کشمیر کی اَن کہی کہانی
حکومت پاکستان اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری سفارتی اقدامات کرے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے
ایک لمحے کو تصور کریں، ایک خاتون جس کے حمل کا وقت پورا ہوچکا ہو، اس کا خاوند شہر سے باہر اور رات کو اچانک اسے دردزہ کی تکلیف ہو، موبائل فون بند ہوں، سڑکوں پر ٹریفک نہ ہو، اسپتال جانے کا کوئی بھی ذریعہ نہ ہو، اسے گھر پر اکیلے ہی بچے کو جنم دینا ہو اور اس زچگی میں پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کا کیا حال ہوگا؟ سری نگر سے دہلی پہنچنے والی ایک خاتون صحافی نے واٹس ایپ پیغام بھیجا، پیغام کے اگلے حصے میں اس نے لکھا کہ میری جاننے والی دو خواتین کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ جن میں سے ایک خاتون کی زچگی کے دوران موت واقع ہوگئی۔ پیغام پڑھ کر میں ہل کر رہ گیا۔ تین ہفتوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوشش کے باوجود کشمیر میں رابطہ نہیں ہوسکا۔ رابطے کا واحد ذریعہ بین الاقوامی میڈیا اور وہاں سے آنے والے افراد ہیں۔
ریاست جموں وکشمیر اس وقت جیل کا نمونہ پیش کررہی ہے، جہاں ہر گھر کے گرد اوسطاً تین اہلکار تعینات ہیں۔ یہ افراد خودکار اسلحے سے لیس ہیں۔ جنہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ گھروں میں محصور افراد کےلیے کھانے کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ بچوں کےلیے دودھ کا اسٹاک بھی ختم ہوچکا ہے، جبکہ جان بچانے والی ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اسپتالوں کو جانے کےلیے نہ کوئی گاڑی دستیاب ہے اور رکاوٹوں کے باعث مریض کو اسپتال لے جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ داستان تو صرف سری نگر کی ہے، اس کے علاوہ وادی کے دیگر اضلاع میں بھی ایک قیامت صغریٰ برپا ہے۔ پونچھ، جموں، راجوری، گلگام اور دیگر علاقوں میں جہاں مواصلاتی نظام بند ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کی رسائی نہیں ہے، وہیں مقامی صحافیوں کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں۔ پلوامہ سے دہلی پہنچنے والے ایک دوست نے بتایا کہ پورے ضلع میں ملک کے دیگر حصوں سے رابطے کےلیے سرکاری سطح پر ایک ٹیلی فون بوتھ قائم ہے، جس پر سارا دن سیکڑوں افراد اپنے پیاروں سے بات کرنے کےلیے باری کے انتظار میں رہتے ہیں، جبکہ ہزاروں میں سے صرف سو کے قریب ہی افراد کی بات ممکن ہوتی ہے۔
ایک لمحے کو تصور کریں کہ آج آپ کے پاس موبائل فون نہ ہو اور آپ گھر سے باہر ہوں، شدید ایمرجنسی کی صورت میں آپ کی اسپتال تک رسائی نہ ہو، گھر میں بند ہوں اور کھانے کو کچھ نہ ہو۔ بحیثیت باپ سوچیں اگر آپ کے چند ماہ کے بیٹے کےلیے دودھ نہ ہو۔ بحیثیت فرزند آنکھیں بند کرکے غور کریں کہ آپ کے والدین بیمار ہیں اور ان کی دوا نہ مل رہی ہو۔ یہی حالت آج کے تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اور گلوبل ویلیج معاشرے میں کشمیر کی ہے۔ لیکن ان کی آواز کہیں سنی نہیں جارہی۔ گزشتہ دنوں سری نگر کے نواح سے امرتسر آنے والی ایک خاتون صحافی سے بات ہورہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ شکر ہے وادی میں مواصلاتی نظام بند ہے ورنہ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں دیکھ کر کشمیری عوام کے دل ہی ٹوٹ جاتے۔
اس وقت جموں و کشمیر کے لوگوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ وادی کے مسلمان، لداخ کے بودھ اور جموں کے پنڈت کیوں نہ ہوں، سبھی بھارتی اقدام پر آگ بگولہ ہیں۔ ان کی نظریں عالمی برادری کے بجائے صرف پاکستان پر ہیں۔ کیونکہ بھارتی اقدام کے بعد جموں و کشمیر کی ساری آبادی نے پاکستان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ مودی کے اقدام کے بعد بھارت نواز سیاسی قیادت بھی پاکستان کی حامی نظر آتی ہے، لیکن تادم تحریر پاکستان کے اقدام 'مصروف نظر آؤ لیکن کام کچھ نہ کرو' جیسے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دعاؤں سے لے کر وزیراعظم پاکستان کے ٹوئٹس تک، سبھی اقدامات صرف سر سے بوجھ اتارنے کے مترادف ہیں۔
