جہاں گشت میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے
جس تیزی سے میں اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا وہ اس قدر مجھ سے دُور ہوتا جارہا تھا
قسط نمبر 59
بابا نے حنیف کی کتھا سُنا کر مجھے اُس سے اور زیادہ قریب کردیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کچھ دن بعد ہمارے ساتھ ہی رہے گا اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ وہ دن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب ہم نے شام کو کام ختم کیا اور واپسی کی راہ لی تو حنیف نے بابا سے اصرار کرکے مجھے اپنی سائیکل کے پیچھے بٹھا لیا تھا اور ہم روانہ ہوئے۔
بابا نے اسے تنبیہ کی تھی کہ وہ بہت آرام سے سائیکل چلائے، سیدھے راستے کو اختیار کرے اور اس نے مُسکراتے ہوئے سر جُھکایا تھا۔ اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ بابا اسے یہ کیوں کہہ رہے ہیں لیکن جب حنیف روانہ ہوا تو کچی سڑک پر تو وہ بہت آہستہ سے سائیکل چلاتا رہا لیکن جیسے ہی پکی سڑک آئی وہ ہَوا سے باتیں کرنے لگا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی تیز رفتاری سے کیسے اور کیوں سائیکل چلا رہا ہے۔
حنیف بھائی! آرام سے چلیں ناں، میں نے اسے آواز دی لیکن اس نے تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا، کہتے ہوئے اپنی رفتار اور بڑھا لی تھی۔ میں نے خاموشی اختیار کی، خاصی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں اور بابا جس راستے سے جاتے تھے یہ وہ راستہ نہیں ہے، تب میں نے اسے کہا: حنیف بھائی یہ وہ رستہ نہیں ہے، ہم شاید بھٹک گئے ہیں۔
اچھا! تو اب تم مجھے راستے بھی بتاؤ گے، کہہ کر وہ اپنی دُھن میں چلا جارہا تھا۔ پسینے سے اُس کی قمیض تَر تھی، اُس پر ایک جُنون سوار تھا اور وہ بس چلے جارہا تھا۔ مغرب کی اذان بلند ہوئی تو اس نے سائیکل قریب ہی ایک مسجد کے باہر کھڑی کی اور کچھ کہے بنا ہی مسجد میں داخل ہوگیا، میں اس کے پیچھے تھا۔
ہم نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے، نیم پختہ مسجد میں چند ہی نمازی تھے، جب ہم باہر نکل رہے تھے تب نمازیوں نے ہمیں ایک نظر دیکھا تھا بس۔ حنیف نے سائیکل کے پاس آکر کہا: تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، لگتا ہے ہم کہیں دُور نکل آئے ہیں۔ جب میں نے آپ کو منع کیا تھا تو آپ نے میری کوئی بات سنی ہی نہیں حنیف بھائی! میں ذرا سا تلخ ہوا۔ پھر تو عجیب منظر تھا، وہ سائیکل کے پاس بیٹھ کر رونے لگا، اب تم بھی مجھے غصہ کروگے، کرو، کرو، میں ہوں ہی ایسا۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا۔ حنیف بھائی! میں غصہ نہیں کر رہا بس ویسے ہی کہہ رہا ہوں، اب آپ پریشان نہ ہوں۔
اﷲ دکھائے گا ناں راستہ، میری اس تسلی سے وہ کچھ سنبھلا اور کہنے لگا: اب جیسے تم کہو گے میں ویسا کروں گا۔ فقیر تو ویسے بھی راستوں سے ناآشنا تھا اور اب بھی ہے، میں نے دُور تک دیکھا ہم تو ایک ویرانے میں تھے، میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہم ایک سمت میں پیدل چلنے لگے، اندھیرا چھا گیا تھا اور آوارہ کتّوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھے اور ہم ایک کچّے راستے پر آگے بڑھ رہے تھے، نامعلوم کہاں۔ اچانک مجھے دُور چادر میں لپٹا ہوا ایک شخص جاتا دکھائی دیا تو امید کی کرن روشن ہوئی کہ میں اس سے راستے کا معلوم کرلوں گا، بس یہ خیال آتے ہی میں نے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی، حنیف مجھے آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔
