پوشیدہ مرض جو نومولود بچوں کو موت کی نیند سلا د یتا ہے

ہلالی سرخ خلیات والے حضرات اب تک کی تحقیق کے مطابق 40 سال سے پہلے ہی انتقال کرجاتے ہیں


ہلالی سرخ خلیات والے حضرات اب تک کی تحقیق کے مطابق 40 سال سے پہلے ہی انتقال کرجاتے ہیں

خون کی کمی منافعت و اہمیت سے تو کم و بیش ہرکوئی واقف ہوتاہے مگر خون میں فساد، اجزاء، گردش اور دیگر خرابیوں سے واقفیت کم ہی کو حاصل ہے۔ الغرض ایسے اشخاص بھی ہیں جو جوانی اور کبھی جوانی کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی پیغام اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں۔ نہ انہیں کوئی جراثیم لاحق ہوتا ہے نہ ہی کوئی حادثہ ، نہ ان کا ذاتی قصور ہوتا ہے ۔

سرزمین پاک کے تقریباً ہر علاقے میں100 بچوں میں کم سے کم ایک بچہ ایسا ضرور پیدا ہوتا ہے جوSickle cell disease نامی بیماری میں مبتلا ہوتاہے۔ اسے سمجھنے سے پہلے خون کے اجزاء پر نگاہ ڈالنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ خون ایک آمیزہ ہے جو خصوصی طور پر سرخ خلیات ( جو آکسیجن کو تمام جسم کو پہنچاتے ہیں) سفیدخلیات (بیماری سے بچاتے ہیں) انجمادی خلیات (جو خون کو جماتی ہیں یعنی چوٹ لگ جائے تو خون کو ایک خاص مقدار سے زیادہ بہنے نہیں دیتے) سے تیار شدہ ہے ۔

یہ سارے خلیات ایک مائع کے ذریعے جسم میں گردش کرتے ہیں۔ اس مائع میں خاص لحمیات پائے جاتے ہیں جو خلیات کو توانائی پہنچاتے ہیں نیز لحمیات مائع میں درج ذیل اجزاء زیادہ پائے جاتے ہیں:

البومن، گلو بیولن، فبرینو جن، امائنوایسڈ، نائی ٹروجن فضلات، ہوا، برق پاشیدے۔

اب میں خاص موضوع یعنی Sickle cell disease کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ جینی خرابی کی وجہ سے سرخ خلیات کی شکل میں تبدیلی کا نتیجہ ہے جس میں ان خلیات کی آکسیجن پہنچانے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے یعنی اس مرض کے شکار فرد میں صحت مند خلیات والے اشخاص کی نسبت آدھی صلاحیت ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کے اعضاء کم پرورش پاتے ہیں۔

سبب: صحت مند سرخ خلیات درمیان سے چپٹے ا طراف سے موٹے ہوتے ہیں اور پکڑنے سے چکنے ، شکلاً بیضوی ہوتے ہیں ، اس وجہ سے خون کی نالیوں میں نہیں جمتے جبکہ ہلالی شکل والے سرخ خلیات پکڑنے میں کھردرے اور ہلال کی شکل کے ہوتے ہیں۔ سرخ خلیات لمبی ہڈی کے گودوں میں پیدا ہو کر خون میں گردش کرتے ہیں۔

تباہ کاری اور وجہ : ہلالی سرخ خلیات والے حضرات اب تک کی تحقیق کے مطابق 40 سال سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کے والدین میں اس موروثیت کی '' جِین '' میں جُزوی خرابی ہوتی ہے، اُن میں اسکی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، مگر زیادہ بلندی پر جانے سے ساتس میں تنگی ہوتی ہے۔ جسم میں پانی اور آکسیجن کی کمی ہوتی ہے تو ان کے سرخ خلیات آپس میں کیمیاوی ملاپ بنا لیتے ہیں۔ اس وقت ان خلیات کی شکل ہلال کی مانند ہو جاتی ہے، تب یہ خون کی نالیوں میں جمنے لگتے ہیں اور خون کو گاڑھا کر دیتے ہیں۔نتیجتاً خون متعلقہ اعضاء تک آکسیجن پہچانے سے قاصر رہتا ہے ۔ صحت مند سُرخ خلیات 120 دن میں ٹوٹتے ہیں اور ہلالی خلیات 10 سے 20 دن میں ٹوٹ جاتے ہیں اس لئے ان میں خون کی کمی رہتی ہے۔

احتیاطی تدبیر:

احتیاط کو علاج سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے ان تدابیر کا تذکرہ موزوں ہے۔اس مرض میں بچے کا اپنا کوئی قصور نہیں ہوتا، بلکہ یہ موروثی مسئلہ ہے۔ ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے سے پہلے بلڈسکریننگ ٹیسٹ کرائیں، پھر معالج سے مشورہ کریں۔

