آدھے گھنٹے سے کیا ہوگا
آپ کا آدھا گھنٹہ، آپ کی ایک پوسٹ، آپ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ، بہت اہمیت رکھتا ہے
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کےلیے آدھا گھنٹہ وقف کرنے کا اعلان کیا کیا، سوشل میڈیا پر تو ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا۔ ایسی ایسی پوسٹس نظروں سے گزریں جو قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتی تھیں۔ ایک پوسٹ میں لکھا تھا ''بھکاریوں نے بھی خان صاحب کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ سارے بھکاری کل 12 سے 12:30 سگنلز پر کھڑے رہیں گے۔ پھر کشمیر آزاد ہوجائے گا''۔ ایسی بھی غیر اخلاقی پوسٹس تھیں جن کا بیان یہاں مناسب نہیں۔
آپ کا سیاسی، نظریاتی یا ذاتی اختلاف عمران خان سے ہوسکتا ہے، اور ہونا بھی چاہیے، کیونکہ آپ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر آپ کے پاس کوئی مثبت تجویز ہے، یا آپ کوئی بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، یا کوئی ایسا ایکشن بتاسکتے ہیں جو اس سے بہتر ہو، تو اسے پیش کریں؟ یا آپ صرف ایک عمل کی تنقید کے بجائے تضحیک ہی کریں گے؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر کی آزادی کےلیے، مقبوضہ کشمیر پر حملہ کردینا چاہیے؟ اور کشمیر کو آزاد کرالینا چاہیے؟ یقیناً اگر آُپ اپنے آپ کو وزیراعظم کی جگہ رکھیں اور سوچیں تو آپ کو اس کا جواب مل سکتا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی افواج پاکستان اس سارے معاملے کو نہیں دیکھ رہی ہوں گی؟
آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو چاروں طرف سے نہیں ہر طرف سے سازشوں میں گھرا ہے، اور یہ سازشیں صرف غیر ملکی نہیں اندرونی بھی ہیں۔ آپ اگر ایک ایسا ذہن رکھتے ہیں، جو سوچ سکتا ہو، تو آپ ضرور سوچیں۔ آپ کا آدھا گھنٹہ، آپ کی ایک پوسٹ، آپ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ، بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس وقت کی دنیا، ایک گلوبل ویلیج ہے، اگر آپ کے سوشل میڈیا پر 4000 دوست موجود ہیں تو آپ کا ایک لفظ ان چار ہزار لوگوں تک ایک ساتھ پہینچتا ہے، جو اس سے متاثربھی ہوتے ہیں۔ یہ وقت ففتھ جنریشن وار فیئر کا ہے۔ بھارت پروپیگنڈہ کا ماہر ہے، اور وہ آبادی کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا بڑا ہے، لیکن احتجاج کا یہ آدھا گھنٹہ ان سب پر بھاری پڑ رہا ہے۔ کشمیر آور، دنیا میں ٹویٹر پر دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت پوری دنیا اگر کوئی دوسری بات سن یا کہہ رہی ہے تو وہ کشمیر کی ہے۔ اور کشمیر کی یہ آواز بھارت چاہتے ہوئے بھی روک نہیں پا رہا۔
کشمیر جنت نظیر عرصہ 72 سال سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدامات نے کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ تاریخ کے طالبعلموں کےلیے اس پورے قصے میں اقوام عالم کی بے حسی، بے دردی، کوتاہ نظری، اور نظراندازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اور ہم کشمیر کے معاملے میں چاہے کوئی ہمارے ساتھ ہو یا نہ ہو، کھڑے ہیں۔
آزادی کے متوالے، آزادی کے نام پر عرصہ 72 سال سے اپنی جانیں وار رہے ہیں۔ مسلم امہ کے نام پر مسلم ممالک اپنے اپنے مفاد کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اسی ٹویٹر پر کئی آپ کے دوست کشمیر کے دونوں طرف سے ہوسکتے ہیں، وہ جب آپ کے الفاظ، آپ کے جملے، یا آپ کی تصاویر دیکھ رہے ہوں گے تو کیا آپ کو لگتا ہے انہیں یہ لگے گا کہ آپ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ یا آپ کا عمل انہیں امید سے باندھے رکھے گا؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کا ایک چھوٹا سا عمل ان کےلیے زندگی کی نوید بن جائے۔
میں جب اپنے دو بیٹوں، بیٹی، اور بیگم کے ساتھ، پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ چوک پر کھڑا تھا تو اس لیے نہیں کہ میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے، یا میں کون سی زبان بولتا ہوں، یا میں کس رنگ، نسل، مذہب کا ہوں۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ اب یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ میں کشمیر کے بیٹوں، بیٹیوں، عورتوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو یہ بتارہا تھا کہ ''میں تمہارے ساتھ ہوں''۔