پہلے تو میں نے اس شخص کو آوازیں دیں لیکن شاید اسے میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، میں اس کے پیچھے بھاگے چلا رہا تھا لیکن فاصلہ تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ خاصی دیر تک تو میں بھاگتا رہا پھر مجھے اندازہ ہوا کہ جس تیزی سے میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں وہ اس قدر مجھ سے دُور ہوتا جارہا ہے، میں نے اپنا ارادہ ترک کیا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، میں نے دیکھا دُور کھڑا ہوا شخص مجھے گھُور رہا تھا، اس کی آنکھیں چشمِ گُربہ بنی ہوئی تھیں، تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں بے عقل ایسا کرچکا تھا اور آنے والے وقت کا منتظر تھا۔ وہ مجھ سے بہت فاصلے پر تھا اور جیسے ہی میں رکا وہ بھی اپنی جگہ ساکت ہوگیا، اب وہ مجھے اور میں اسے مسلسل گھورے جارہے تھے۔
بنا کسی جنبش کے۔ خاصی دیر گزر گئی تھی پھر میں نے دیکھا کہ وہ آگے کی سمت میں بھاگتا چلا گیا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی کہ ہوسکتا ہے حنیف بھی آپہنچا ہو لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں تھا، میں نے اسے آوازیں دینا شروع کیں لیکن بے سُود، یعنی کہ ہم ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے۔
اب کیا کِیا جاسکتا تھا، بھاگ بھاگ کر میں تھک چکا تھا، دُور تلک ویرانہ اور وہ بھی تاریک اور جھاڑیوں سے اٹا ہوا، جس میں اکّا دُکّا درخت کسی آسیب کی طرح کھڑے تھے، میں نے اسی درخت کے نیچے رات بسر کا سوچا، لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ مجھے دن میں تو درخت کے نیچے سونے سے نہیں روکا گیا تھا، لیکن رات کو انتہائی سختی سے منع کیا گیا تھا، میں درخت سے دور ایک جگہ بیٹھ گیا، بھوک پیاس آج بھی فقیر کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی کہ مجھے یہ سکھایا گیا کہ جب کچھ دست یاب نہ ہو تو پھر کیسے جیا جائے، جی انسان خاصے دن تک بغیر کچھ کھائے پیے جی سکتا ہے، کیسے؟ اب یہ فقیر آپ کو کیسے بتائے لیکن یہ کوئی اتنا کارِ مشکل نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں، فقط ضبطِ نفس کے ساتھ مسلسل مشق سے آپ اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔
میں زمین پر لیٹ گیا اور پھر سے ماضی کی اک یاد میرے سامنے تھی۔ میں جب بہت چھوٹا تھا، بڑا تو خیر میں اب تک نہیں ہُوا اور لگتا ہے اس نعمت سے میں محروم ہی رہوں گا تو آوارگی گھٹی میں ہے، کہیں ٹک کر بیٹھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
میری امّاں جی کہتی تھیں اس کے پاؤں میں چکر ہے، کہیں قیام نہیں کرسکتا یہ، خاص کر دوپہر میں جب سب آرام کرنے لیٹ جاتے تو گھر والوں کو چکمہ دینے کے لیے میں ایک چادر کے نیچے تکیے رکھ کر باہر کی راہ لیتا، ابّا جی ویسے بھی اکثر اپنی زمینوں پر ہوتے تھے اور اگر گھر ہوتے بھی تو میں اس کی راہ بھی نکال لیتا تھا، جی بہت مار کھائی، لیکن وہ بُھوت ہی کیا جو مار سے اُتر جائے، خیر ایک دوپہر کو میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور ایک سڑک پر جا نکلا، اس سڑک کے دونوں جانب آم کے باغات تھے اور قریب ہی نہر بھی تھی، میں نہر پر جا پہنچا اور اس میں نہانے لگا، نہر کے کنارے پر کوئی جھاڑی تھی جس میں بادام کی طرح لیکن بہت چھوٹے سے پھل لگے ہوئے تھے، میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے کھانا شروع کردیا، مجھے یاد نہیں کہ کتنی گِریاں کھائی تھیں، پھر مجھے چکر آنے لگا، اندھیرا چھانے لگا اور میں نہ جانے کب بے ہوش ہوگیا۔ میں جب ہوش آیا تو خود کو ایک گاؤں میں پایا، میرے اردگرد کچھ مرد و زن موجود تھے۔