بحیثیت کشمیری مجھے پاکستانی عوام کے اخلاص، کشمیریوں سے جذباتی وابستگی اور ان کی کوششوں کا ادراک ہے، لیکن میں حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہوں۔ عالمی سطح پر پاکستانی عوام اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں، جبکہ سفارتی سطح پر تاحال ہم کامیابی نہیں حاصل کرسکے۔ حکومت پاکستان کو سفارتی سطح پر ایک منظم مہم چلانا چاہیے، جس کے تحت ہر چھوٹے اور بڑے ملک میں موجود صاحب الرائے افراد سے مراسم بڑھائے جائیں۔ مختلف عالمی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے۔ جس طرح برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں نے پابندیوں، کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود بیرونی معاونت کے بغیر اپنی جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی دی، ایسے ہی پاکستان بھی کشمیریوں کا مقدمہ لڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے کشمیر کی جدوجہد کےلیے ہفتے میں آدھا گھنٹہ مختص کیا، لیکن میرے کشمیر کے سفیر صرف آدھا گھنٹہ؟ ان بے جان جسموں کےلیے جنہوں نے اپنے لہو کا خراج دے کر پاکستان سے محبت کا حق ادا کیا، ان ماؤں کے لاڈلوں کےلیے صرف تیس منٹ کا قیام، جو کہ آج بھی سبز ہلالی پرچم میں دفن ہونا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔
میرے وطن کے رہبر و رہنما! صرف آدھا گھنٹہ دینے سے فرض ادا نہیں ہوتا، فرائض کی ادائیگی کےلیے مستقل قیام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کشمیری بہتر سال سے سبز ہلالی پرچم تھامے حالت قیام میں ہیں، ایک ہاتھ اگر کٹ جاتا ہے تو اس پرچم کو تھامنے کےلیے سیکڑوں ہاتھ آگے بڑھتے ہیں۔
کشمیر اس وقت اس آتش فشاں کے لاوے کی مانند ابل رہا ہے، جس کی تپش سے پہاڑ بھی جل کر راکھ بن جاتے ہیں۔ یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کا ادراک سنجیدہ طبقات کو ہے، یہ طبقات جہاں نریندر مودی کو خبردار کر رہے ہیں، وہیں پاکستان کو ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ سنجیدہ طبقات کے مطابق وادی میں پیدا غیریقینی صورتحال کے باعث تحریک مزاحمت تیز ہوسکتی ہے۔ جس کو دبانے کےلیے مودی سرکار طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے کی مکمل تیاری کرچکی ہے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر قتل عام کی تیاریاں بھی کی جاچکی ہیں۔ صحافیوں پر پابندیوں کے باعث اس انسانی المیے کی خبر تک نہیں ہوگی۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوا تو تاریخ برصغیر کے بدترین دور کا آغاز ہوگا۔ اس لیے حکومت پاکستان اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری سفارتی اقدامات کرے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ریاست جموں وکشمیر اس وقت جیل کا نمونہ پیش کررہی ہے، جہاں ہر گھر کے گرد اوسطاً تین اہلکار تعینات ہیں۔ یہ افراد خودکار اسلحے سے لیس ہیں۔ جنہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ گھروں میں محصور افراد کےلیے کھانے کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ بچوں کےلیے دودھ کا اسٹاک بھی ختم ہوچکا ہے، جبکہ جان بچانے والی ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اسپتالوں کو جانے کےلیے نہ کوئی گاڑی دستیاب ہے اور رکاوٹوں کے باعث مریض کو اسپتال لے جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ داستان تو صرف سری نگر کی ہے، اس کے علاوہ وادی کے دیگر اضلاع میں بھی ایک قیامت صغریٰ برپا ہے۔ پونچھ، جموں، راجوری، گلگام اور دیگر علاقوں میں جہاں مواصلاتی نظام بند ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کی رسائی نہیں ہے، وہیں مقامی صحافیوں کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں۔ پلوامہ سے دہلی پہنچنے والے ایک دوست نے بتایا کہ پورے ضلع میں ملک کے دیگر حصوں سے رابطے کےلیے سرکاری سطح پر ایک ٹیلی فون بوتھ قائم ہے، جس پر سارا دن سیکڑوں افراد اپنے پیاروں سے بات کرنے کےلیے باری کے انتظار میں رہتے ہیں، جبکہ ہزاروں میں سے صرف سو کے قریب ہی افراد کی بات ممکن ہوتی ہے۔
