارج سارٹن کے نزدیک ''ہمیں نہ صرف نئے حقائق دریافت کرنے والوں کا بلکہ ان سب افرادکا احسان ماننا چاہیے جن کی استقامت اور دلیری کے طفیل عہد قدیم کا خزانہ بالاخر ہمیں دستیاب ہوا۔ جس کی بدولت ایسا بن جانے میں جیسے ہم آج بن گئے مدد ملی''۔ ایتھنز کے زوال کے بعد اسکندر یہ فلسفہ و سائنس کا اہم مرکز تھا چھٹی صدی کے وسط سے شاہ ایران نوشیروان کا جندی شاہ پور میں قائم کردہ علمی ادارہ بھی معتبر حیثیت رکھتا تھا اور نصیبین میں بھی نسطوری علما کا ایک گروہ موجود رہا فلسطین میں قیصریہ اور سلوقیہ و حران کے مکاتب فکر بھی مسلم فلسفیانہ روایت کے لیے زمین ہموار کر رہے تھے۔ حرانی مکتب فکر پر نو فلاطونیت غالب تھی ان علمی مراکز میں رومن جنگوں اور کلیسا کے تصرف سے بچے رہنے والا وقیع علمی سرمایہ موجود تھا دوسرے عباسی خلیفہ المنصور (754) نے فلسفہ، سائنس اور ادب کی کتابوں کے تراجم کی سرپرستی کی اخلاقیات کی سنسکرت کتاب کلیلہ و دمنہ سے لے کر اقلیہ کی المجتی اور مبادیات، ہو مر کی ایلیڈ، جالینوس، بقراط، بطلیموس کی کتابیں عربی میں منتقل کی گئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلم مفکرین ابن رشد، ابن سینا، الکند ی، منصور الحلاج، رابعہ بصری، عمر خیام، رومی، الغزالی، سعدی، امیر خسرو، حافظ شیراز، جامی، ابن فرید، الفارابی، ابن الہیثم، ابوبکر ابن باجہ، ابوبکر ابن طفیل، ابن مسکو یہ، الرازی، اور دیگر نے علمی سفر کو معراج پر پہنچایا۔ مسلم دنیا میں فکری گھٹن اور سیاسی جبر کی صورتحال المتوکل کے تخت نشینی کے بعد پیدا ہوئی اور اس سے مماثل مسلم مغرب میں المنصور کی تخت نشینی سے پیدا ہوئی دونوں حکمرانوں نے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کٹر مذہب پرستی اور تنگ نظری کے جوشیلے سپاہیوں کا سہارا لے کر مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھو نٹ دیا اور جلد ہی مسلمان دانشور بھی کٹر راسخ الاعتقادی کی زد میں آ گئے۔ اس کے بعد فرقہ واریت ، منگول یلغار، سیاسی انتشار، مسلم دنیا کی علمی سرگرمیوں کے ضعف کے اہم اسباب ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی۔
ایک وقت یہ تھا کہ ہم علم، فلسفہ، روشن خیالی، اخلاقیات، محبت میں یکتا تھے اور دنیا بھر میں ہماری با دشاہت تھی ہمارا سفر روشنی اور اجالوں کی جانب تھا پھر ہمیں اپنی نظر ہی لگ گئی، اب ہمارا سفر روشنی اور اجالوں سے اندھیروں کی سمت ہے وقت کا سفر کبھی نہیں رکتا جو وقت کے ساتھ سفر نہیں کرتا وہ اندھیروں کی اندھی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ مغرب کی ساری ترقی اور خوشحالی علم اور روشن خیالی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے اور ہماری ذلت اور بدنامی علم اور روشن خیالی سے دوری کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ ہم آخر اتنی بلندی سے اتنی پستی میں کیوں گر گئے اس پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے قرآن بھی بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، غور و فکر کے بعد نتیجے پر آپ خو د بخود پہنچ جائیں گے۔