ان میں سے ایک بوڑھے نے مجھ سے پوچھا: بیٹا تم کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ جواب تو میں کوئی نہیں دیا الٹا ان سے پوچھ بیٹھا کہ میں کیسے اس جگہ پہنچ گیا، کون لایا ہے مجھے اور کیوں؟ بوڑھے بزرگ نے کسی سے گرم دودھ لانے کا کہا اور پھر مجھے پلاتے ہوئے بتایا: بیٹا میں لایا ہوں تمہیں یہاں، میں گاؤں آرہا تھا تو میری نظر تم پر پڑی تم نہر کے کنارے بے ہوش پڑے ہوئے تھے اور تمہارے آس پاس جنگلی جھاڑی کے بیج پڑے ہوئے تھے، میں سمجھ گیا کہ تم نے یہ کھائے ہیں اور اس لیے بے ہوش ہوگئے ہو، خدا نے رحم کیا تم پر بیٹا! وہ بیج انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔
انہیں کھانے سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، پھر میں کچھ لوگوں کی مدد سے تمہیں یہاں لے آیا، میں جانتا ہوں اس کا علاج تو بس میں نے تمہیں کچھ جڑی بُوٹیاں کھلائیں جس سے تم نے قے کردی اور خُدا کا شُکر ہے کہ تم بچ گئے، اب تم بتاؤ کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں۔
ابّاجی کا نام سن کر وہ پریشان ہوئے اور بولے وہ بھی تمہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور تم ان کے غضب کو تو اچھی طرح سے جانتے ہی ہوگے، لیکن چلو اب میں تمہیں پہنچانے جاتا ہوں، ان سے گزارش کروں گا کہ تمہیں معاف کردیں لیکن بیٹا! آئندہ ایسا مت کرنا، کسی بھی چیز کو بلا سوچے سمجھے مت کھانا، دیکھو کچھ چیزیں بہت خوب صورت دِکھتی ہیں لیکن ہوتی انتہائی زہریلی ہیں۔ فقیر کو بہت عرصے بعد بھٹ شاہ کے سائیں شاہ لطیف کی بات سنائی گئی، انہوں نے فرمایا: ''سانپ دیکھنے میں بہت خُوب صورت نظر آتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔'' انہوں نے اپنے ٹریکٹر پر مجھے بٹھایا اور ہم اپنے گھر پہنچے، راستے میں ہی ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ ابّا جی نے نہ جانے کتنے ہی لوگ میری تلاش میں روانہ کیے تھے، چلیے قصہ مختصر! جی ان بزرگ بوڑھے کی سفارش پر ابّا جی نے مجھے معاف کردیا تھا۔
حنیف کہاں اور کس حال میں ہوگا اور بابا؟ کچھ دیر میں نے سوچا اور پھر سب کچھ اپنے رب کے حوالے کردیا، سارا دن کام اور پھر اس کے بعد کے حالات نے مجھے تھکا دیا تھا میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بہ آواز بلند کہا: '' دیکھو اور سنو! میں اﷲ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں مسافر ہوں، راستہ بھٹک گیا ہوں، میں یہاں کسی کو بھی کوئی گزند پہنچانے نہیں آیا، آپ سب مجھ سے خود کو محفوظ و مامون سمجھیے، آپ سب بھی اسی رب کی مخلوق ہیں جس نے مجھے خَلق کیا ہے تو میں آپ سے بھی یہی توقع کرتا اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ سب بھی مجھے کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے اور مجھے مامون رکھیں گے۔''
