50 ہزار کی خریداری پر این آئی سی کی شرط میں ریلیف عارضی ہے شبر زیدی
انکم ٹیکس فائلر کی تعداد 25 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، ٹیکس گوشوار مزید آسان بنارہے ہیں، چیئرمین ایف بی آر
چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا ہے کہ 50 ہزار روپے کی فروخت پر سی این آئی سی کی شرط تاحال برقرار ہے تاہم اس پر عمل درآمد ستمبر تک موخر کردیا ہے۔
بدھ کو کراچی میں سیمینار سے خطاب کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس فائلر کی تعداد 25 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، کوشش ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہو، ایف بی آر ٹیکس دہندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کی غرض سے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کے مرحلے کو مزید آسان کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس گوشوارے کی مانٹیرنگ کے لیے سافٹ وئیر متعارف کردیا ہے، سیلز ٹیکس سافٹ وئیر ٹیکس دہندگان پر عائد سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا تعین کرے گا، سیلز ٹیکس گوشوارہ فارم آسان بنا کر ایک صفحے پر محیط کردیا ہے، کوشش ہے کہ سینٹرلائز سسٹم آجائے کہ کتنا پیسہ منتقل ہورہا ہے اس ضمن میں سروے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دکان داروں کو دوعلیحدہ اسکیموں کے بارے میں آگاہ کردیا ہے اور ان پر واضح کردیا ہے کہ بھاری مالیت کی فروخت پر قومی شناختی کارڈ کی شرط برقرار رہے گی، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ڈاکٹرز انجینئرز اور تعلیمی اداروں کو بھی نوٹسزجاری کیے گئے ہیں اب جو بھی شعبہ قابل ٹیکس آمدنی کا حامل ہےاسے ٹیکس دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بے نامی اثاثوں کی تلاش آسان نہیں ہے وہی بے نامی اثاثے سامنے آئے جن کے معاملات عدالت میں ہیں اور ایف بی آر بے نامی اثاثوں پر کارروائیوں کی رفتار مزید تیز کرے گا جبکہ وزیراعظم نے بے نامی اثاثوں کی تلاش کے لیے سخت احکامات جاری کیے ہیں۔
قبل ازیں مینجمنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے والے کو فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ہے، مختلف بیرونی ممالک میں 120 ارب ڈالر کی خطیر رقم غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی ہے، ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو پیسوں کی منقلی میں سہولت ہونی چاہیے، بدقسمتی سے ماضی میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا کوئی شخص رقم کا بڑا حصہ اندرون اور بیرون ملک قانونی طریقے سے بھیج سکے جو بھی سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے صارف اسکی پکی رسید حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں ریسٹورنٹس کو ٹیکس ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، سیلز ٹیکس بنیادی طور پر سرکاری رقم ہوتی ہے، ٹیکس ریفارم اور ان کی ادائیگی میں مشکلات کو دور کیا جائے گا، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کرکے بیرون ملک جاتے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، 40 برس سے معیشت دستاویزی نہیں ہے، معیشیت کو دستاویزی بنا رہے ہیں۔
شبر زیدی نے کہا کہ ماضی میں درست سمت میں کام نہیں ہورہا تھا، اب منظم اور بہتر درست سمت میں کام شروع ہوگیا ہے، بھارت میں کوآپریٹ ٹیکس ادائیگی کی شرح پاکستان سے 10 سے 20 گنا ہے، ماضی میں ٹیکسیشن کے عمل کو نظر انداز کیا گیا تھا، آج لوگوں میں اتنا شعور آگیا ہے کہ موضوع بحث ٹیکس سسٹم ہے۔
بدھ کو کراچی میں سیمینار سے خطاب کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس فائلر کی تعداد 25 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، کوشش ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہو، ایف بی آر ٹیکس دہندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کی غرض سے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کے مرحلے کو مزید آسان کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس گوشوارے کی مانٹیرنگ کے لیے سافٹ وئیر متعارف کردیا ہے، سیلز ٹیکس سافٹ وئیر ٹیکس دہندگان پر عائد سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا تعین کرے گا، سیلز ٹیکس گوشوارہ فارم آسان بنا کر ایک صفحے پر محیط کردیا ہے، کوشش ہے کہ سینٹرلائز سسٹم آجائے کہ کتنا پیسہ منتقل ہورہا ہے اس ضمن میں سروے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دکان داروں کو دوعلیحدہ اسکیموں کے بارے میں آگاہ کردیا ہے اور ان پر واضح کردیا ہے کہ بھاری مالیت کی فروخت پر قومی شناختی کارڈ کی شرط برقرار رہے گی، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ڈاکٹرز انجینئرز اور تعلیمی اداروں کو بھی نوٹسزجاری کیے گئے ہیں اب جو بھی شعبہ قابل ٹیکس آمدنی کا حامل ہےاسے ٹیکس دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بے نامی اثاثوں کی تلاش آسان نہیں ہے وہی بے نامی اثاثے سامنے آئے جن کے معاملات عدالت میں ہیں اور ایف بی آر بے نامی اثاثوں پر کارروائیوں کی رفتار مزید تیز کرے گا جبکہ وزیراعظم نے بے نامی اثاثوں کی تلاش کے لیے سخت احکامات جاری کیے ہیں۔
قبل ازیں مینجمنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے والے کو فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ہے، مختلف بیرونی ممالک میں 120 ارب ڈالر کی خطیر رقم غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی ہے، ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو پیسوں کی منقلی میں سہولت ہونی چاہیے، بدقسمتی سے ماضی میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا کوئی شخص رقم کا بڑا حصہ اندرون اور بیرون ملک قانونی طریقے سے بھیج سکے جو بھی سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے صارف اسکی پکی رسید حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں ریسٹورنٹس کو ٹیکس ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، سیلز ٹیکس بنیادی طور پر سرکاری رقم ہوتی ہے، ٹیکس ریفارم اور ان کی ادائیگی میں مشکلات کو دور کیا جائے گا، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کرکے بیرون ملک جاتے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، 40 برس سے معیشت دستاویزی نہیں ہے، معیشیت کو دستاویزی بنا رہے ہیں۔
شبر زیدی نے کہا کہ ماضی میں درست سمت میں کام نہیں ہورہا تھا، اب منظم اور بہتر درست سمت میں کام شروع ہوگیا ہے، بھارت میں کوآپریٹ ٹیکس ادائیگی کی شرح پاکستان سے 10 سے 20 گنا ہے، ماضی میں ٹیکسیشن کے عمل کو نظر انداز کیا گیا تھا، آج لوگوں میں اتنا شعور آگیا ہے کہ موضوع بحث ٹیکس سسٹم ہے۔