اللہ کشمیر کا، پاکستان کا، آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ کا سیاسی، نظریاتی یا ذاتی اختلاف عمران خان سے ہوسکتا ہے، اور ہونا بھی چاہیے، کیونکہ آپ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر آپ کے پاس کوئی مثبت تجویز ہے، یا آپ کوئی بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، یا کوئی ایسا ایکشن بتاسکتے ہیں جو اس سے بہتر ہو، تو اسے پیش کریں؟ یا آپ صرف ایک عمل کی تنقید کے بجائے تضحیک ہی کریں گے؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر کی آزادی کےلیے، مقبوضہ کشمیر پر حملہ کردینا چاہیے؟ اور کشمیر کو آزاد کرالینا چاہیے؟ یقیناً اگر آُپ اپنے آپ کو وزیراعظم کی جگہ رکھیں اور سوچیں تو آپ کو اس کا جواب مل سکتا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی افواج پاکستان اس سارے معاملے کو نہیں دیکھ رہی ہوں گی؟
آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو چاروں طرف سے نہیں ہر طرف سے سازشوں میں گھرا ہے، اور یہ سازشیں صرف غیر ملکی نہیں اندرونی بھی ہیں۔ آپ اگر ایک ایسا ذہن رکھتے ہیں، جو سوچ سکتا ہو، تو آپ ضرور سوچیں۔ آپ کا آدھا گھنٹہ، آپ کی ایک پوسٹ، آپ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ، بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس وقت کی دنیا، ایک گلوبل ویلیج ہے، اگر آپ کے سوشل میڈیا پر 4000 دوست موجود ہیں تو آپ کا ایک لفظ ان چار ہزار لوگوں تک ایک ساتھ پہینچتا ہے، جو اس سے متاثربھی ہوتے ہیں۔ یہ وقت ففتھ جنریشن وار فیئر کا ہے۔ بھارت پروپیگنڈہ کا ماہر ہے، اور وہ آبادی کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا بڑا ہے، لیکن احتجاج کا یہ آدھا گھنٹہ ان سب پر بھاری پڑ رہا ہے۔ کشمیر آور، دنیا میں ٹویٹر پر دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت پوری دنیا اگر کوئی دوسری بات سن یا کہہ رہی ہے تو وہ کشمیر کی ہے۔ اور کشمیر کی یہ آواز بھارت چاہتے ہوئے بھی روک نہیں پا رہا۔
کشمیر جنت نظیر عرصہ 72 سال سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدامات نے کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ تاریخ کے طالبعلموں کےلیے اس پورے قصے میں اقوام عالم کی بے حسی، بے دردی، کوتاہ نظری، اور نظراندازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اور ہم کشمیر کے معاملے میں چاہے کوئی ہمارے ساتھ ہو یا نہ ہو، کھڑے ہیں۔
آزادی کے متوالے، آزادی کے نام پر عرصہ 72 سال سے اپنی جانیں وار رہے ہیں۔ مسلم امہ کے نام پر مسلم ممالک اپنے اپنے مفاد کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اسی ٹویٹر پر کئی آپ کے دوست کشمیر کے دونوں طرف سے ہوسکتے ہیں، وہ جب آپ کے الفاظ، آپ کے جملے، یا آپ کی تصاویر دیکھ رہے ہوں گے تو کیا آپ کو لگتا ہے انہیں یہ لگے گا کہ آپ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ یا آپ کا عمل انہیں امید سے باندھے رکھے گا؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کا ایک چھوٹا سا عمل ان کےلیے زندگی کی نوید بن جائے۔
میں جب اپنے دو بیٹوں، بیٹی، اور بیگم کے ساتھ، پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ چوک پر کھڑا تھا تو اس لیے نہیں کہ میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے، یا میں کون سی زبان بولتا ہوں، یا میں کس رنگ، نسل، مذہب کا ہوں۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ اب یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ میں اس لیے کھڑا تھا کہ میں کشمیر کے بیٹوں، بیٹیوں، عورتوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو یہ بتارہا تھا کہ ''میں تمہارے ساتھ ہوں''۔
اللہ کشمیر کا، پاکستان کا، آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