کراچی کا نوحہذمے دارکون
یہاں کراچی شہر میں بلدیاتی سطح پر ایم کیو ایم کا میئر موجود ہے
'' وزیر اعظم کراچی سے'' یہ ہے کراچی کے شہریوں سے کیا گیا تحریک انصاف کا وہ وعدہ جو 2018ء سے قبل کراچی کی فضاؤں میں گونجتا رہا۔ اس انتخابی نعرے کے ساتھ عمران خان نے کراچی سے الیکشن میں حصہ لیا اورکراچی کے جلسوں میں اعلان کیا کہ حکومت بنانے کے بعدکراچی کہ جسے ماضی کے حکمرانوں نے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، ہم اس کراچی کو روشنیوں کا شہر بنا کر اس کی اصل شناخت کو بحال کریں گے، عمران خان جانتے تھے کہ میگا میٹرو پولیٹن سٹی کے شہری بنیادی ضرورتوں سے بھرپور زندگی نہیں گزار رہے۔
کراچی کے شہریوں نے واقعتا انھیں اپنا مسیحا جانا۔ اور انتخابات میں اتنی زبردست حمایت سے نوازا کہ پورا ملک ہی حیرت زدہ رہ گیا۔ عمران خان کا کراچی کے شہریوں سے بہت واضع اور واشگاف وعدہ تھا کہ سب سے پہلے کراچی سے کچرے کی صفائی کی جائے گی، لیکن افسوس کہ یہ خوش کن نعرہ ہنوز وفا نہ ہو سکا۔
اول تو خان نے حکومت قائم ہونے کے بعدکراچی کی نشست ہی سے دستبردار ہوگئے جب کہ اپنے آبائی حلقہ میانوالی کی نشست کو برقرار رکھا اس طرح الیکشن 2018ء کے موقع پر لگایا گیا یہ نعرہ کہ ''وزیراعظم کراچی سے'' محض ایک سیاسی اور انتخابی نعرہ ہی رہ گیا۔
اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت قائم ہونے کے ایک سال بعد اب بھی کراچی کی حالت زار بدلنے کے صرف دعوے ہی کیے جا رہے ہیں ، وزیر اعظم کی جانب سے کراچی پیکیج کی رقم کا اعلان ہی کیا جا رہا ہے جوکہ اب تک نہ صوبائی حکومت اور نہ کراچی کی شہری حکومت کو موصول ہوئی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت براہ راست کراچی پیکیج کی رقم سے کوئی منصوبہ پیش کر پائی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کراچی کے شہری ضرور تحریک انصاف سے مایوس ہو چکے ہیں۔
ویسے عوام کی محرومیوں کو اجاگرکرکے ان کے دلوں میں جگہ اور ان کی حمایت حاصل کرنے کا یہ طریقہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔ لیکن یہ طریقہ زیادہ دیرپا نہیں ہوتا کیونکہ جب عوام کے سامنے ان کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہے تو عوام نہ صرف انھیں اپنی حمایت سے محروم کر دیتے ہیں بلکہ تاریخ کا کوڑا دان ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ سب جاننے کے باوجود بھی ہم عوام کی محبت کے عوض اُن کی خدمت کا فریضہ انجام دے کر ہمیشہ کے لیے امر ہونے کے بجائے ہم مصنوعی طریقوں سے عارضی حمایت کے ذریعہ محض اپنے اقتدارکے حصول کے اقدامات کیوں کرتے ہیں ؟کراچی تین سیاسی جماعتوں کی مختلف درجات کی حکومتوں کے باوجود انتہائی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے۔
یہاں کراچی شہر میں بلدیاتی سطح پر ایم کیو ایم کا میئر موجود ہے۔ صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کی ہے اورکراچی سندھ کا دارالحکومت ہے جب کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اورکراچی سے تحریک انصاف کے چودہ ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ بنے ہیں آج انھی چودہ ووٹوں کی بدولت عمران خان وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز ہیں لیکن نہ ان چودہ ارکان اسمبلی کو اپنے شہرکراچی کے مسائل حل کرنے میںکوئی دلچسپی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان کو اپنے وعدے کا کوئی پاس ہے چنانچہ کراچی اور اس کے شہری بدترین حالات کا شکار ہیں۔
