پاک و طیب روزی ’’رزق حلال عین عبادت ہے۔‘‘

اﷲ رب العزت نے ہمارے استعمال اور فائدے کے لیے متعدد نعمتیں پیدا فرمائی ہیں۔

اﷲ رب العزت نے ہمارے استعمال اور فائدے کے لیے متعدد نعمتیں پیدا فرمائی ہیں۔ (فوٹو : ایکسپریس )

اسکرۂ ارض پر بسنے والا ہر انسان اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے شب و روز معاشی تگ و دو کرتا ہے اور بڑی محنت سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیے روزی روٹی کماتا ہے۔ اگر وہ یہ تمام کام احکامات الٰہیہ کے مطابق کرے تو یہ سب عبادت بن جاتے ہیں، لیکن اگر اس کام میں اس نے اسلامی ضابطوں کی پابندی نہیں کی اور انہیں توڑتے ہوئے ناجائز طریقے اختیار کیے یا معاشی جدوجہد کے نام پر دوسروں کے حقوق مارنے شروع کردیے تو یہی کوشش اس کے لیے آخرت میں رسوائی کا سامان بن سکتی ہے۔ ہماری عام زندگی میں پیٹ ہماری توجہ اور ہماری بنیادی جدوجہد کا مرکز ہوتا ہے۔

اسے بھرنے کے لیے ہم سبھی دن رات کام کرتے ہیں، خوب جدوجہد کرتے ہیں اور ایسی روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں جو اﷲ کے حکم کے مطابق ہو یعنی جائز اور درست ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز روزی کمانا کسی بھی انسان کے لیے مشکل یا ناممکن نہیں ہے، کیوں کہ پروردگار عالم نے ایک طرف انسان کو تخلیق فرمایا تو ساتھ ہی اس کی روزی کے وسائل بھی پیدا فرمادیے اور اس کے لیے وہ سہولیات مہیا کردیں کہ انسان عملی کوشش کرکے اس دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔

چناں چہ اﷲ رب العزت نے ہمارے استعمال اور فائدے کے لیے متعدد نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ ہم ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے احکامات الٰہیہ سے نہ ہٹیں اور دی گئی ہدایات کے مطابق ان سے مستفید ہوں۔ اس کے ساتھ یہ تاکید بھی کردی کہ ان نعمتوں پر اپنے پالنے والے رب کا شکر بھی ادا کریں کہ اس نے ہمارے لیے یہ آسانیاں پیدا کیں۔ وہ رب العالمین ہے، اگر چاہتا تو ان چیزوں کو پیدا نہ کرتا تب ہم کیا کرلیتے؟ مگر اسے اپنے تمام بندوں کی بھلائی اور بہبود عزیز ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے کسی دکھ یا تکلیف میں مبتلا نہ ہوں، اس لیے اس نے ان کے لیے نعمتوں کے ڈھیر لگادیے جن سے ایک طرف اہل ایمان مستفید ہوتے ہیں تو دوسری جانب وہ لوگ بھی فیض اٹھاتے ہیں جو اس کے نافرمان ہیں، لیکن رب کی عطا تو سب کے لیے ہے اور اس سے بڑا منصف کوئی نہیں، اس لیے اس کی عنایات سے سبھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خوش نصیب اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور بدنصیبوں کو اس کے شکر کی توفیق ہی نہیں ملتی۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:''اﷲ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی بنائے ہیں، تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔ ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو، وہاں تم ان پر سوار ہوکر پہنچ سکو۔ اور ان پر بھی اور کشتیوں پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو۔ اﷲ اپنی یہ نشانیاں تمھیں دکھا رہا ہے، آخر تم اس کی کن کن نشانیوں کا انکار کروگے۔''
(سورۂ مؤمن، آیت81)

ویسے تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی زندگی میں کچھ اس طرح شامل ہوگئی ہیں کہ اب ان کے بغیر گذارہ ممکن نہیں ہے۔ مگر مذکورہ بالا آیت میں ان چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو انسان کے لیے سراسر فائدے کی چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کا بنیادی مسئلہ کھانے پینے کی فراہمی کا ہے۔ آج ساری دنیا اسی کے لیے بھاگ دوڑ کررہی ہے کہ کسی طرح روٹی کا انتظام کرلے، اور اس چکر میں بعض اوقات، بعض نادان دوست اوقات دوسروں کو پریشان بھی کرتے ہیں، ان سے زیادتی کرجاتے ہیں۔