جی فقیر کو یہی سکھایا گیا ہے اور اگر آپ بھی کبھی ایسے حالات کا شکار ہوں جائیں اور کوئی راستہ نظر نہ آئے اور آپ کو کہیں رہنا پڑ جائے تو آپ بھی ایسا ہی کیجیے، فقیر آپ کو یقین سے بتاتا ہے کہ آپ بالکل محفوظ رہیں گے۔ اس کے بعد میں نے اپنے گرد دائرہ کھینچا اور اپنے رب کا نام لے کر دراز ہوگیا۔
جلد ہی میں نیند کی وادی میں سیّاحی کر رہا تھا۔ کتّوں کے بھونکنے سے میری آنکھ کھل گئی تھی، میں اٹھ بیٹھا، میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے، میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر خاموش بیٹھ گیا، تھوڑی دیر تک وہ بھونکتے رہے، پھر وقفے وقفے سے غرّاتے رہے اور بلآخر خاموش ہوکر چلے گئے۔
ہوتا یہ ہے کہ دیگر مخلوقات آپ سے خوف زدہ ہوکر اپنے بچاؤ کے لیے آپ سے مزاحم ہوتی ہیں اور آپ اگر انہیں یہ یقین دلانے میں کام یاب ہوجائیں کہ آپ انہیں زک نہیں پہنچائیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے مزاحمت نہیں کرتے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ وہ آپ سے اٹکھیلیاں شروع کردیں لیکن کوئی ضرر نہیں پہنچاتے، الاّ یہ کہ انہیں اس کارِبَد پر کسی نے مجبور نہ کیا ہو۔ سیدھی سی بات ہے ناں کہ کوئی اجنبی آپ کی حدود میں داخل ہوجائے تو آپ کیا کرتے ہیں۔
مزاحمت ناں جی اور کیا، اور اگر وہ آپ کو یقین دلا دے کہ وہ بے ضرر ہے اور اس کے کوئی عزائم نہیں ہیں تو آپ کا دل بھی تو پسیج جاتا ہے ناں، خیر! اور یہ جو آپ نے رب تعالی کی بہت ساری مخلوقات کو اپنے گھروں میں قید کر رکھا یا چلیے پال رکھا ہے، ان کے ساتھ کیا آپ اٹکھیلیاں نہیں کرتے؟ آپ تو ان مظلوموں کے لیے باعث آزار بھی بن جاتے ہیں، چلیے کیا اس بحث میں الجھیں، پھر کہیں بہت دُور ہم نکل جائیں گے، آپ تو دانا ہیں جی، سب جانتے ہیں۔ فقیر جیسا کند ذہن اور غبی آپ کو کیا سمجھا سکتا ہے جی۔
شب اپنے نصف کو عبور کرچکی تھی، میں نے تیمّم کیا اور اپنے رب کو پکارا کہ بس وہی ہے، صرف وہی جو آپ کو مشکلات سے نکال کر آسانی میں لاتا ہے، بس وہی ہے جو آپ کو تاریکی سے نکال باہر کرسکتا اور روشنی کا ہم دوش بنا سکتا ہے، جی صرف وہی ہے جو اپنی مخلوقات کے دل میں آپ کی الفت کو بو سکتا ہے، جی! وہی ہے جو آپ کو گم راہی سے بچا کر راستی پر رکھتا ہے، صرف وہی ہے جو آپ کا کارساز و مالک و مختار و رب اعلٰی ہے، بس وہی۔ اور یہ بھی گرہ سے باندھ لیجیے کہ جو رب کا بن جاتا ہے تو رب اس کا ہوجاتا ہے، لیجیے بابے اقبال چلے آئے:
ہاتھ ہے اﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارِکُشا و کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز
نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ
فقیر تو بندۂ بے کار و بے مصرف ہے اور ہے، لیکن رب تعالی نے اپنے اس حقیر و فقیر و کمّی و کمین کو اپنے ایسے ہی بندوں کے سنگ رکھا جن کا ابھی تذکرہ بابے اقبال کر رہے تھے۔ حمد بس رب کی ہے، توصیف کا حق دار ہے وہ، بندگی صرف اسی کے لیے ہے اور سب کا مددگار ہے وہ، الحمدﷲ رب العالمین۔
رات کے طاغوت کو سحر نے پسپا کردیا تھا، ویرانہ اور بندۂ کم زور و ناتواں۔ تھوڑی دیر میں سوچتا رہا اور پھر جیسے فقیر کو بتایا گیا ہے میں نے رب تعالی کا نام لے کر اپنے دائیں ہاتھ کی سمت میں قدم بڑھا لیے۔ یہ بھی آپ کے کبھی کام آئے گا، اگر آپ کبھی رستہ گم کر بیٹھیں تو رب کا نام لے کر دائیں سمت کو اختیار کیجیے آپ انشاء اﷲ درست راہ پر آجائیں گے۔ مجھے چلتے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی کہ دُور سے ایک دیہاتی کو اپنی جانب آتا دیکھا۔
