بھتاخوری کا سرطان

پنجاب اور وفاقی دارالحکومت بھی زد پر آ گئے

پنجاب اور وفاقی دارالحکومت بھی زد پر آ گئے۔ فوٹو ڈیزائن: فیضان داؤد

بھتا کے لغوی معنی ایسی اضافی تنخواہ کے ہیں جو ملازمین کو بہ طور خاص دی جائے جب کہ عرف عام میں نظامتی بنیادوں پر سرکاری اہل کاروں (مثلاً پولیس) کے ذریعے، دھونس جما کر یا دھمکی دے کر شہریوں سے وصول کی جانے والی رقم کو بھی بھتا کہتے ہیں۔

کسی بھی منظم گروہ کا تاجروں، دکان داروں وغیرہ سے سالانہ ماہانہ یا روزانہ کی بنیاد پر دھونس سے پیسے وصول کرنا بھی بھتا خوری کہلاتا ہے۔ بھتا خوری کا لفظ کانوں میں پڑتے ہی چشمِ تصور میں روشنیوں کا شہر کراچی گھوم جاتا ہے کیوں کہ اس سماجی ناسور کی پہلی منظم اور کریہ صورت سے سب سے پہلے اسی بدقسمت شہر کو پالا پڑا۔ اس کی انفرادی صورتیں تو خیر کراچی میں پچاس کی دہائی سے سننے میں آتی رہیں، پرانے لوگ ''کالا ناگ'' جیسے کرداروں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے تاہم اسی کی دہائی میں اس سماجی بگاڑ نے نہایت خفیہ مگر انتہائی منظم طریقے سے اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے۔

معمولی رقوم سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج کروڑوں روپے سے تجاوز کررہا ہے بل کہ اب تو غیر ملکی کرنسی یا کسی بھی قیمتی شے کی شکل میں بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی پاکستان کا مالیاتی مرکز ہے، لوگ لمبے چوڑے لفڑوں میں پڑنے کا یارا (افورڈ) نہیں رکھتے اور معاملات کو طول دینے کے بہ جائے آسان راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے اس سرطان کو یہاں کے آب و خاک میں خوب پھل پھول لگے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ٹھکانے بدلتے پرندوں کے ہم راہ اس کا ''زرِگل'' دوسرے شہروں تک بھی اب پہنچ گیا ہے، اب جہاں جہاں زمین اس کے لیے قبول یابی کی صلاحیت رکھتی ہے، وہاں وہاں یہ برگ و بار پانے لگا ہے۔

فیصل آباد اپنی صنعتی ترقی کے باعث ''پاکستان کا مانچسٹر'' کہلاتا ہے۔ یہاں کے ''کن ٹُٹّے'' (بدمعاش) صوبے میں خاص شہرت کے حامل ہیں، یہ لوگ مختلف صورتوں میں بھتا وصولی کے ''کاروبار'' میں مصروف رہے ہیں، اسی طرح لاہور میں ''جگاٹیکس'' کے نام پر بھتا وصولی صدیوں پرانی ہے۔

1960 کی دہائی میں شریف نامی ایک شخص بھتا بٹورتا رہا ہے، اس پر ''جگا گجر'' نامی فلم بھی بنائی گئی جس میں وہ لوک گیت بھی ڈال دیے گئے جو اصلی جگا کے لیے کہے گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اِس جگے کو ایک سابق گورنر کے حکم پر گولی مار دی گئی تھی۔ اب اس شہر میں طالبان کے نام پر بھتا وصولی کی وارداتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ ملتان، گوجرانوالہ اور بلوچستان کے شہر چمن میں بھی یہ شر سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ شہر ایسے شہروں کی ذیل میں آتے ہیں جہاں اکھاڑوں کے ناکام پہلوان یا بڑے ہاتھ پاؤں والے لوگ اس طرح یا اس سے ملتی جلتی سماج دشمن کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔



اور اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راول پنڈی کو بھی نظر لگ گئی ہے۔ راول پنڈی میں بھی بھتے کی ایک پرانی صورت یہ تھی کہ یہاں کے ''نام ور'' منشیات فروش اور جوئے کے اڈے چلانے والے بااثر افراد پولیس، پولیس کے ٹاؤٹوں اور چھوٹے موٹے ڈنڈے مار قسم کے لوگوں کو اپنے اثر میں رکھنے کے لیے کبھی ''نال'' کبھی ''پتی'' کے نام پر ہڈی ڈال دیا کرتے تھے، یہ سلسلہ شہر کے منشیات فروش اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پولیس اہل کار ان لوگوں سے روزانہ کا رزق وصول کرتے ہیں، ہے تو یہ بھی بھتے ہی کی ایک شکل، لیکن اس میں دونوں طرف ''حرام خور'' ہی ہوتے ہیں۔

