قاتل کو ایوارڈ
مودی کوایوارڈزدینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ عربوں کے بااعتماد دوست ہیں اوروہ عالمی امن کے لیے اہم کردارادا کررہے ہیں۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کہ مصداق پاکستان کو اپنے جن عرب بھائیوں پر فخر و ناز تھا کہ وہ اس کی پشت پر ہیں وہ اس کے جذبات اور احساسات کا ہمیشہ خیال رکھیں گے اور برے وقت میں اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے افسوس کہ ان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کرنے کے بجائے کشمیریوں کے قاتل مودی کی پذیرائی نے پاکستانیوں کے دلوں کو توڑ دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان اور بحرین کے حکمران محمد بن عیسیٰ الخلیفہ نے اپنے ممالک کے اعلیٰ سول ایوارڈز مودی کو دینے کا وقت بھی وہ منتخب کیا جب وادی کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے انھیں متعدد دنوں سے گھروں میں محبوس کردیا گیا ہے، ہر گھر کے سامنے ایک مسلح فوجی کھڑا ہے جو گھر سے باہر نکلنے والے کشمیری کو گولیوں سے بھوننے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ احتجاج کرنے پر انھیں پیلٹ گنوں سے اندھا کیا جا رہا ہے اور خواتین کو اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزتیں بھی تار تارکی جا رہی ہیں۔
کیا ایک مسلمان کو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دادرسی کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان پر ظلم وستم کرنے والے کی ہمت افزائی کرنا چاہیے؟ یہ تو انسانیت کی تحقیر اور اسلامی بھائی چارے کی کھلم کھلا نفی ہے۔ مودی کشمیر میں اس وقت جو بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ تو آج کی بات ہے مگر اس سے پہلے جب 2002 میں اس نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا اس کا غیروں تک نے نوٹس لیا تھا۔
امریکا نے اسے اپنے ہاں آنے کے لیے ویزہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا مگر کچھ ہی عرصے بعد اسی مسلمانوں کے قاتل کو سعودی حکومت نے اپنا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہی نہیں بلکہ بیش بہا قیمتی تحائف سے بھی نوازا تھا۔ بس جب سے ہی مودی سمجھ گیا تھا کہ مسلمان آپس میں منتشر ہیں وہ اپنے مفادات کے تحت چلتے ہیں انھیں نہ اپنے برادر غریب ملکوں کا خیال ہے اور نہ محکوم مظلوم مسلمانوں کا درد ہے۔ اس کے بعد سے مودی کے حوصلے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے گئے اور اسی ترغیب کے تحت اس نے بھارتی مسلمانوں کا شکارکرنا شروع کردیا۔
مودی کے دور حکومت میں یہ حال ہے کہ اگر اس کے غنڈوں کو یہ شک بھی گزرجائے کہ فلاں گھرکے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہے تو اس مسلمان گھر کے مالک کو بی جے پی کے غنڈے مجمع کی شکل میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں اور مرنے سے پہلے اسلام کو برا بھلا کہلواتے ہیں ساتھ ہی بی جے پی شری رام کا نعرہ بھی لگواتے ہیں کیا عرب ممالک تک مودی کی سفاکیت کی یہ خبریں ابھی تک نہیں پہنچی ہیں؟
ایک وقت وہ بھی تھا جب سندھ کے ساحل پر راجہ داہر کے حکم پرکچھ جہازوں کو روک کر ان میں سوار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو بلا قصور جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب ان مظلومین کی خبر دمشق پہنچی حجاج بن یوسف کے حکم سے سندھ پر حملہ کرکے ظالم راجہ داہرکی حکومت کو ہی تاراج کردیا گیا تھا اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ کشمیری مسلمان مرد عورتوں اور بچوں پر مودی نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے مگر عرب اس کی ہمت افزائی کرنے میں پیش پیش ہیں۔
کیا خلیجی حکمراں مودی کو اپنے اعلیٰ ترین اعزازات دے کر اسے ہندوستان کے مسلمانوں اورکشمیریوں پر اور زیادہ ظلم ڈھانے کی ترغیب دینے کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ لگتا ہے اب مسلمانوں میں دینی بھائی چارے کا جذبہ دم توڑ چکا ہے اور اس کی جگہ مالی مفادات نے لے لی ہے۔