ایک لمحے کو تصور کریں کہ آج آپ کے پاس موبائل فون نہ ہو اور آپ گھر سے باہر ہوں، شدید ایمرجنسی کی صورت میں آپ کی اسپتال تک رسائی نہ ہو، گھر میں بند ہوں اور کھانے کو کچھ نہ ہو۔ بحیثیت باپ سوچیں اگر آپ کے چند ماہ کے بیٹے کےلیے دودھ نہ ہو۔ بحیثیت فرزند آنکھیں بند کرکے غور کریں کہ آپ کے والدین بیمار ہیں اور ان کی دوا نہ مل رہی ہو۔ یہی حالت آج کے تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اور گلوبل ویلیج معاشرے میں کشمیر کی ہے۔ لیکن ان کی آواز کہیں سنی نہیں جارہی۔ گزشتہ دنوں سری نگر کے نواح سے امرتسر آنے والی ایک خاتون صحافی سے بات ہورہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ شکر ہے وادی میں مواصلاتی نظام بند ہے ورنہ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں دیکھ کر کشمیری عوام کے دل ہی ٹوٹ جاتے۔
اس وقت جموں و کشمیر کے لوگوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ وادی کے مسلمان، لداخ کے بودھ اور جموں کے پنڈت کیوں نہ ہوں، سبھی بھارتی اقدام پر آگ بگولہ ہیں۔ ان کی نظریں عالمی برادری کے بجائے صرف پاکستان پر ہیں۔ کیونکہ بھارتی اقدام کے بعد جموں و کشمیر کی ساری آبادی نے پاکستان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ مودی کے اقدام کے بعد بھارت نواز سیاسی قیادت بھی پاکستان کی حامی نظر آتی ہے، لیکن تادم تحریر پاکستان کے اقدام 'مصروف نظر آؤ لیکن کام کچھ نہ کرو' جیسے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دعاؤں سے لے کر وزیراعظم پاکستان کے ٹوئٹس تک، سبھی اقدامات صرف سر سے بوجھ اتارنے کے مترادف ہیں۔
بحیثیت کشمیری مجھے پاکستانی عوام کے اخلاص، کشمیریوں سے جذباتی وابستگی اور ان کی کوششوں کا ادراک ہے، لیکن میں حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہوں۔ عالمی سطح پر پاکستانی عوام اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں، جبکہ سفارتی سطح پر تاحال ہم کامیابی نہیں حاصل کرسکے۔ حکومت پاکستان کو سفارتی سطح پر ایک منظم مہم چلانا چاہیے، جس کے تحت ہر چھوٹے اور بڑے ملک میں موجود صاحب الرائے افراد سے مراسم بڑھائے جائیں۔ مختلف عالمی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے۔ جس طرح برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں نے پابندیوں، کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود بیرونی معاونت کے بغیر اپنی جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی دی، ایسے ہی پاکستان بھی کشمیریوں کا مقدمہ لڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے کشمیر کی جدوجہد کےلیے ہفتے میں آدھا گھنٹہ مختص کیا، لیکن میرے کشمیر کے سفیر صرف آدھا گھنٹہ؟ ان بے جان جسموں کےلیے جنہوں نے اپنے لہو کا خراج دے کر پاکستان سے محبت کا حق ادا کیا، ان ماؤں کے لاڈلوں کےلیے صرف تیس منٹ کا قیام، جو کہ آج بھی سبز ہلالی پرچم میں دفن ہونا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔
میرے وطن کے رہبر و رہنما! صرف آدھا گھنٹہ دینے سے فرض ادا نہیں ہوتا، فرائض کی ادائیگی کےلیے مستقل قیام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کشمیری بہتر سال سے سبز ہلالی پرچم تھامے حالت قیام میں ہیں، ایک ہاتھ اگر کٹ جاتا ہے تو اس پرچم کو تھامنے کےلیے سیکڑوں ہاتھ آگے بڑھتے ہیں۔
کشمیر اس وقت اس آتش فشاں کے لاوے کی مانند ابل رہا ہے، جس کی تپش سے پہاڑ بھی جل کر راکھ بن جاتے ہیں۔ یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کا ادراک سنجیدہ طبقات کو ہے، یہ طبقات جہاں نریندر مودی کو خبردار کر رہے ہیں، وہیں پاکستان کو ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ سنجیدہ طبقات کے مطابق وادی میں پیدا غیریقینی صورتحال کے باعث تحریک مزاحمت تیز ہوسکتی ہے۔ جس کو دبانے کےلیے مودی سرکار طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے کی مکمل تیاری کرچکی ہے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر قتل عام کی تیاریاں بھی کی جاچکی ہیں۔ صحافیوں پر پابندیوں کے باعث اس انسانی المیے کی خبر تک نہیں ہوگی۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوا تو تاریخ برصغیر کے بدترین دور کا آغاز ہوگا۔ اس لیے حکومت پاکستان اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری سفارتی اقدامات کرے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