یہاں ''طالبانی بھتے'' کا نام سوات آپریشن کے کچھ عرصے بعد سنائی دینے لگا اور اس کا دبے الفاظ میں تذکرہ وہ لوگ کرنے لگے جو دیر اور باجوڑ سے نامساعد حالات کے باعث عارضی طور پر راول پنڈی میں آئے اور یہاں کاروبار کے بہتر مواقع دیکھ کر مستقل ٹِک گئے۔ یہ لوگ اس سے قبل جب اپنے علاقوں میں مقیم تھے تب بھی شاید طالبان یا سابق مجاہدین کو ''مخلصانہ ادائیاں'' کرتے رہے ہیں، اب جب یہ یہاں آباد ہوچکے ہیں تو وہی لوگ ان کے پیچھے پیچھے یہاں بھی پہنچ گئے۔ ان پختون پناہ گزینوں کو بھتاخور جان اور کاروبار کا تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس کے عوض لاکھوں روپے کی رقوم بٹور لے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں اس لعنت کا آغاز ہی لاکھوں اور کروڑوں سے ہوا ہے۔ پہلے پہل کچھ کُھدبُد سی ہوئی پھر اِدھر اُدھر سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ان سرگوشیوں میں بھتے کا لفظ اور اسلام آباد کی سبزی منڈی کا ذکر ایک ساتھ آنے لگا اور ہوتے ہوتے یہ وائرس دارالحکومت کے بااثر حلقوں تک پہنچا تو خبریں باہر آنے لگیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے نام سے ان لوگوں کو آئے دن ''دھمک دار'' خطوط اور فون آ رہے ہیں جن میں بھاری رقوم کے مطالبات درج ہوتے ہیں جن کی عدم ادائی پر سنگین نتائج کی دھمکی بھی درج ہوتی ہے۔

یہ سنگین نتائج جان سے مار دینا یا اغوا وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر خطوط اور فون کالز مبینہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے ہوتی ہیں۔ طلب کی گئی رقوم اکثر اوقات ڈالرز اور دیگر غیرملکی کرنسیوں میں وصول کی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 2008 سے اب تک اس مد میں 3 ارب روپے بھتے میں ادا کیے جا چکے ہیں۔ اب یہ سچ مچ ٹی ٹی پی ہی کی کارستانی ہے یا دوسری کالعدم تنظیمیں کام دکھا رہی ہیں یا جرائم پیشہ افراد ان تنظیموں کا نام استعمال کرتے ہیں یا پھر یہ سب ہی اس میں ملوث ہیں، تحقیقات جاری ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیمیں تحریکِ طالبان کو زندہ رکھنے کے لیے بڑے شہروں سے بھتے کی صورت میں رقوم جمع کرکے بھیجتی ہیں۔ یہ بھتے کبھی بہ راہِ راست اور کبھی اغوا برائے تاوان کی صورت میں وصول کرتی ہیں۔ تفتیش کاروں نے بتایا ہے کہ وہ اب تک 78 ایسے بھتاخوروں کو حراست میں لے چکے ہیں جو اسلام آباد اور کراچی کے تین مقامات پر مصروفِ عمل تھے۔ کراچی میں فوج کی مدد سے کی گئی ان کارروائیوں کے باعث تحریک طالبان کو شدید دھچکا لگا ہے سو اب انہوں نے راول پنڈی اور اسلام آباد میں اپنا نیا نیٹ ورک قائم کر لیا ہے۔

نفاذ قانوں کی ایجنسیوں اور وزارتِ داخلہ کے مطابق وہ پولیس کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کر رہے ہیں تاہم فی الحال چند فرنٹ مین پکڑے جا سکے ہیں جو ٹی ٹی پی کے لیے کام کر رہے تھے۔ ایک پولیس افسر نے بتایا ہے کہ ان گرفتار شدگان نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بھتے اور اغوا برائے تاوان کی رقوم قبائلی علاقوں میں موجود تربیتی کیمپوں کو بھیجی جاتی ہیں جہاں دہشت گردی کے حوالے سے منصبے بندیاں کی جاتی ہیں۔

سابق آئی جی اسلام آباد بنیامین خان نے صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اس طرح کی صورتِ احوال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم لوگ جان کے خوف سے پولیس سے رابطہ کرنے کے بہ جائے خود ہی معاملے سے خفیہ خفیہ نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جڑواں شہروں میں ایک سابق وفاقی وزیر، پی ایم ایل (ن) کے ایک رہ نما، خیبر پختون خوا کے ایک وزیر سمیت متعدد صنعت کاروں، بڑے تاجروں ستاست دانوں اور وزراء کو بھتوں کی دھمکی آمیز پرچیاں، خطوط اور موبائل پیغامات موصول ہو چکے ہیں۔

ان بھتاخور تنطیموں یا افراد کی آماج گاہیں زیادہ تر اندرونِ افغانستان، وزیرستان یا پاک افغان سرحد کے قریب واقع ہیں۔ سیکیوریٹی ایجنسی (سی آئی اے) کے مطابق حال ہی میں گرفتار کیے گئے تین بھتاخور تفتیش کے دوران پھوٹے کہ وہ سخاکوٹ (صوابی) سے کارروائیاں کرتے ہیں۔یہ بھتاخور اتنی بڑی بڑی رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک بار تو سن کر روح ہی فنا ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر اسی سال ماہِ مئی میں ایک گھی مل کے مالک شیخ عبدالوحید کو اغوا کیا گیا جس کی رہائی کے لیے 70 کروڑ روپے مانگے گئے، اس پر باقاعدہ مول تول ہوتا رہا اور بالآخر سودا 7 کروڑ روپے پر پٹا اور شیخ صاحب 25جون کو رہا ہوئے۔

ایک دھمکی آمیز خط کا نمونہ

اسلام آباد کے جناح ایونیو پر واقع Three-Tower Business centre کے مالک کو مسلسل دھمکی آمیز خطوط ملے تاہم انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر نظرانداز کیے رکھا، آخر 5 مئی کو انہیں ایک ''حتمی تنبیہ'' ملی، ذرا ملاحظہ ہو!

''میں اپنا تعارف پہلے ہی کرا چکاہوں، میرا نام گوہر علی آغا ہے، میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے فنانس کے شعبے کا انچارج ہوں لیکن یہ (سیدھی سی) بات تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی۔ یہ (بھتے کی وصولی کا) فیصلہ صرف میرا نہیں ہے بل کہ اسے تنظیم کے تمام کمان داروں اور سپریم کونسل کی تائید حاصل ہے، جسے تم سراسر نظرانداز کر رہے ہو۔ تمہارے کاروباری مخالفین نے ہمیں بارہا بھاری رقم کی پیش کش کی ہے کہ تمہیں، تمہارے خاندان اور بزنس کو برباد کردیا جائے تاہم ہم تمہارے ذاتی معامات میں نہیں پڑنا چاہتے البتہ ایک بار پھر تم سے درخواست کرتے ہیں کہ تحریکِ طالبان کی کھلے دل سے مدد کرو، تحریک اس مدد کو خفیہ رکھے گی۔



ہم تمہیں مطلع کرتے ہیں کہ ہم تمہارے خاندان اور تمہارے کاروبار پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، ہم تمہارے دشمنوں سے دور رہنا چاہتے ہیں اور انہیں تم سے بھی دور رکھے ہوئے ہیں، ہم نے تم سے پچھلی بار بھی درخواست کی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر ہمارے لیے 10ملین (ایک کروڑ) ڈالر کا بندوبست کرکے ہم سے ای میل پر رابطہ کرو، جس میں ہم تمہیں اپنے بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات دیں گے۔ اب یہ تمہاری صواب دید پر ہے، چاہو تو ہماری درخواست رد کردو تاہم یہ ذہن میں رہے کہ پھر نتائج کے ذمہ دار تم ہی ہوگے، ہم تمہارا کیس ٹی ٹی پی کے ایک اور شعبے کے حوالے کر دیں گے۔

وہ تم سے کیسے نمٹے گا اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔ میں تم کو بتائے دیتا ہوں کہ ''جہادی'' تمہارے علاقے میں داخل ہو چکے ہیں اور انہیں علاقے کو تباہ کرنے کے لیے بس ایک گھنٹا کافی رہے گا۔ (سنو!) سودے کو شفاف رکھنے کے لیے تمام لین دین ''انٹرنیشنل بنکنگ'' کے ذریعے ہوگی۔ اگر تو تم ہمارا مطالبہ پورا کرتے ہو تو ہم تمہاری، تمہارے خاندان اور کاروبار کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تمہارے پشت پر موجود رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ گوہر علی آغا؛ فنانس ونگ، تحریکِ طالبان پاکستان دبئی۔۔۔ عرب امارات۔''۔

اب یہ خط پڑھ کر ایک سوال اٹھتا ہے کہ ٹی ٹی پی دبئی میں کھلے عام یہ غیرقانونی کیسے کر رہی ہے اور وہاں کی حکومت اپنی سرزمین پر یہ سب کچھ کیسے برداشت کیے ہوئے ہے اور پھر بھتے یا تاوان کی یہ بڑی بڑی رقوم وہاں کے بنک کیسے وصول کرسکتے ہیں؟۔

ایک وکیل کو ایک خط کچھ اس طرح کا موصول ہوا ہے ''بیت اللہ محسود کے 180000پیرو مجاہدین افغانستان اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے مسلم دشمن قوتوں سے برسرپیکار ہیں، ان کے کھانے کے اخراجات 29 لاکھ روپے روزانہ ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ ان مجاہدینِ اسلام کے دو دن کے اخراجات آپ برداشت کریں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں''۔ر اس طرح کے ان گنت خطوط اور کالیں ان جڑوان شہروں میں وزیروں، سیاست دانوں، تمباکو کے تاجروں، ارکانِ پارلیمان، معروف وکلا اور دیگر صاحبِ حیثیت افراد اور خاندانوں کو موصول ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ان میں سے بہت کم افراد نے پولیس سے رابطہ کیا، جس پر سی آئی اے نے تفتیش کے جدید طریقے استعمال کیے اور پایانِ کار منبع کی نشان دہی وزیرستان میں ہوئی۔ یہ معلوم ہونے کے بعد ادارے نے نظر کھلی رکھی اور تین افراد کو ایسے موقع پر گرفتا کر لیا جب وہ اسلام آباد میں داخل ہو رہے تھے۔ ان میں سرغنہ ملک عالم خان وزیر ولد عقیب خان وزیر سکنہ سولہ ملک شاہی، تحصیل رنمک، شمالی وزیرستان، دوسرا محمد طاہر یوسفزئی ولد غلام حیدر یوسفزئی، سکنہ غنڈو پایان، سخاکوٹ، ضلع مالاکنڈایجنسی اور تیسرا مکمل شاہ قاسم خیل ولد محمد زرین قاسم خیل، سکنہ شنگش، ورھی، اپر دیر شامل ہیں۔

عدالت کا استفسار۔۔۔کون کون مستفید ہوتا ہے؟

عدالت میں جب بھتا خوری کے خلاف درخواست دی گئی تو اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ نے ایکشن لیا اور پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے علاقے سبزی منڈی سے تیرہ بھتاخور پکڑے، دہشت گردی کی عدالت نے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے 23 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے بھتاخوری کے خلاف کیے گئے اقدامات پر رپورٹ مرتب کر کے 18 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی پیش کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھتاخوری کے خلاف کیس کی سماعت کی ۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق سبزی منڈی میں چوکی داری کے نام پر بھتے کی وصولی ختم کرا دی گئی ہے، بھتاخور گروہوں کے خلاف مقدمات درج کر کے 28 ملزمان نام زد کیے گئے ہیں، سات بھتاخوروں کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے جب کہ بھتاخوروں کی پشت پناہی کرنے والے 4 پولیس اور 2 سی ڈی اے اہل کار بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں، 3 ملزموں نے مقدمے میں عبوری ضمانت کرا رکھی ہے۔

بھتاخوری کیس میں ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور چیئرمین سی ڈی اے کی مشترکہ رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھتا خوری کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی نے استفسار کیا کہ بتایا جائے بھتا وصول کرکے کس اتھارٹی تک پہنچایا جاتاہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ انتظامیہ، سیاسی شخصیات میں سے وہ کون کون سے لوگ ہیں، جو بھتے سے مستفید ہوتے ہیں؟ پولیس بتائے کس لیے سی ڈی اے افسران کومفت سبزیاں اور فروٹ بھجوائے جاتے ہیں؟ عدالت نے مقدمے میں فریق بننے کے لیے سبزی منڈی کے 10 سے زیادہ دکان داروں کی درخواست منظور کرتے ہوئے آئی جی پولیس سے 4 اکتوبر تک نئی رپورٹ طلب کی ہے۔