لیب ٹیسٹ:

اگر بلڈسکلنگ ٹیسٹ مثبت آجائے تو خون پتلا کرنے کی ادویہ دیں، غذا میں سبزی کا اضافہ کر دیں کیونکہ ان میں فولک ایسڈ ہوتی ہے۔

خطرے سے بچنے کیلئے تدابیر:

1۔ پانی کا زیادہ استعمال کریں تا کہ خون کا قوام رقیق رہے۔

2۔زیادہ بلندی مثلا پہاڑ پر جانے سے گریز کریں تا کہ آکسیجن ٹینشن نہ ہو۔

3۔ Hydroxyurea 500mg دن میں 2 بار استعمال کریں ۔

علامات:

ایسے بچوں کے پیدائش کے وقت ہاتھ پائوں کافی متورم ہوتے ہیں۔ عموماََ جلدی مر جاتے ہیں، جو کچھ بڑے ہو جائیں ان میں یہ علامات ہوتی ہیں:

1۔ دل کا دورہ: دل کی باریک شریان میں اگر خون جم جائے تو دل کا دورہ ہو جاتا ہے ۔ ایسی حالت میںWarfarine دیں۔

2۔ تنگی تنفس: اگر پھیپھڑوں سے دل تک خون پہنچانے والی نا لیوں میں خون جم جائے تو تنفس میں تنگی ہوتی ہے، ایسی صورت میں ادرک کھلائیں ۔

3۔ جگر کا بڑھ جانا: اس مرض کے شکار حضرات کا جگر بڑھ جاتا ہے اور یرقان ہو جاتا ہے، اس صورت میں 'افسنتین رومی' کو پانی میں جوش دے پانی استعمال کریں۔

4۔ تلی بڑھنا: تلی میں خون کے سرخ ذرات ٹوٹتے ہیں۔ اس مرض میں ان کے ٹوٹنے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، لہذا اس میں خون بھر جاتا ہے ، اس صورت میں اسطوخودوس کے پھول چبائیں۔

5۔ ہڈیوں میں درد: اس مرض میں ہڈی کا گودہ کمزور ہو جاتاہے ، ہڈی کے درد کی صورت میں غذا میں بیل کے پائے استعمال کریں۔ وقتی طور کے لئے Diclofenac Potassium لیں۔

6۔ بینائی میں فرق: آنکھوں میں اترنے والی شریان میں خون جم جائے تو بینائی سے محرومی ہو جاتی ہے، کیفیت سے بچنے کے لئے گاجر کا استعمال کریں۔

7۔ ہاتھ پائوں میں ورم اور بخار: ہلالی سرخ خلیات آپس میں چپک کر خون کی فراہمی روک دیتے ہیں ۔ ایسے میںجدوار کا سفوف دینا چاہیے۔

8۔ سینے میں درد: ایسے وقت میں لہسن ملی مرغی کی یخنی استعمال کرنا چاہیے۔

علاج :

ایلوپیتھی:

1۔ جسم میں پانی کی مقدار برقرار رکھیں، ضرورت ہو تو Intravenous fluidلگوائیں۔

2۔ درد کی صورت میں اگر معتدل درد ہے تو Ibupraufen ، Acetaminophen استعمال کریں، شدید درد کی صورت میں سُن کرنی والی استعمال کریں۔

3۔ پینسلین 500mg اور ویکسین دی جاتی ہے تا کہ نمونیہ اور انفلوانیزا سے بچا جا سکے۔

4۔ تبادلہء خون: موزوں آز۔ایچ فیکٹر اوربلڈ گروپ کا معائنہ کر کے خون کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے خون میں فولاد بڑھ جاتا ہے ، یوں دیگرعوارض جنم لیتے ہیں۔

جینی علاج:

سٹیم سیل تھراپی : اس عمل میں مریض کی ہڈی سے گودا نکالا جاتا ہے اور غلط جین کو نکال کر درست جین ڈالی جاتی ہے ، افزائش کے بعد انہیں ہڈی میںداخل کر دیتے ہیں۔

وٹامن سے علاج:

Vitamin B1, B2, B6, Follic Acid نئے سرخ خلیات پیدا کرنے میں معاون ہیں۔

طب یونانی:

پپیتہ کے پتوں کا سفوف تحقیق کے مطابق ہلالی سرخ خلیات کی کھردری سطح کو چکنا کرتا ہے اور مستحکم بناتا ہے۔ اس کے علاوہ افسنتین، کلونجی، سعد کوفی... ان کا سفوف ہم وزن نئی تحقیق کے مطابق خلیات کی ہلالی شکل کو اصلی بیضوی شکل میں بدل دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں