ستار کا بندہ

ایدھی کی ایمبولینس تو وہاں سے گزر گئی لیکن عبدالستار ایدھی صاحب کے نام اور کام نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا۔

h.sethi@hotmail.com

میرے پیچھے سے ایمبولینس کے سائرن کی آواز آرہی تھی، بڑی مشکل سے ایدھی ایمبولینس راستہ بنا کر آگے نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو میں نے کچھ دور جا کر اپنی کار سائیڈ پر روکی اور گزشتہ ماہ لندن کی ٹریفک کو یاد کرتے ہوئے جہاں پولیس وین اور ایمبولینس کے سائرن کی آواز آتے ہی تمام ٹریفک فی الفور انھیں راستہ دے دیتی ہے۔ شکر ادا کیا کہ اب ہمارے کار ڈرائیور بھی بہ امر مجبوری ہی سہی ایمبولینس کو گزرنے کا کا رستہ دے ہی دیتے ہیں۔

ایدھی کی ایمبولینس تو وہاں سے گزر گئی لیکن عبدالستار ایدھی صاحب کے نام اور کام نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا۔ ایدھی صاحب کی پیدائش 1928 میں میں بھارتی ریاست گجرات میں ہوئی، وہ میمن فیملی کے فرد تھے۔ ان کی عمر 11 سال تھی جب ان کی والدہ فالج کے مرض میں مبتلا ہوئیں تو وہی ماں کی دیکھ بھال کرتے جب کہ وہ آٹھ سال بستر علالت پر رہ کر انتقال کر گئیں۔ والدہ کی بیماری کا ان کی طبیعت پر بہت اثر تھا۔ ان میں بیمار بے سہارا اور ضرورتمند لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ اسی وجہ سے باوجود مالی تنگی کے شدت اختیار کر گیا تھا۔

تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے اور ایک مارکیٹ میں سیلز مین کا کام کرنے لگے۔ چند سال کے بعد انھوں نے ایک سوسائٹی کی مدد اور تعاون سے فری ڈسپنسری کا اجرا کیا اور ان کی اپیل پر لوگوں نے دو لاکھ روپے چندہ اکٹھا کر کے ان کے قائم کردہ ایدھی ٹرسٹ کے حوالے کیا۔ درحقیقت یہ ایدھی صاحب کے جذبہ کا لوگوں کو نظر آ جانے والا اظہار اور ان پر اعتماد تھا ۔ اگلا پراجیکٹ کراچی میں میٹرنٹی کلینک کا قیام تھا جس کے ساتھ ایک ایمبولینس کی سہولت شامل کر دی گئی تھی۔ ایدھی صاحب کی مالی مدد کی اپیل پر مخیر اور کم آمدنی والے دونوں قسم کے لوگ ان پر اعتماد کرنے لگے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ2009 ء میں کراچی پر فلو وائرس کا شدید حملہ ہوا تو مریضوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت ایک مسئلہ بن گئی۔ انھوں نے مریضوں کی تیمارداری کا بیڑا اٹھایا تو ان کے پاس پیسے نہ تھے۔ لوگوں سے مدد کی اپیل کی تو انھوں نے جو رقم دی اس سے 8x8 فٹ کی زمین خرید کر کمرہ بنایا اور مریضوں کو وہاں رکھا۔ آیندہ چھ سال تک وہ اسی بے سروسامانی میں پیسے کی اپیلیں کر کر کے غریب بیمار بے آسرا لوگوں کی خدمت میں مصروف رہے۔

اسی عرصہ میں انھوں نے ایدھی فائونڈیشن کی بنیاد بھی رکھی اور جھولی پھیلا کر اکٹھی کی گئی رقم سے ایدھی ٹرسٹ قائم کیا جسکی ابتدائی رقم پانچ ہزار روپے تھی۔ اس کا نام بعد میں بلقیس ایدھی ٹرسٹ رکھ دیا گیا۔ اس وقت ایدھی فائونڈیشن پانچ ہزار سے زیادہ بے گھر بچوں کو چھت مہیا کرنے کے علاوہ 50ہزار یتیموں کی نگہداشت کر چکی ہے جب کہ 40 ہزار کے قریب نرسنگ اسٹاف کی ٹریننگ بھی مکمل ہونے کو ہے۔