اسلام آباد پولیس کے سربراہ سکندرحیات نے، جنہیں پاکستان کی پولیس سروس میں انتہائی نیک نام قرار دیے جاتے ہیں اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان دیا ہے کہ صرف سبزی منڈی سے ماہانہ پچاس لاکھ روپے کے قریب بھتا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ عدالت نے ایس ایچ او تھانہ سبزی منڈی سے بھی آئندہ سماعت تک رپورٹ طلب کی ہے جب کہ یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ رپورٹ کسی بھی رو رعایت کے بغیر تیار کی جائے۔

ایکٹ میں ترامیم کا فیصلہ

اسی عرصے میں وفاقی حکومت نے ٹارگٹ کلنگ، بھتا خوری اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کو انسداد دہشت گردی کے ایکٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترامیم کی جائیں گی تاکہ کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ، بھتاخوری اور اغوا برائے تاوان کے بڑھتے واقعات کو کنٹرول کیا جاسکے، ترامیم سے متعلق موصول ہونے والی نئی سفارشات کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے لیے بنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) میں مسلح افواج، سول فورسز، ایس پی اور خفیہ اداروں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

سفارشات کے مطابق ملزمان کا ٹرائل کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 30 روز کے دوران ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ عدالت میں پیش کرے گی، اگر 30 دنوں میں تحقیقات مکمل نہیں ہوتی تو ابتدائی رپورٹ ہی عدالت میں پیش کی جائے گی اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر ملزم پر مقدمہ چلے گا۔ سفارشات کے مطابق فورسز گرفتار کیے گئے افراد کو متعلقہ تھانے یا صوبائی حکومت کے مقررہ تحقیقاتی افسر کے حوالے کریں گی جب کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور سماعت کو 2 سے زیادہ بار ملتوی بھی نہیں کیا جاسکے گا۔

30 روز میں فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں کیس متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا جائے گا، چیف جسٹس کے پاس کیس کا مناسب فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کے لیے پیش کی جانے والی سفارشات کے مطابق گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے تحفظ کے لیے حفاظتی اسکرینیں نصب کی جائیں گی اور سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ہو سکے گی۔



جائز بھتے؟

ان اقسام میں شامل بھتا لینے اور دینے والے دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں اور یہ عمل امداد باہمی کے ذریعے چل رہا ہوتا ہے۔ جب بڑی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹروں کو اپنی ادویات، مریض کے نسخوں میں لکھنے کے عوض مختلف نوعیت کے قیمتی تحائف پیش کرتیں ہیں تو کسی کو گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ بھی تو بھتا ہے، جو مسیحا اپنے قلم کے زور پر وصول پاتا ہے۔ اسی طرح سرکاری انجنئیرز جب کسی پراجیکٹ کی تیاری مکمل کرتے ہیں تو منصوبے کی کل لاگت میں ایک خاص تناسب سے ان کا حصہ شامل ہوتا ہے تا کہ انجنئیرز کو بد عنوانی سے دور رکھا جائے، دیکھا جائے تو یہ بھی بھتا ہی ہے۔ موجودہ عہد میں خبر دینا ہی صحافت نہیں، خبر روکنا بھی یہ ہی کچھ بن چکا ہے، خبر روکنے کے عوض اگر کچھ طے پا جائے تو یہ بھی بھتے ہی کی ایک شکل بن جاتی ہے۔

بھتا خوری۔۔۔۔ دل لگی

دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ بھتاخوری، نوجوانوں اور بعض نوعمر طالب علموں کے لیے دل لگی کا سامان بن چکی ہے اور تو اور اب تو چوہوں کی طرح جیب کترنے والے کیسہ تراش اور اٹھائی گیرے بھی مونچھوں کو تاؤ دیے شہریوں کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہیں، کوئی بھی ہیکڑی خان خود کو کسی نہ کسی طالبان کا سالہ قرار دے کر آپ کا تیا پانچا کرسکتا ہے اور آپ تین پانچ بھی نہ کر پائیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ طالبان سے وابستہ گروہ اور کالعدم تنظیمیں بھی بھتے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں پیچھے نہیں مگر پولیس اور خفیہ ادارروں کو مسلسل ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ معمولی جرائم پیشہ افراد کالعدم تحریک طالبان کے نام پر دولت مندوں کوڈرا دھمکا کر بھتا وصول کررہے ہیں۔ جب اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) نے طالبان کے نام پر بھتا وصول کرنے والے ایک ملزم کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ طالبان کا نام اس کام میں خوب چلتا ہے۔ ملزم نے اپنے مالک بزنس مین سے طالبان کے نام پر بھتا مانگا تھا اور بھتے کے لیے ''بھتے کی پرچی اور گولی'' لفافے میں رکھ کر بھجوائی تھی۔