ابھی اس وقت جب کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو جاری ہے اور کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں کا ظلم و ستم بھی جاری ہے کہ سعودی حکومت نے نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے اور بھارت کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہاں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ ادھر ایوارڈز دیتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور بحرین کے خلیفہ نے مودی کو یقین دلایا ہے کہ وہ بھارت کی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن مدد کرتے رہیں گے۔
مودی کو ایوارڈز دینے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عربوں کے بااعتماد دوست ہیں اور وہ عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔کشمیر کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ لگتا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمراں یمن کی جنگ میں پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کی سزا دے رہے ہیں جب کہ پاکستان کا ہمیشہ ہی یہ موقف رہا ہے کہ مسلم امہ کو باہم دست وگریباں ہونے کے بجائے اپنے مسائل کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرلینا چاہیے باہمی جھگڑوں سے مسلم ممالک نہ صرف کمزور ہو رہے ہیں بلکہ دشمنوں کے لیے تر نوالہ بن رہے ہیں۔
عربوں کو ایران سے ایک خاص قسم کی پرخاش ہے جو مغربی ممالک کی ایران کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے پروان چڑھی ہے اب یہ غلط فہمیاں باقاعدہ دشمنی کی شکل اختیارکرچکی ہیں۔ پاکستان عربوں اور ایران کے درمیان ہمیشہ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے مگر افسوس کہ دونوں ہی اس سے غیریت برت رہے ہیں۔ خاص طور پر امارات کے حکمراں تو پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے بھارت سے اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ او آئی سی جیسے خالص مسلمانوں کے ادارے میں بھارت کی شمولیت کے لیے کوشاں ہیں۔
گزشتہ دنوں او آئی سی وزرائے خارجہ کے ابوظہبی میں منعقدہ اجلاس میں انھوں نے سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو شریک کراکے پاکستان کے لیے ایک چیلنج کی کیفیت پیدا کردی تھی جس کے نتیجے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنا پڑا تھا۔اس وقت عربوں کی بھارت نوازی صرف پاکستانیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام آزادی پسند عوام کو کھٹک رہی ہے، وہ کشمیر میں مودی کے پیدا کردہ بدترین حالات کے باوجود اسے ایوارڈز سے نوازے جانے پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ملائیشیا کی مشاورتی کونسل برائے اسلامک آرگنائزیشن نے عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دیے جانے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور اسے فی الفور منسوخ کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیروت کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن سماحوید نے ٹیوٹر پر لکھا کہ خلیجی ممالک نے ظالم مودی کو ایوارڈز سے نوازکر انسانی حقوق کو اپنے اقتصادی فوائد پر قربان کردیا ہے۔ عمرخان داؤڑ نے ٹوئیٹر پر لکھا ''ایڈولف ہٹلرکو بھی ایک بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ہٹلر کو امن کے لیے جنگ کرنے والا خدا کا عطیہ کردہ تحفہ اور زمین پر اس کا شہزادہ کہا گیا تھا۔ اسے تو خیر کوئی انعام نہ مل سکا مگر ہٹلر جیسی خصوصیات رکھنے والے مودی کو ضرور کچھ مل گیا۔''
حقیقت یہ ہے کہ اب اسلامی بھائی چارہ ختم ہوچکا ہے اور او آئی سی محض ایک ڈھونگ بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب مسلم امہ کے لیے تڑپنا چھوڑ دے۔ اب نفسا نفسی کا عالم ہے ہر مسلم ملک اپنے مفادات کے تحت کام کر رہا ہے۔ عربوں کی مسلم امہ کے بارے میں سوچ کا اس بات سے بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ تو فلسطینیوں تک کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنے مفادات کے تحت درپردہ اسرائیل سے تعلقات استوارکرچکے ہیں تو پھر کشمیر اور پاکستان کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
مودی کو ایوارڈ دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک کہانی بھی گردش کر رہی ہے کہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دیا جانا ان کی مجبوری تھی اس لیے کہ امارات کی ایک شہزادی شاہی محلوں کے ماحول سے بدظن ہوکر مغربی ممالک فرار ہونا چاہ رہی تھی وہ ایک کشتی میں سوار ہوکر سمندر میں کافی دور تک جا چکی تھی کہ اسے وہاں بھارتی نیوی والے ٹکرگئے اور انھوں نے شہزادی سے پوچھ گچھ کے بعد اسے آگے جانے سے روک دیا اور واپس امارات پہنچا دیا۔ چنانچہ ایوارڈ کا اجرا شہزادی کے معاملے کو صیغہ راز میں رکھنے کی فیس کے طور پر مودی کو دیا گیا ہے نہ کہ اس کی امن پسندی پر۔ (واللہ عالم بالصواب۔)