اسی طرح پورے ملک میں تین سو تین Welfare hubs قائم ہیں جہاں غذائی کچن اور ریکوری ہوم ہیں۔ یہاں بے آسرا خواتین اور بچوں کے نفسیاتی علاج اور دیکھ بھال کا انتظام ہے۔ ایدھی فائونڈیشن کے پاس 24گھنٹے ریسکیو گاڑیوں کا بہترین اسٹاف کا نظام ہے اس وقت فائونڈیشن کے پاس 18 سو ایمبولینس گاڑیاں، 28 ریسکیو boats اور دو عدد ہیلی کاپٹر ہیں جو ایمرجنسی کال پر ہوتے ہیں۔ پاکستان سے باہر ایدھی صاحب کو انتہائی قیمتی انسان بلکہ saint بلایا جاتا تھا۔

ایدھی اپنے استعمال میں ایک Rescue گاڑی رکھتے تھے اور شہر کا چکر بھی لگاتے کہ کسی بھی جگہ مدد کی طلب ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اکثر کسی جگہ ضرور ت مند مل جاتا جسے منزل پر پہنچاتے۔ وہ کسی نہ کسی Poor house جا پہنچتے اور وہاں بچے ہوتے تو ان کے ساتھ گھل مل کر ہنستے کھیلتے۔ 1980 میں بیرون ملک فلاہی کاموں کے دوران انھیں لبنان میں ایک اسرائیلی گروپ نے قابو کر لیا اور بڑی مشکل سے چھوڑا۔ 2006 میں ان پر Toronto میں ایک ایسا ہی وقت آیا اور یہ عرصہ 16گھنٹے تھا۔ 2008 میں ایک امریکی ایئر پورٹ پر انھیں 8 گھنٹے حراست میں رکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ ان مشکلات کے باعث ان کے چہرے کی داڑھی اور غریبانہ لباس رہے ہوں گے۔

مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی اور پر تشدد ماحول میں رنگ نسل عقیدے سے ماورا صرف مدد اور خدمت کو پیش نظر رکھ کر بعض اوقات تہی دامنی کے ہوتے ہوئے ہمہ وقت انسانیت کے جذبے سے سرشار رہنا اور دامے، درمے، قدمے، سخنے انسانوں ہی نہیں تکلیف و بیماری میں مبتلا حیوانوں کی دیکھ بھال تک پیش نظر رکھنا کسی فرشتہ نما انسان ہی کا کام ہے۔ ان کی خوراک سادہ تھی اور اکثر اپنی چارپائی ہی کو ڈائننگ ٹیبل بنا لیتے۔ وہ دعوتوں اور Reception Parties کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیتے اور انھیں Avoid کرتے تھے۔

محترمہ بلقیس فائونڈیشن کے ایک کلینک میں کام کرتی تھیں جس لگن سے وہ اپنے فرائض انجام دیتیں وہ ایدھی صاحب کے علم میں تھا۔ 1965 میں بلقیس اور ایدھی صاحب شادی کے بندھن میں بندھ گئے ان سے دو لڑکوں فیصل ایدھی، قطب ایدھی اور دو لڑکیوں الماس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی ولادت ہوئی۔ دونوں بیٹیاں فری میٹرنٹی سروس اور والدین کے چھوڑ دیئے بچوں کا نظام چلاتی ہیں۔ ایدھی صاحب کے دونوں لڑکے فائونڈیشن کا نظم و ضبط چلانے میں بلقیس ایدھی کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

2013 میں ایدھی صاحب بیمار ہوئے ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا وہ Dialyses پر چلے گئے۔ انھیں گردے کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔ صد افسوس کہ انھیں کڈنی دینے والا نہ مل سکا اور وہ 2016ء میں 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے جسم کے اعضاء ضرورتمندوں کو دیئے جائیں لیکن ان کے کمزور جسم کی وجہ سے صرف Corneas اس قابل تھے کہ Donate ہوسکیں۔

پاکستان آرمی نے انھیں Shield of Honour دیا۔ حکومت کی طرف سے انھیں نشان امتیاز، PAMS کی طرف سے خدمت ایوارڈ، ہیومن رائٹس ایوارڈ جناح سوسائٹی نے جناح ایوارڈ، لینن پیس پرائز، گاندھی امن ایوارڈ، یونیسکو مدن جیت سنگھ پرائز، جب کہ کئی بار ان کا نام نوبل پرائز کے لیے تجویز ہوا۔
Load Next Story