ملزم نے اپنا حلیہ طالبان کی طرح بنا رکھا تھا اور اپنے بال اور داڑھی بھی بڑھا رکھی تھی۔ جب اس حوالے سے پولیس حکام سے میڈیا نے رابطہ کیا تو بہت سے دل چسپ اور حیرت انگیز پہلو سامنے آئے۔ محکمۂ پولیس کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چوںکہ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں بھتا خوری کے حوالے سے خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں لہٰذا چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد جو پہلے جیب کاٹنے یا ویرانوں میں لوگوں سے پرس یا موبائل چھیننے جیسی چھوٹی موٹی وارداتیں کیا کرتے تھے، وہ اب بھتا خوری کو ایڈونچر سمجھ کرسامنے آرہے ہیں۔

اہل کار کے مطابق چار چھ لڑکے کسی امیر آدمی یا تاجر کو تاڑ کر اس کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں، پھر فلمی اسٹائل میں انہیں پرچیاں اور لفافوں میں رکھ کر گولیاں ارسال کرتے ہیں، کچھ اپنے آپ کو ''طالبان'' ظاہر کرتے ہیں تو کچھ گینگ وار سے اپنا تعلق بتاکر رقم کا مطالبہ کردیتے ہیں۔

عمومی طور پر شہری ایسی باتوں کے عادی سے ہوگئے ہیں اور اب وہ پولیس یا سیکورٹی اداروں کو اس قسم کی واردات سے مطلع نہیں کرتے اور ان جرائم پیشہ افراد کو رقم دے کر اپنی جان چھڑا لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس سے ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لہذا بھتا خوری کی وارداتوں میں ہر دن دونا اضافہ ہورہا ہے۔ بعض شہریوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب عید الاضحیٰٰ آنے والی ہے لہٰذا بھتے کے مطالبات میں اضافہ ہو جائے گا اور لوگوں سے ان کے جانوروں کے عوض، ان کی قیمتوں کے تناسب سے ''حصہ'' طلب کیاجائے گا ، بہ صورت دیگر ان کے جانوروں کو مارنے کی دھمکیاں مل سکتی ہیں۔

بھتا خوری کے لیے قانون کیوں نہیں؟

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ حکومت قانون سازی کے ذریعے بھتا خوری کو جرم قرار دے۔ اس مقدمے میں انہوں نے اس وقت کی سندھ حکومت سے استفسار کیا تھا کہ بھتاخوری کے انسداد کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟ قانون سازی نہیں ہوگی تو یہ سلسلہ کیسے رکے گا ؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس دور کے آئی جی سندھ واجد درانی کو ہدایت کی تھی پندرہ جولائی سے گرفتار کیے جانے والے افراد کی تفصیلات عدالت کو فراہم کی جائیں۔

پھر ایک اور سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ انہوں نے ساری رات جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ پڑھی، جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ریڑھی والے سے لے کر صنعت کار تک کو تحفظ نہیں ملے گا تو یہ ملک کیسے چلے گا؟ یہ نمبر بنانے کی بات نہیں عدالت لوگوں کو پرامن ماحول دینا چاہتی ہے، حکومت قانون سازی کرے اور بھتاخوری کو جرم قرار دے اور جب تک قانون سازی ہو،گورنر کو کہ کر آرڈیننس جاری کیا جائے۔

بھتا خوروں کے سرکاری معاون

یاد رہے کہ بھتاخوری کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے پولیس اہل کار گْذشتہ پانچ سال سے اسلام آباد کے تھانہ سبزی منڈی میں تعینات تھے۔ گرفتار ہونے والے افراد میں افغانی باشندے شامل ہیں جو اسلام آباد کی فروٹ اور سبزی منڈی سے بھتہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تفتیش کی جائے گی کہ وہ اتنا عرصہ غیر قانونی طور پر کس طرح پاکستان میں ہیں۔ دوسری جانب بھتا خوروں کی مبینہ طور پر پشت پناہی کرنے کے الزام میں گرفتار اسلام آباد پولیس اور وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے پانچ ارکان سے بھی تفتیش جاری ہے۔