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان اور بحرین کے حکمران محمد بن عیسیٰ الخلیفہ نے اپنے ممالک کے اعلیٰ سول ایوارڈز مودی کو دینے کا وقت بھی وہ منتخب کیا جب وادی کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے انھیں متعدد دنوں سے گھروں میں محبوس کردیا گیا ہے، ہر گھر کے سامنے ایک مسلح فوجی کھڑا ہے جو گھر سے باہر نکلنے والے کشمیری کو گولیوں سے بھوننے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ احتجاج کرنے پر انھیں پیلٹ گنوں سے اندھا کیا جا رہا ہے اور خواتین کو اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزتیں بھی تار تارکی جا رہی ہیں۔
کیا ایک مسلمان کو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دادرسی کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان پر ظلم وستم کرنے والے کی ہمت افزائی کرنا چاہیے؟ یہ تو انسانیت کی تحقیر اور اسلامی بھائی چارے کی کھلم کھلا نفی ہے۔ مودی کشمیر میں اس وقت جو بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ تو آج کی بات ہے مگر اس سے پہلے جب 2002 میں اس نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا اس کا غیروں تک نے نوٹس لیا تھا۔
امریکا نے اسے اپنے ہاں آنے کے لیے ویزہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا مگر کچھ ہی عرصے بعد اسی مسلمانوں کے قاتل کو سعودی حکومت نے اپنا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہی نہیں بلکہ بیش بہا قیمتی تحائف سے بھی نوازا تھا۔ بس جب سے ہی مودی سمجھ گیا تھا کہ مسلمان آپس میں منتشر ہیں وہ اپنے مفادات کے تحت چلتے ہیں انھیں نہ اپنے برادر غریب ملکوں کا خیال ہے اور نہ محکوم مظلوم مسلمانوں کا درد ہے۔ اس کے بعد سے مودی کے حوصلے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے گئے اور اسی ترغیب کے تحت اس نے بھارتی مسلمانوں کا شکارکرنا شروع کردیا۔
مودی کے دور حکومت میں یہ حال ہے کہ اگر اس کے غنڈوں کو یہ شک بھی گزرجائے کہ فلاں گھرکے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہے تو اس مسلمان گھر کے مالک کو بی جے پی کے غنڈے مجمع کی شکل میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں اور مرنے سے پہلے اسلام کو برا بھلا کہلواتے ہیں ساتھ ہی بی جے پی شری رام کا نعرہ بھی لگواتے ہیں کیا عرب ممالک تک مودی کی سفاکیت کی یہ خبریں ابھی تک نہیں پہنچی ہیں؟
ایک وقت وہ بھی تھا جب سندھ کے ساحل پر راجہ داہر کے حکم پرکچھ جہازوں کو روک کر ان میں سوار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو بلا قصور جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب ان مظلومین کی خبر دمشق پہنچی حجاج بن یوسف کے حکم سے سندھ پر حملہ کرکے ظالم راجہ داہرکی حکومت کو ہی تاراج کردیا گیا تھا اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ کشمیری مسلمان مرد عورتوں اور بچوں پر مودی نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے مگر عرب اس کی ہمت افزائی کرنے میں پیش پیش ہیں۔
کیا خلیجی حکمراں مودی کو اپنے اعلیٰ ترین اعزازات دے کر اسے ہندوستان کے مسلمانوں اورکشمیریوں پر اور زیادہ ظلم ڈھانے کی ترغیب دینے کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ لگتا ہے اب مسلمانوں میں دینی بھائی چارے کا جذبہ دم توڑ چکا ہے اور اس کی جگہ مالی مفادات نے لے لی ہے۔
ابھی اس وقت جب کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو جاری ہے اور کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں کا ظلم و ستم بھی جاری ہے کہ سعودی حکومت نے نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے اور بھارت کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہاں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ ادھر ایوارڈز دیتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور بحرین کے خلیفہ نے مودی کو یقین دلایا ہے کہ وہ بھارت کی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن مدد کرتے رہیں گے۔
