ہماری تنہائی اور ہم

پاک امریکا تعلقات میں توازن نہ رکھ پانے کی وجہ سے ہم سے چین بھی تحفظات رکھتا ہے۔

ہمارے داخلی اُمور تو قیام ِ پاکستان کے روز ِ اول سے ہی انتشار کا شکار رہے ہیں لیکن عالمی ایشوز بالخصوص مسلم کاز و کشمیر مسئلے پر پاکستانی عوام اپنے تمام تنازعات و کشیدگیوں کو بھول کر ایک پیج پر متحد ہوجاتے تھے ۔

پھر ان مواقع و ایشوز پر واضح موقف نہ رکھنے اور بیرونی آلہ کار بننے کی روش سے ہم قوم کا اتحاد و عالمی سطح پر ایک باوقار و اُصولی ملک والی شناخت بھی بارہا گنواتے رہے ۔ جس کا نتیجہ آج یہ سامنے آرہا ہے کہ ملک میں جہاں صوبائی تضادات کھل کر سامنے آئے ہیں وہیں ملک میں سیاسی ، انتظامی و معاشی اُمور بھی آتش فشاں کی طرح اندر ہی اندر لاوے کی طرح پک رہے ہیں۔

سعودی عرب پاکستان کی جانب سے یمن میں پاک فوج کے نہ بھیجنے پر ناراض ہوا ، جس کا اثر پاکستان کے بحرین اور یو اے ای کے ساتھ تعلقات پر بھی پڑا ۔ وقتی طور پر یہ ممالک کھنچے کھنچے رہے لیکن پھردھیرے دھیرے اقتصادی، سفارتی وسیاسی اُمور کی بنیاد پر وہ ممالک پٹڑی پر آتے نظر آئے ۔ لیکن وہ خلیجی ممالک کی پالیسی تھی ،اُنہوں نے فنی و افرادی قوت کے حامل کسی دوسرے اہم ملک سے معاملات طے ہونے تک پاکستان کے ساتھ اُمور کو جیسے تیسے کی بنیاد پر چلنے دیا۔

لیکن آج جب خطے کا ایک اہم ملک اور ہمارا حریف بھارت افغانستان و ایران سے بحرین ، یو اے ای اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر کو نہ صرف فنی و ٹیکنالوجی ، تعلیمی و تجارتی سطح پر بھی اُن کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے بلکہ اُنہیںڈیڑھ ارب آبادی والی بڑی منڈی پیش کررہا ہے تو اب خلیجی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے پڑوسی و دوست ممالک بھی ہمارے بجائے کھل کرہمارے اُس حریف کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں ۔

سعودی عرب تو گذشتہ 2برس سے مسلسل پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتا رہا ہے جب کہ ماضی میں یو اے ای اور سعودی عرب و بحرین میں افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے سے پاکستانی پہلے نمبر پر تھے پھر بنگلادیشی، فلپائنی اور چوتھے نمبر پر بھارتی تھے لیکن آج پہلے نمبر پر بھارتی پھر بنگلادیشی ، فلپائنی اور سب سے آخری نمبر پر ہم پاکستانی کھڑے ہیں اور اس میں بھی تنزلی جاری ہے ۔

پاک امریکا تعلقات میں توازن نہ رکھ پانے کی وجہ سے ہم سے چین بھی تحفظات رکھتا ہے ، جس کے اظہار کے طور پر چین 2017میں برک کانفرنس کے متفقہ اعلامیہ میں پاکستان کے خلاف کھڑا نظر آیا اورجب کہ حالیہ کشمیر ایشو اور سی پیک کے اختیارات اورمنصوبے کی وسعت کے معاملے میں سرد مہری ہمارے اور چین کے تعلقات پر سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے ۔ہمارے بین الاقوامی مراسم کثیر الملکی یا کثیر الجہتی نہیں ہوتے بلکہ ہم ان میں بھی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

ہم امریکا سے تعلقات استوار کرتے ہیں تو روس سے کشیدہ کرلیتے ہیں ، ہم چین سے دوستی کرتے ہیں تو امریکا سے کنارہ کش ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اِسی روش کی وجہ سے ہم دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ مضبوط و دیرپا روابط قائم نہیں کرسکے ہیں اور دنیا بھی ہمیں ایسے ہی اپنے مفادات کی تکمیل تک استعمال کرنے کے بعد ہم سے منہ پھیر لیتی ہے ۔