بابا نے حنیف کی کتھا سُنا کر مجھے اُس سے اور زیادہ قریب کردیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کچھ دن بعد ہمارے ساتھ ہی رہے گا اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ وہ دن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب ہم نے شام کو کام ختم کیا اور واپسی کی راہ لی تو حنیف نے بابا سے اصرار کرکے مجھے اپنی سائیکل کے پیچھے بٹھا لیا تھا اور ہم روانہ ہوئے۔
بابا نے اسے تنبیہ کی تھی کہ وہ بہت آرام سے سائیکل چلائے، سیدھے راستے کو اختیار کرے اور اس نے مُسکراتے ہوئے سر جُھکایا تھا۔ اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ بابا اسے یہ کیوں کہہ رہے ہیں لیکن جب حنیف روانہ ہوا تو کچی سڑک پر تو وہ بہت آہستہ سے سائیکل چلاتا رہا لیکن جیسے ہی پکی سڑک آئی وہ ہَوا سے باتیں کرنے لگا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی تیز رفتاری سے کیسے اور کیوں سائیکل چلا رہا ہے۔
حنیف بھائی! آرام سے چلیں ناں، میں نے اسے آواز دی لیکن اس نے تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا، کہتے ہوئے اپنی رفتار اور بڑھا لی تھی۔ میں نے خاموشی اختیار کی، خاصی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں اور بابا جس راستے سے جاتے تھے یہ وہ راستہ نہیں ہے، تب میں نے اسے کہا: حنیف بھائی یہ وہ رستہ نہیں ہے، ہم شاید بھٹک گئے ہیں۔
اچھا! تو اب تم مجھے راستے بھی بتاؤ گے، کہہ کر وہ اپنی دُھن میں چلا جارہا تھا۔ پسینے سے اُس کی قمیض تَر تھی، اُس پر ایک جُنون سوار تھا اور وہ بس چلے جارہا تھا۔ مغرب کی اذان بلند ہوئی تو اس نے سائیکل قریب ہی ایک مسجد کے باہر کھڑی کی اور کچھ کہے بنا ہی مسجد میں داخل ہوگیا، میں اس کے پیچھے تھا۔
ہم نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے، نیم پختہ مسجد میں چند ہی نمازی تھے، جب ہم باہر نکل رہے تھے تب نمازیوں نے ہمیں ایک نظر دیکھا تھا بس۔ حنیف نے سائیکل کے پاس آکر کہا: تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، لگتا ہے ہم کہیں دُور نکل آئے ہیں۔ جب میں نے آپ کو منع کیا تھا تو آپ نے میری کوئی بات سنی ہی نہیں حنیف بھائی! میں ذرا سا تلخ ہوا۔ پھر تو عجیب منظر تھا، وہ سائیکل کے پاس بیٹھ کر رونے لگا، اب تم بھی مجھے غصہ کروگے، کرو، کرو، میں ہوں ہی ایسا۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا۔ حنیف بھائی! میں غصہ نہیں کر رہا بس ویسے ہی کہہ رہا ہوں، اب آپ پریشان نہ ہوں۔
اﷲ دکھائے گا ناں راستہ، میری اس تسلی سے وہ کچھ سنبھلا اور کہنے لگا: اب جیسے تم کہو گے میں ویسا کروں گا۔ فقیر تو ویسے بھی راستوں سے ناآشنا تھا اور اب بھی ہے، میں نے دُور تک دیکھا ہم تو ایک ویرانے میں تھے، میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہم ایک سمت میں پیدل چلنے لگے، اندھیرا چھا گیا تھا اور آوارہ کتّوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھے اور ہم ایک کچّے راستے پر آگے بڑھ رہے تھے، نامعلوم کہاں۔ اچانک مجھے دُور چادر میں لپٹا ہوا ایک شخص جاتا دکھائی دیا تو امید کی کرن روشن ہوئی کہ میں اس سے راستے کا معلوم کرلوں گا، بس یہ خیال آتے ہی میں نے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی، حنیف مجھے آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔
پہلے تو میں نے اس شخص کو آوازیں دیں لیکن شاید اسے میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، میں اس کے پیچھے بھاگے چلا رہا تھا لیکن فاصلہ تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ خاصی دیر تک تو میں بھاگتا رہا پھر مجھے اندازہ ہوا کہ جس تیزی سے میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں وہ اس قدر مجھ سے دُور ہوتا جارہا ہے، میں نے اپنا ارادہ ترک کیا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، میں نے دیکھا دُور کھڑا ہوا شخص مجھے گھُور رہا تھا، اس کی آنکھیں چشمِ گُربہ بنی ہوئی تھیں، تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں بے عقل ایسا کرچکا تھا اور آنے والے وقت کا منتظر تھا۔ وہ مجھ سے بہت فاصلے پر تھا اور جیسے ہی میں رکا وہ بھی اپنی جگہ ساکت ہوگیا، اب وہ مجھے اور میں اسے مسلسل گھورے جارہے تھے۔
بنا کسی جنبش کے۔ خاصی دیر گزر گئی تھی پھر میں نے دیکھا کہ وہ آگے کی سمت میں بھاگتا چلا گیا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی کہ ہوسکتا ہے حنیف بھی آپہنچا ہو لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں تھا، میں نے اسے آوازیں دینا شروع کیں لیکن بے سُود، یعنی کہ ہم ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے۔
اب کیا کِیا جاسکتا تھا، بھاگ بھاگ کر میں تھک چکا تھا، دُور تلک ویرانہ اور وہ بھی تاریک اور جھاڑیوں سے اٹا ہوا، جس میں اکّا دُکّا درخت کسی آسیب کی طرح کھڑے تھے، میں نے اسی درخت کے نیچے رات بسر کا سوچا، لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ مجھے دن میں تو درخت کے نیچے سونے سے نہیں روکا گیا تھا، لیکن رات کو انتہائی سختی سے منع کیا گیا تھا، میں درخت سے دور ایک جگہ بیٹھ گیا، بھوک پیاس آج بھی فقیر کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی کہ مجھے یہ سکھایا گیا کہ جب کچھ دست یاب نہ ہو تو پھر کیسے جیا جائے، جی انسان خاصے دن تک بغیر کچھ کھائے پیے جی سکتا ہے، کیسے؟ اب یہ فقیر آپ کو کیسے بتائے لیکن یہ کوئی اتنا کارِ مشکل نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں، فقط ضبطِ نفس کے ساتھ مسلسل مشق سے آپ اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔
میں زمین پر لیٹ گیا اور پھر سے ماضی کی اک یاد میرے سامنے تھی۔ میں جب بہت چھوٹا تھا، بڑا تو خیر میں اب تک نہیں ہُوا اور لگتا ہے اس نعمت سے میں محروم ہی رہوں گا تو آوارگی گھٹی میں ہے، کہیں ٹک کر بیٹھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
میری امّاں جی کہتی تھیں اس کے پاؤں میں چکر ہے، کہیں قیام نہیں کرسکتا یہ، خاص کر دوپہر میں جب سب آرام کرنے لیٹ جاتے تو گھر والوں کو چکمہ دینے کے لیے میں ایک چادر کے نیچے تکیے رکھ کر باہر کی راہ لیتا، ابّا جی ویسے بھی اکثر اپنی زمینوں پر ہوتے تھے اور اگر گھر ہوتے بھی تو میں اس کی راہ بھی نکال لیتا تھا، جی بہت مار کھائی، لیکن وہ بُھوت ہی کیا جو مار سے اُتر جائے، خیر ایک دوپہر کو میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور ایک سڑک پر جا نکلا، اس سڑک کے دونوں جانب آم کے باغات تھے اور قریب ہی نہر بھی تھی، میں نہر پر جا پہنچا اور اس میں نہانے لگا، نہر کے کنارے پر کوئی جھاڑی تھی جس میں بادام کی طرح لیکن بہت چھوٹے سے پھل لگے ہوئے تھے، میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے کھانا شروع کردیا، مجھے یاد نہیں کہ کتنی گِریاں کھائی تھیں، پھر مجھے چکر آنے لگا، اندھیرا چھانے لگا اور میں نہ جانے کب بے ہوش ہوگیا۔ میں جب ہوش آیا تو خود کو ایک گاؤں میں پایا، میرے اردگرد کچھ مرد و زن موجود تھے۔
