افریقی تارکین وطن کی یورپی بندرگاہوں پر یلغار
غریب اور نادار ملکوں کے شہریوں کا ترقی یافتہ ملکوں میں جانے کا سفر زندگی اور موت کی بازی ہوتی ہے۔
ڈیڑھ سو سے زائد افریقی تارکین وطن اگلے روز زبردستی اسپین کے سمندر پار خود مختار علاقے سیوٹا میں داخل ہوگئے جب کہ تقریباً ساڑھے پانچ سو تارکین وطن یونان کے ساحل پر اتر گئے ہیں۔ گو سمندری راستے سے یورپ آنیوالے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوگئی ہے تاہم جنوبی یورپی ممالک پر تارکین وطن کی آمد کا دباؤ بدستور موجود ہے۔
ادھر خیراتی جہازوں کے ذریعے لیبیا کے ساحل پر پہنچنے کی کوشش کرنیوالوں کو اٹلی کی بندرگاہوں تک پہنچنے سے روک دیا گیا کیونکہ سخت گیر اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی Matteo Salvini نے ان تمام تارکین وطن کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 46,500 لوگ بحیرہ روم کو عبورکر کے یورپ پہنچ گئے مگر 9 سو سے زائد افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔اس قسم کے حادثات کی وجہ سے تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی ہو گئی ہے کیونکہ گزشتہ سال 68 ہزار افراد نے یہ سمندری راستہ عبور کیا تھا جن میں سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سمندری لہروں کی نذر ہو گئے لیکن جنوبی یورپی ممالک کو ابھی ان تارکین وطن کا بوجھ بدستور برداشت کرنا ہو گا۔
اگلے روز اسپین کی ڈپٹی پرائم منسٹر کارمن کالوو نے کہا کہ یورپ کو ان تارکین وطن کے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لیے زیادہ تیزی سے اقدامات کرنے ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک کے پاس سمندری بندرگاہیں نہیں انھیں اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ تارکین وطن کی اکثریت افریقی صحارا سے آ رہی ہے جب کہ گنی سے آنے والوں کی بھی اکثریت ہے۔ سیوٹا اور می لیلہ ہسپانوی خود مختار علاقے ہیں جہاں تارکین وطن اترتے ہیں۔
تارکین وطن کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس سال یورپ آنے والے تارکین کی تعداد میں کم از کم 18 فیصد کمی آئی ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ تارکین وطن نے سرحد پر لگائی جانیوالی برقی تاروں کو عبور کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ان تاروں میں بجلی کا کرنٹ بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ غریب ملکوں سے تارکین وطن اسپین تک پہنچ کر اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کا سوچتے ہیں مگر اسپین ان تاریکن وطن کو زبردستی مراکش تک واپس بھجوا دیتا ہے۔
گزشتہ اگست میں اسپین نے 116 تارکین وطن کو زبردستی واپس بھجوا دیا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تاہم امسال آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اس کا ابھی اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ 540 تارکین وطن کے ہمراہ 240 بچے بھی تھے، یہ لوگ 13 کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچے جو انھوں نے ترکی سے حاصل کی تھیں۔
غریب اور نادار ملکوں کے شہریوں کا ترقی یافتہ ملکوں میں جانے کا سفر زندگی اور موت کی بازی ہوتی ہے ، اتنے خطرات کے باوجود لوگ اپنے اہل وعیال کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہوکر خطرناک گہرے سمندری پانیوں میں اتر جاتے ہیں جن میں سے کچھ منزل تک پہنچ جاتے اور کچھ سمندر میں ڈوب کر پانی کی مخلوق کا رزق بن جاتے ہیں۔
ادھر خیراتی جہازوں کے ذریعے لیبیا کے ساحل پر پہنچنے کی کوشش کرنیوالوں کو اٹلی کی بندرگاہوں تک پہنچنے سے روک دیا گیا کیونکہ سخت گیر اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی Matteo Salvini نے ان تمام تارکین وطن کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 46,500 لوگ بحیرہ روم کو عبورکر کے یورپ پہنچ گئے مگر 9 سو سے زائد افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔اس قسم کے حادثات کی وجہ سے تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی ہو گئی ہے کیونکہ گزشتہ سال 68 ہزار افراد نے یہ سمندری راستہ عبور کیا تھا جن میں سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سمندری لہروں کی نذر ہو گئے لیکن جنوبی یورپی ممالک کو ابھی ان تارکین وطن کا بوجھ بدستور برداشت کرنا ہو گا۔
اگلے روز اسپین کی ڈپٹی پرائم منسٹر کارمن کالوو نے کہا کہ یورپ کو ان تارکین وطن کے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لیے زیادہ تیزی سے اقدامات کرنے ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک کے پاس سمندری بندرگاہیں نہیں انھیں اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ تارکین وطن کی اکثریت افریقی صحارا سے آ رہی ہے جب کہ گنی سے آنے والوں کی بھی اکثریت ہے۔ سیوٹا اور می لیلہ ہسپانوی خود مختار علاقے ہیں جہاں تارکین وطن اترتے ہیں۔
تارکین وطن کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس سال یورپ آنے والے تارکین کی تعداد میں کم از کم 18 فیصد کمی آئی ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ تارکین وطن نے سرحد پر لگائی جانیوالی برقی تاروں کو عبور کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ان تاروں میں بجلی کا کرنٹ بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ غریب ملکوں سے تارکین وطن اسپین تک پہنچ کر اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کا سوچتے ہیں مگر اسپین ان تاریکن وطن کو زبردستی مراکش تک واپس بھجوا دیتا ہے۔
گزشتہ اگست میں اسپین نے 116 تارکین وطن کو زبردستی واپس بھجوا دیا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تاہم امسال آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اس کا ابھی اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ 540 تارکین وطن کے ہمراہ 240 بچے بھی تھے، یہ لوگ 13 کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچے جو انھوں نے ترکی سے حاصل کی تھیں۔
غریب اور نادار ملکوں کے شہریوں کا ترقی یافتہ ملکوں میں جانے کا سفر زندگی اور موت کی بازی ہوتی ہے ، اتنے خطرات کے باوجود لوگ اپنے اہل وعیال کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہوکر خطرناک گہرے سمندری پانیوں میں اتر جاتے ہیں جن میں سے کچھ منزل تک پہنچ جاتے اور کچھ سمندر میں ڈوب کر پانی کی مخلوق کا رزق بن جاتے ہیں۔