مودی کو ایوارڈز دینے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عربوں کے بااعتماد دوست ہیں اور وہ عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔کشمیر کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ لگتا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمراں یمن کی جنگ میں پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کی سزا دے رہے ہیں جب کہ پاکستان کا ہمیشہ ہی یہ موقف رہا ہے کہ مسلم امہ کو باہم دست وگریباں ہونے کے بجائے اپنے مسائل کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرلینا چاہیے باہمی جھگڑوں سے مسلم ممالک نہ صرف کمزور ہو رہے ہیں بلکہ دشمنوں کے لیے تر نوالہ بن رہے ہیں۔
عربوں کو ایران سے ایک خاص قسم کی پرخاش ہے جو مغربی ممالک کی ایران کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے پروان چڑھی ہے اب یہ غلط فہمیاں باقاعدہ دشمنی کی شکل اختیارکرچکی ہیں۔ پاکستان عربوں اور ایران کے درمیان ہمیشہ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے مگر افسوس کہ دونوں ہی اس سے غیریت برت رہے ہیں۔ خاص طور پر امارات کے حکمراں تو پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے بھارت سے اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ او آئی سی جیسے خالص مسلمانوں کے ادارے میں بھارت کی شمولیت کے لیے کوشاں ہیں۔
گزشتہ دنوں او آئی سی وزرائے خارجہ کے ابوظہبی میں منعقدہ اجلاس میں انھوں نے سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو شریک کراکے پاکستان کے لیے ایک چیلنج کی کیفیت پیدا کردی تھی جس کے نتیجے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنا پڑا تھا۔اس وقت عربوں کی بھارت نوازی صرف پاکستانیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام آزادی پسند عوام کو کھٹک رہی ہے، وہ کشمیر میں مودی کے پیدا کردہ بدترین حالات کے باوجود اسے ایوارڈز سے نوازے جانے پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ملائیشیا کی مشاورتی کونسل برائے اسلامک آرگنائزیشن نے عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دیے جانے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور اسے فی الفور منسوخ کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیروت کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن سماحوید نے ٹیوٹر پر لکھا کہ خلیجی ممالک نے ظالم مودی کو ایوارڈز سے نوازکر انسانی حقوق کو اپنے اقتصادی فوائد پر قربان کردیا ہے۔ عمرخان داؤڑ نے ٹوئیٹر پر لکھا ''ایڈولف ہٹلرکو بھی ایک بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ہٹلر کو امن کے لیے جنگ کرنے والا خدا کا عطیہ کردہ تحفہ اور زمین پر اس کا شہزادہ کہا گیا تھا۔ اسے تو خیر کوئی انعام نہ مل سکا مگر ہٹلر جیسی خصوصیات رکھنے والے مودی کو ضرور کچھ مل گیا۔''
حقیقت یہ ہے کہ اب اسلامی بھائی چارہ ختم ہوچکا ہے اور او آئی سی محض ایک ڈھونگ بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب مسلم امہ کے لیے تڑپنا چھوڑ دے۔ اب نفسا نفسی کا عالم ہے ہر مسلم ملک اپنے مفادات کے تحت کام کر رہا ہے۔ عربوں کی مسلم امہ کے بارے میں سوچ کا اس بات سے بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ تو فلسطینیوں تک کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنے مفادات کے تحت درپردہ اسرائیل سے تعلقات استوارکرچکے ہیں تو پھر کشمیر اور پاکستان کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
مودی کو ایوارڈ دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک کہانی بھی گردش کر رہی ہے کہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دیا جانا ان کی مجبوری تھی اس لیے کہ امارات کی ایک شہزادی شاہی محلوں کے ماحول سے بدظن ہوکر مغربی ممالک فرار ہونا چاہ رہی تھی وہ ایک کشتی میں سوار ہوکر سمندر میں کافی دور تک جا چکی تھی کہ اسے وہاں بھارتی نیوی والے ٹکرگئے اور انھوں نے شہزادی سے پوچھ گچھ کے بعد اسے آگے جانے سے روک دیا اور واپس امارات پہنچا دیا۔ چنانچہ ایوارڈ کا اجرا شہزادی کے معاملے کو صیغہ راز میں رکھنے کی فیس کے طور پر مودی کو دیا گیا ہے نہ کہ اس کی امن پسندی پر۔ (واللہ عالم بالصواب۔)