ان میں سے ایک بوڑھے نے مجھ سے پوچھا: بیٹا تم کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ جواب تو میں کوئی نہیں دیا الٹا ان سے پوچھ بیٹھا کہ میں کیسے اس جگہ پہنچ گیا، کون لایا ہے مجھے اور کیوں؟ بوڑھے بزرگ نے کسی سے گرم دودھ لانے کا کہا اور پھر مجھے پلاتے ہوئے بتایا: بیٹا میں لایا ہوں تمہیں یہاں، میں گاؤں آرہا تھا تو میری نظر تم پر پڑی تم نہر کے کنارے بے ہوش پڑے ہوئے تھے اور تمہارے آس پاس جنگلی جھاڑی کے بیج پڑے ہوئے تھے، میں سمجھ گیا کہ تم نے یہ کھائے ہیں اور اس لیے بے ہوش ہوگئے ہو، خدا نے رحم کیا تم پر بیٹا! وہ بیج انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔
انہیں کھانے سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، پھر میں کچھ لوگوں کی مدد سے تمہیں یہاں لے آیا، میں جانتا ہوں اس کا علاج تو بس میں نے تمہیں کچھ جڑی بُوٹیاں کھلائیں جس سے تم نے قے کردی اور خُدا کا شُکر ہے کہ تم بچ گئے، اب تم بتاؤ کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں۔
ابّاجی کا نام سن کر وہ پریشان ہوئے اور بولے وہ بھی تمہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور تم ان کے غضب کو تو اچھی طرح سے جانتے ہی ہوگے، لیکن چلو اب میں تمہیں پہنچانے جاتا ہوں، ان سے گزارش کروں گا کہ تمہیں معاف کردیں لیکن بیٹا! آئندہ ایسا مت کرنا، کسی بھی چیز کو بلا سوچے سمجھے مت کھانا، دیکھو کچھ چیزیں بہت خوب صورت دِکھتی ہیں لیکن ہوتی انتہائی زہریلی ہیں۔ فقیر کو بہت عرصے بعد بھٹ شاہ کے سائیں شاہ لطیف کی بات سنائی گئی، انہوں نے فرمایا: ''سانپ دیکھنے میں بہت خُوب صورت نظر آتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔'' انہوں نے اپنے ٹریکٹر پر مجھے بٹھایا اور ہم اپنے گھر پہنچے، راستے میں ہی ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ ابّا جی نے نہ جانے کتنے ہی لوگ میری تلاش میں روانہ کیے تھے، چلیے قصہ مختصر! جی ان بزرگ بوڑھے کی سفارش پر ابّا جی نے مجھے معاف کردیا تھا۔
حنیف کہاں اور کس حال میں ہوگا اور بابا؟ کچھ دیر میں نے سوچا اور پھر سب کچھ اپنے رب کے حوالے کردیا، سارا دن کام اور پھر اس کے بعد کے حالات نے مجھے تھکا دیا تھا میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بہ آواز بلند کہا: '' دیکھو اور سنو! میں اﷲ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں مسافر ہوں، راستہ بھٹک گیا ہوں، میں یہاں کسی کو بھی کوئی گزند پہنچانے نہیں آیا، آپ سب مجھ سے خود کو محفوظ و مامون سمجھیے، آپ سب بھی اسی رب کی مخلوق ہیں جس نے مجھے خَلق کیا ہے تو میں آپ سے بھی یہی توقع کرتا اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ سب بھی مجھے کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے اور مجھے مامون رکھیں گے۔''
جی فقیر کو یہی سکھایا گیا ہے اور اگر آپ بھی کبھی ایسے حالات کا شکار ہوں جائیں اور کوئی راستہ نظر نہ آئے اور آپ کو کہیں رہنا پڑ جائے تو آپ بھی ایسا ہی کیجیے، فقیر آپ کو یقین سے بتاتا ہے کہ آپ بالکل محفوظ رہیں گے۔ اس کے بعد میں نے اپنے گرد دائرہ کھینچا اور اپنے رب کا نام لے کر دراز ہوگیا۔