ایک طرف ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ مختلف ممالک کے سربراہوں سے رابطے کرکے کشمیر پر حمایت کی گذارشات کررہے ہیں تو دوسری طرف آج تک اپنا واضح لائحہ عمل و حکمت عملی تک نہیں طے کرپائے ہیں ۔ پھر دنیا کیسے اور کس ایجنڈہ پر اُن کی حمایت کرے ؟ کیا وہ بھی ہمارے ''دور اندیش '' حکمرانوں کی طرح اپنے ملک میں آدھا گھنٹہ کھڑے رہنے جیسی پالیسی کا اعلان کریں ؟

امریکی صدر ٹرمپ سے ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات میں ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش اور ہماری طرف سے اثبات میں سر ہلادینا دراصل ہمارے اپنے ہی 72سالہ موقف سے پیچھے ہٹنے کی بات ہے کیونکہ تاریخی طور پر ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اُسی کی ثالثی میں حل ہونا چاہیے ، لیکن آج ہم ٹرمپ کے ٹریپ کارڈ (Trape Card) والے پتے میں الجھ کر اپنے ہی موقف سے دستبردار ہوگئے ۔ جب کہ جواب میں بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر پر اپنا تاریخی موقف واضح کردیا کہ ''کشمیر اُن کا اندرونی یا دو طرفہ معاملہ ہے ''، یعنی امریکی ثالثی کو مسترد کردیا۔


اس پورے معاملے میں پاکستان کے حکمرانوں و خارجہ عملداروں کی بے عقلی کی دنیا خوب کھِلی اُڑاتی رہی ۔ جب کہ اس تمام صورتحال سے بھیانک نتیجہ یہ نکلا جب کشمیر جل رہا تھا اور یہ ایشو عروج پر تھا تو تمام دنیا نے محض بیانات دینے پر اکتفا کیا ۔ اُس میں بھی خلیجی عرب ممالک نے تو بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیکر کشمیریوں کے خون اور پاکستان کے موقف کو مذاق بنادیا ۔ اُنہیں نہ او آئی سی کی بناوٹ و پلیٹ فارم روک سکا ، نہ اُن میں اسلامی برادرانہ جذبہ ہی جاگا ۔ اس بات سے واضح ہوگیا ہے کہ موجودہ دور معاشی و اقتصادی اُمور کی بنیاد پر نئی صف بندیوں کا ہے۔

اس میں ہر ملک و بلاک کے مفادات علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ اس لیے کسی کے بھی بھروسے اپنے ملکی اُمور کو دوسروں کے بیانیے اور مفادات کی نذر مت کرو، یہاں تک کہ ملکی نادیدہ قوتوں کے حق میں بھی پالیسیاں نہ بناؤ بلکہ ملک میں عوامی مفادات کی بناء پر داخلی و خارجی اُمور پر پیش بندی کرکے جمہوری طور پر اُسے نافذ کرکے اُنہی پر عمل سے ہی ملکی سربلندی ممکن ہوسکتی ہے ۔ ورنہ ایک طرف اقتصادی و سیاسی طور پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے تو دوسری طرف ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی ہوچکا ہے ۔ ملک میں عالمی تجارت سے عالمی کھیلوں تک ، عالمی اتحادوں سے عالمی مصالحتی فورموں تک ، ہم دنیا کی تمام سرگرمیوں و پلیٹ فارموں سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔

ان تمام باتوں کی وجہ ہم خود ہیں ۔ ہم اپنے ملک کے مجموعی مفادات کے تحفظ کے بجائے گروہی مفادات کی پیروی میں آئینی پلیٹ فارم پارلیمنٹ سے ہٹ کر پالیسیاں بناتے ہیں ، پھر اُن مفادات کے تحفظ کے لیے تمام شعبوں و اداروں کوگروہی بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں ۔ صرف ملک میں داخلی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاسی ، سفارتی ، اقتصادی و تہذیبی اتحادوں میں بھی یہی روش اپناتے ہیں ۔ ان گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے کبھی مذہبی و سوشلسٹ بلاکوں کے مابین تصادم میں آلہ کار بن جاتے ہیں تو کبھی عالمی قوتوں کے پلیٹ فارم سے اپنے ہی مسلمان و پڑوسی بھائیوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں ۔

ہم کبھی لڑھک کر اِس بلاک میں تو کبھی لڑھک کر اُس بلاک میں اور تو اور ایک ملک سے مراسم بنانے کے چکر میں دوسرے ملک کے خلاف طرز عمل دکھاتے نظر آتے ہیں ۔ شاید اسی لیے دنیا ہم پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتی جب کہ ہمیں اپنے مفاد کے لیے دیگر ممالک باآسانی استعمال کرتے ہیں ۔اور اُس کے بدلے ہمارے ملکی مفادات میں معاونت کرنے کے بجائے ہمارے ملک پر مسلط اشرافیہ کے گروہی مفادات میں تعاون کرتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ ہمیں قرضوں و امداد جیسی ہڈیاں ڈالنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ یعنی ملک کو داخلی و خارجی سطح پر سب سے زیادہ نقصان اس نادیدہ قوتوں اور اُن کی پالی ہوئی اشرافیہ سے پہنچ رہا ہے ۔