یہ روٹی اور روزی ہی تو ہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن ہوجاتا ہے، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔ لیکن اس پروردگار نے تو ہمارے لیے سہولیات فراہم کردیں، ہم ہی آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے۔ بے شک، وہ ہمارا پالنے والا اﷲ ہی ہے جس نے ہمارے لیے یہ مویشی پیدا کیے ہیں۔ مویشی اور انسان کا ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے۔ مویشی انسان کے دوست ہیں۔ یہ کھیتوں میں ہل چلانے میں انسان کی مدد کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو قربان کرکے انسان کے پیٹ بھرنے کا سامان کرتے ہیں۔

انہی کے ذریعے انسان کو تازہ اور صحت بخش گوشت ملتا ہے جس سے وہ اپنا اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے اور اس غذا سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ پھر یہی نہیں یہ تمام مویشی سامان لانے لے جانے یعنی باربرداری کا کام کرنے کے علاوہ خود انسان کی سواری بھی بن جاتے ہیں اور انسان ان پر سوار ہوکر کہیں بھی جاسکتا ہے۔ قرآن ہمیں یہی بتارہا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو ان جانوروں اور مویشیوں کے ذریعے ہمیں بہت سے فائدے ملتے ہیں۔ یہ حلال جانور ہمارے کھانے پینے کے بھی کام آتے ہیں، ان سے باربرداری کا کام بھی لیا جاتا ہے اور ان پر سواری بھی کی جاتی ہے۔ کیا انسان کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کی ان عنایات پر اس کا ہر دم شکر ادا کرے؟
بے شک، اسے اپنے رب کا احسان ماننا چاہیے اور اس کے سامنے سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے۔ رب کریم کا اس پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے سواری کے جانور بھی دیے ہیں اور پانی میں چلنے والی کشتیاں بھی۔ یہ دونوں انسان کے لیے آمدورفت کے اچھے ذرائع ہیں اور انسان اپنی صلاحیت کی بنا پر ان سے مستفید ہورہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ سب اﷲ کی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کا سر اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کس کی مجال ہے کہ وہ اس پروردگار عالم کی نشانیوں سے انکار کرے۔ کاش! ہم اپنے رب کی ان نشانیوں کو دیکھیں اور سمجھیں کہ ہمارا رب کس قدر مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔


معلوم ہوا کہ اس دنیا میں انسان کی ساری جدوجہد اس بات کے لیے ہے کہ وہ کسی طرح حلال روزی کمائے، خود بھی یہی کھائے اور اسے اپنے بال بچوں، بہن بھائیوں اور ماں باپ کا پیٹ بھی بھرے۔
یہ کرۂ ارض اور ہماری یہ دنیا جس پر ہم رہتے بستے ہیں اور زندگی بسر کرتے ہیں، یہ اﷲ پاک نے ہمارے مالک نے ہمارے لیے ہی تخلیق فرمائی ہے۔ ساتھ ہی ہمیں اس زمین پر موجود ہر نعمت سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہاں زندگی بسر کرنے کے کچھ اصول بھی بتائے ہیں۔ لیکن انسان نے ان قوانین کو توڑ کر صرف اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا ہے، اس کی اس حرکت کی وجہ سے دوسروں کا استحصال ہورہا ہے۔

راتوں رات دولت مند بن جانے کی دوڑ نے انسان سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔ آج آپ دیکھیے کہ اس بے قراری اور دوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہ مخواہ کی خواہش نے لوگوں کی آمدنیوں اور ان کے روزی میں سے برکت ختم کردی ہے۔ کیا یہ کھلی ناسمجھی نہیں ہے کہ انسان نے اپنی اچھی خاصی اور پرسکون زندگی کو اپنی حرکتوں کی وجہ سے بے سکون کردیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہمارے کھانوں میں سے ذائقہ ختم ہوگیا ہے۔

کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے کھانے کے لوازمات میں بہت زیادہ اضافے کے لیے جو طریقے استعمال کیے ہیں، ان کی وجہ سے اصلیت تو ختم ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو ہمیں اب اپنے کھانوں میں مزہ آتا ہے اور نہ یہ غذائیں ہمیں ضروری توانائی فراہم کرتی ہیں۔ یہی حال ہماری آمدنیوں کا ہے۔ ہم نے بے جا خواہشات کے حصول میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں، ان کی وجہ سے ہماری آمدنیوں میں سے برکت بالکل ختم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے اﷲ پاک نے تو ہمیں ہر طرح کی نعمت سے نوازا ہے، اس کا کرم ہم پر اتنا زیادہ ہے کہ ہم دن رات بھی اس کا شکر ادا کریں تو ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔

اگر ہم اپنی جائز اور حلال آمدنیوں پر اکتفا کریں اور اپنے پالنے والے سے ان میں برکت ڈالنے کی دعا کریں تو وہ رحیم و کریم ہماری دعا ضرور قبول کرے گا، مگر شرط دل سے دعا مانگنے کی ہے، اس سے فریاد کرنے کی ہے۔ اگر انسان ترقی کرنے اور خوش حالی حاصل کرنے کے لیے زیادہ بے چینی اور اضطراب کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پورے سکون اور وقار کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے فریاد کرے تو اسے سب کچھ مل سکتا ہے۔
لیکن آج کل ہو یہ رہا ہے کہ دنیا میں رہنے والے ہر انسان نے اپنی ترقی اور خوش حالی کا پیمانہ یہ مقرر کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح یعنی ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرے، مال و دولت جمع کرے اور اپنے گھر والوں کی گود میں دنیا بھر کے خزانے لاکر ڈال دے، تاکہ اس کے زیر کفالت لوگ خوش ہوجائیں۔

وہ کسی نہ کسی طرح اپنے تمام گھر والوں کی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اس معاملے میں کبھی پیچھے ہٹتا نظر نہیں آتا۔ اگر دیکھا جائے تو اپنے لیے، اپنے بیوی بچوں یا اپنے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے روزی کمانا اور ان کے آرام و آسائش کے لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ لیکن اگر یہ ساری جدوجہد اور کوشش ایک حد میں ہو تو ٹھیک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے پیاروں کے لیے دولت کے حصول میں پاگل ہوجائے اور ان کے لیے آسائشیں حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جائے اور اپنی زندگی کو اس دنیا میں بھی جہنم بنالے اور آخرت میں بھی اپنے لیے ناکامی اور رسوائیاں خرید لے۔

قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد ہورہا ہے:''اے مؤمنو! خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔''
(سورۃ التغابن، آیت6)

اس آیت میں رب العزت نے ہمیں بتادیا کہ ناجائز طریقے سے دولت کمانا کتنا بڑا گناہ ہے، اس کی پاداش میں دوزخ کی آگ میں جلنا ہوگا۔ مگر اس آیت پر غور فرمائیں تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ صرف ناجائز کام کرنے والا ہی آگ میں نہیں جلے گا، بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی یہ سزا ملے گی۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ یہاں ہمیں ایک بہت اہم بات یاد دلائی گئی ہے۔ ہم اپنی اولاد کو، اپنے بیوی بچوں کو اپنی دولت قرار دیتے ہیں اور ان کی خوشیوں کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

لیکن ہماری کتاب الحکمت یعنی قرآن مجید میں صاف صاف بتایا جارہا ہے کہ ہماری یہ اولادیں، یہ بیوی بچے ہمارے لیے آزمائشیں ہیں۔ یعنی پروردگار عالم نے ہمیں ان سے نوازکر ہمارا امتحان لیا ہے۔ اگر ہم اس امتحان میں پورے اترے یعنی ہم نے ان کی صحیح تربیت کی اور انھیں حلال روزی کھلائی تو آخرت میں کامیابی ہوگی، لیکن اگر ہم نے اس اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دی اور اس کے لیے حلال و حرام کی تمیز نہ رکھی تو پھر اپنی اس آزمائش یعنی اہل و عیال کے معاملے میں ہم ناکام ہوں گے اور پھر اس کی سزا سے ہمیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔
Load Next Story