جلد ہی میں نیند کی وادی میں سیّاحی کر رہا تھا۔ کتّوں کے بھونکنے سے میری آنکھ کھل گئی تھی، میں اٹھ بیٹھا، میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے، میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر خاموش بیٹھ گیا، تھوڑی دیر تک وہ بھونکتے رہے، پھر وقفے وقفے سے غرّاتے رہے اور بلآخر خاموش ہوکر چلے گئے۔
ہوتا یہ ہے کہ دیگر مخلوقات آپ سے خوف زدہ ہوکر اپنے بچاؤ کے لیے آپ سے مزاحم ہوتی ہیں اور آپ اگر انہیں یہ یقین دلانے میں کام یاب ہوجائیں کہ آپ انہیں زک نہیں پہنچائیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے مزاحمت نہیں کرتے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ وہ آپ سے اٹکھیلیاں شروع کردیں لیکن کوئی ضرر نہیں پہنچاتے، الاّ یہ کہ انہیں اس کارِبَد پر کسی نے مجبور نہ کیا ہو۔ سیدھی سی بات ہے ناں کہ کوئی اجنبی آپ کی حدود میں داخل ہوجائے تو آپ کیا کرتے ہیں۔
مزاحمت ناں جی اور کیا، اور اگر وہ آپ کو یقین دلا دے کہ وہ بے ضرر ہے اور اس کے کوئی عزائم نہیں ہیں تو آپ کا دل بھی تو پسیج جاتا ہے ناں، خیر! اور یہ جو آپ نے رب تعالی کی بہت ساری مخلوقات کو اپنے گھروں میں قید کر رکھا یا چلیے پال رکھا ہے، ان کے ساتھ کیا آپ اٹکھیلیاں نہیں کرتے؟ آپ تو ان مظلوموں کے لیے باعث آزار بھی بن جاتے ہیں، چلیے کیا اس بحث میں الجھیں، پھر کہیں بہت دُور ہم نکل جائیں گے، آپ تو دانا ہیں جی، سب جانتے ہیں۔ فقیر جیسا کند ذہن اور غبی آپ کو کیا سمجھا سکتا ہے جی۔
شب اپنے نصف کو عبور کرچکی تھی، میں نے تیمّم کیا اور اپنے رب کو پکارا کہ بس وہی ہے، صرف وہی جو آپ کو مشکلات سے نکال کر آسانی میں لاتا ہے، بس وہی ہے جو آپ کو تاریکی سے نکال باہر کرسکتا اور روشنی کا ہم دوش بنا سکتا ہے، جی صرف وہی ہے جو اپنی مخلوقات کے دل میں آپ کی الفت کو بو سکتا ہے، جی! وہی ہے جو آپ کو گم راہی سے بچا کر راستی پر رکھتا ہے، صرف وہی ہے جو آپ کا کارساز و مالک و مختار و رب اعلٰی ہے، بس وہی۔ اور یہ بھی گرہ سے باندھ لیجیے کہ جو رب کا بن جاتا ہے تو رب اس کا ہوجاتا ہے، لیجیے بابے اقبال چلے آئے:
ہاتھ ہے اﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارِکُشا و کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز
نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ
فقیر تو بندۂ بے کار و بے مصرف ہے اور ہے، لیکن رب تعالی نے اپنے اس حقیر و فقیر و کمّی و کمین کو اپنے ایسے ہی بندوں کے سنگ رکھا جن کا ابھی تذکرہ بابے اقبال کر رہے تھے۔ حمد بس رب کی ہے، توصیف کا حق دار ہے وہ، بندگی صرف اسی کے لیے ہے اور سب کا مددگار ہے وہ، الحمدﷲ رب العالمین۔
رات کے طاغوت کو سحر نے پسپا کردیا تھا، ویرانہ اور بندۂ کم زور و ناتواں۔ تھوڑی دیر میں سوچتا رہا اور پھر جیسے فقیر کو بتایا گیا ہے میں نے رب تعالی کا نام لے کر اپنے دائیں ہاتھ کی سمت میں قدم بڑھا لیے۔ یہ بھی آپ کے کبھی کام آئے گا، اگر آپ کبھی رستہ گم کر بیٹھیں تو رب کا نام لے کر دائیں سمت کو اختیار کیجیے آپ انشاء اﷲ درست راہ پر آجائیں گے۔ مجھے چلتے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی کہ دُور سے ایک دیہاتی کو اپنی جانب آتا دیکھا۔