جہاں حکمران ایک دوسرے کو ذمے دار تو قرار دے رہے ہیں لیکن کوئی اپنے آپ کوکراچی کی مین شاہراؤں ، بازاروں ،گلی کوچوں اور محلوں میں موجود کچروںکے ڈھیرکو صاف کرنے کا اپنے آپ کو ذمے دار تصور نہیں کررہا ۔ فراہمی آب اور نکاسی آب کی بوسیدہ لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، فراہمی آب کی بوسیدہ لائنوں میں نکاسی کا گندہ اور بد بودار پانی شامل ہوکرکراچی کی بڑی آبادی میں فراہم کیا جا رہا ہے جس کے استعمال سے کراچی کے غریب شہری متعدد امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ متوسط درجے سے تعلق رکھنے والے عوام کی بڑی اکثریت صاف پانی خریدکر استعمال کرنے پر مجبور ہے اور غریب بستیوں میں طرح طرح کی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں لیکن ہمارے بے حس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں نے جو تباہی مچائی وہ بھی کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین سیاہ باب ہے۔ ان بارشوں میں چالیس انسان اور درجنوں جانور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی نااہلی اور بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان گھرانوں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ آیندہ ہونے والی بارشوں میں اس طرح کے نقصانات کے سدباب کے لیے ان اداروں نے اب تک کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی ہے اور اب ایک بار پھر بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے دیکھنا ہوگا کہ آیندہ اس طرح کے حادثات اور سانحات سے کیسے محفوظ رہا جا سکتاہے۔
ٹرانسپورٹ کا کوئی حال نہیں ہے۔ اتنے بڑے شہر میں نہ کوئی میٹرو بس منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی پبلک یا پرائیویٹ سیکٹر کا مضبوط ٹرانسپورٹ کا نظام بلکہ صد افسوس کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکے شہریوں کو چنگ چی رکشہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ یہ ہے کراچی کا المیہ کیونکہ جس شہر میں ساٹھ کی دہائی تک پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں بس سروس کا بہترین نظام موجود ہونے کے باوجود سرکلر ریلوے ، ٹرام سروس اور ڈبل ٹیکر بس شہریوں کی سفری ضروریات کو پورا کرتا تھا اور اس سفری سہولت سے کراچی کے اچھے گھروں کی خواتین اور پڑھے لکھے باعزت افراد بڑے شوق سے استفادہ کرتے تھے ۔
وہاں آج چنگجی رکشوں کا راج ہے اس میں سفر بصورت مجبوری ہی کیا جاتا ہے دنیا توکیا خود پاکستان کے کئی شہر ترقی کا سفر طے کرتے ہوئے آگے جا رہے ہیں لیکن کراچی تنزلی کا شکار اور یہاں کے شہری ابتر حالات سے دوچار ہیں۔ ماضی میں جس شہرکی سڑکیں دھوئی جاتی تھیں، آج اس شہرکے بیشتر علاقے سڑکوں سے محروم ہیں یا پھر یہاں کے شہری انتہائی مخدوش سڑکوں پر سفرکرنے پر مجبور ہیں۔کہیں گیس کی لوڈشیڈنگ ہے توکوئی علاقہ بجلی سے محروم کئی کئی گھنٹوں تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔
نئی سرکاری اور نجی رہائشی اسکیموں میں بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان یا پارک کے لیے جگہ مختص کرنے کا رجحان ختم ہو چکا ہے جب کہ پرانی آبادیوں میں قائم کیے گئے پارک اور میدان کی جگہ پر ناجائز تجاوزات قائم ہوچکے ہیں جس کی بناء پر نوجوان اور بچے کھیل کود کی مثبت سرگرمیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔شہرکے بیچوں بیچ آباد بستیوں کے درمیان سے رات دن کی تمیزکیے بغیر ہیوی ٹریفک کاگزرنا اور حادثات کا رونما ہونا اب ایک معمول بن چکا ہے ۔
جگہ جگہ کچرا جلا کر شہر میں آلودگی پھیلانا اور اس میں بے پناہ اضافہ کرنا، اب اس شہر کی نئی شناخت بنتا جا رہا ہے لیکن افسوس کسی جانب سے کوئی روک تھام کا تصور نہیں۔کراچی کے عوام تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سے مایوسی کے بعد پتھرائی ہوئی نظروں سے اب کسی اور مسیحا کے منتظر ہیں جو ان کا نجات دہندہ بنے، جو اہل کراچی کی آنکھوں میں سجے صاف ستھرے، جدید انفرا اسٹرکچر کے حامل ترقی یافتہ کراچی کے خواب کو حقیقت کی تعبیر دے سکے۔