قیام ِ پاکستان کے بعد ملکی اُمور کو ایک سازش کے تحت قائد اعظم و تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد سے ہٹاکر ایک مفروضے پر مبنی بیانیے کی طرف موڑ دیا گیا ، پھر تمام تر پالیسیاں و اقدامات اُسی بیانیے کے تحت ہونے لگیں ۔ نصاب سے رویوں تک ، داخلی سطح سے خارجی اُمور تک ،قومی و انسانی حقوق تک ، تمام تر شعبوں پر یہ بیانیہ حاوی ہوتا چلا گیا ۔

آج انتہا پسندی و دہشت گردی کے عروج ، بھوک و افلاس سے مرتے بچوں ، تعلیم کے نام پر پھیلی جہالت ، معاشی اصلاحات کے نام پر دیوالیہ ہوتے ملکی خزانے ، ملکی وسائل کی قومیائے جانے کے نام پر لوٹ کھسوٹ ، مضبوط وفاق کی آڑ میں قوموں میں پھوٹ ڈالنے سے وطن کی بنیادوں کو کمزورکرنے ، طاقتور سے بناکر چلنے کی روش سے دنیا بھر کو دشمن بنانے سمیت دیگر تمام اُمور میں ناکامی جیسے 72سالہ عملی تجربوں کے بعد ہم جب بطور قوم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو سوائے محرومیوں ، ناکامیوں اور ذلتوں کے ہمیں اپنی زنبیل میں کچھ نظر نہیں آتا۔

لہٰذا ہمیں سب سے پہلے ملک میں داخلی سطح پر ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے اس پُرفریب بیانیے کو روک کر ملک کو کثیر القومی ملک قرار دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری دیکر ماسوائے دفاع ، کرنسی ، مواصلات اور خارجہ اُمور ، دیگر تمام ریاستی اُمور صوبوں کو منتقل کرکے وفاق اپنی تمام تر توجہ خارجی اُمور اور دفاع کوحقیقی معنوں میں ناقابل ِ تسخیر بنانے پر مرکوز کرے جو کہ پارلیمنٹ میں کھلے بحث و مباحثے کی بنیاد پر تشکیل دینے کے بعد رائج و نافذالعمل پالیسی کے تحت ہو۔ یہ نہ صرف حقیقی جمہوری روایات کے عین مطابق ہوگا بلکہ اس سے عالمی سطح پر ہونیوالے تمام تر پروپیگنڈہ کی بھی عملی نفی ہوگی۔

پھر دنیا اس قومی جمہوری بیانیے کو متنازعہ اور غیر جمہوری بھی نہیں کہہ سکے گی اور پھر ملک کا کوئی بھی حکمران یا نمایندہ اس بیانیے سے انحرافی کی ہمت بھی نہیں کرسکے گا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تمام تر اداروں کو آئین و پارلیمنٹ کے ماتحت رہ کر کام کرنے کا پابند کیا جائے ۔جس کے لیے ملک میں موجود جمہوری قوتوں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور ِ حاضر کی تبدیل شدہ ملکی و عالمی صورتحال کے پیش نظر جدید خطوط پر استوار حقیقی جمہوری روایات پر مشتمل بیانیے کو عام کرنے کی تحریک کا آغاز ہی اس ملک کے حقیقی مفاد و دیرپا استحکام کی جانب پیش قدمی ہے اور یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

آج ہم مذہبی وعالمی ایشوز کو اُبھار کر قوم کو متحد کرنے کی ایک بار پھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ وینٹی لیٹر آخر کب تک چلے گا ۔ کیوں نہیں ہم اپنی صفوں میں داخلی طور پر سراسری و برابری کا حامل حقیقی جمہوری ماحول قائم کرتے اور کیوں نہیں ہم بین الاقوامی سطح پر دیگر ملکوں سے مراسم معتدلی و درمیانہ روی کی بنیادوں پر حقیقی مجموعی ملکی مفادات کی بناء پر استوار کرتے ؟ جس دن ہم نے اُس بیانیے پر نظرثانی کی اُسی دن سے ''قوم ، ملک ، سلطنت ، پائندہ تابندہ '' والی منزل کی طرف ہماری حقیقی پیش قدمی ہوگی ، اور اگر خدانخواستہ ہم اب بھی اس ضروری بنیادی تبدیلی سے آنکھیں چراتے رہے تو پھر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ''سُست ، کاہل قوموں کا انجام تاریخ میں عبرتناک ہوتا ہے ۔۔!''
Load Next Story