ان افراد کی گرفتاری وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر کی گئی تھی۔ انہوں نے بھتا خوروں کی پشت پناہی کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ ان سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا تاہم اْنہیں متعلقہ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ اْن کے خلاف ابھی انکوائری ہو رہی ہے اس لیے یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ملزموں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اس مقدمے میں گرفتار پولیس اہل کار گْذشتہ پانچ سال سے متعلقہ تھانے میں تعینات تھے اور مبینہ طور پر بھتاخوروں سے حصہ وصول کر کے اْن کی پْشت پناہی کرتے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے پراسکیوشن شعبے کے ایک اہل کار کے مطابق اس سال میں اب تک بھتاخوری کے تین مقدمات درج کیے گیے ہیں جب کہ اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت میں بھتا خوری کا ایک مقدمہ بھی درج نہیں ہوا۔

جگا ٹیکس اور بھتا خوری میں فرق

ڈسکہ پنجاب کا معروف شہر ہے، اپنے اردگرد کے تمام شہروں سے دس کوس دور ہونے کے سبب ڈسکہ کا پرانا نام کبھی دس کوس بھی ہوا کرتا تھا جو بگڑتے بگڑتے ڈسکہ ہو گیا۔ ڈسکہ کی اصل شہرت جگت سنگھ جگا ڈاکو ہی تھا، جسے ''پنجاب کا روبن ہڈ'' بھی قرار دیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں اور شاعری میں بہادری کا حامل یہ کردار برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت تھا۔ جگے کی زندگی بارہا فلم کے فیتے پر بھی چڑھ چکی ہے مگر جس اختصار سے اس ٹپے میں اس کردار کی کہانی سنائی گئی ہے، وہ بے مثال ہے

جگا جمیا فجر دی بانگے، تے لوڈے ویلے کھیڈدا پھرے،
جگا جمیا تے ملن ودھایاں، تے وڈا ہو کے ڈاکے ماردا،
جگے ماریا لائل پور ڈاکا تے چھویاں دے پھل ٹٹ گئے،
جگے جٹ دے کبوتر چینے تے ندیوں پار چگ دے،
جگا وڈھیا بوڑھ دی چھانویں، تے نو من ریت بھج گئی،
جے میں جان دی جگے مر جانا تے اک دی تھاں دو جم دی

جگے کی پیدائش چونیاں شہر کے ایک نواحی گاؤں میں ہوئی تھی۔ ڈسکہ میں بڑے بڑے زمین دار آباد تھے اس لیے جگے نے زیادہ تر وارداتیں یہیں کیں، جو ''جگا ٹیکس'' کے نام سے آج تک معروف ہیں۔ جگا ٹیکس اور بھتا ٹیکس میں بنیادی فرق ہے۔ جگا اپنا حصہ بہ بانگ دہل وصول کرتا تھا اور وصولی کے بعد وہ اِس کو فلاحی کاموں میں صرف کرتا تھا جب کہ بھتا خوری کی واردات ہمیشہ چھپ کر کی جاتی ہے اور تخریب کاری اس کی بنیاد ہے۔ بعد میں چھٹ بھیا قسم کے اچکوں اور مقامی بدقماشوں نے بھی یہ وتیرا پکڑا اور اسی جگا ٹیکس کے نام پر کم زور اور عام شہریوں سے بھتاوصولی شروع کردی۔

پنجاب میں یہ نام اب تک استعمال ہورہا ہے۔جگا زندہ تھا تو اُس وقت عام لوگ جگے کی طرف سے وصول کی جانے والی رقم کو برا نہیں سمجھتے تھے جب کہ اشرافیہ اس کو ڈاکے سے تعبیر کیا کرتی تھی۔ بھتاخوری اور جگا ٹیکس میں دوسرا بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ ادا کیا گیا بھتا آخر کار غریب صارف کی ہڈیاں نچوڑ کر واپس نکال لیا جاتا ہے کیوں کہ بھتا ادا کرنے والا سیٹھ اور صنعت کار اس رقم کو اپنی پراڈکٹ کی قیمت میں شامل کرلیتا ہے۔
Load Next Story