ناجائزکاروبار

’’اے ایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ پر نہ کھائو۔‘‘


جس عمل کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو، وہ اسلامی نظریے کے مطابق کیسے ہوسکتا ہے؟ (فوٹو : ایکسپریس)

اسلامی نقطۂ نظر سے تمام چیزوں کا لین دین چاہے کوئی ایک فرد کرے یا کئی افراد مل جل کر کریں، یہ لوگ ایک گھر، ایک شہر، ایک ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، یہ تمام لین دین جائز اور صحیح ہونا چاہیے۔ کسی کا حق ناجائز مارا نہ جائے، دھوکے، فریب عہد و قرار کی خلاف ورزی نہ ہو، چوری، بددیانتی، بے ایمانی، رشوت، جھوٹ، ظلم غرض ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے انسانی کردار پر داغ لگتا ہو۔ ان تمام امور میں اﷲ اور رسول اکرم ﷺ کے احکام و تعلیمات کے خلاف کچھ نہ کیا جائے۔
قرآن کریم نے اس مفہوم کو اس طرح بیان کیا ہے:
''اے ایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ پر نہ کھائو۔'' (سورۃ النساء آیت 29) صرف ایک لفظ ''باطل'' کہہ کر قرآن کریم نے آپس کے تمام مالی معاملات میں ان تمام دروازوں کو بند کردیا جن میں کسی صورت سے بھی بے ایمانی کا پہلو نکلتا ہو۔ اسی طرح اسمگلنگ یا ناجائز طریقے سے مال بھیجنا اور منگوانا یعنی چیزوں کی غیر قانونی طریقے سے درآمد برآمد کرنا بھی اسلام ممنوع قرار دیتا ہے۔ ملکی قوانین سے ہٹ کر چوری چھپے اشیاء کا ادھر ادھر منتقل کرنا ہی اسمگلنگ یا مال کی ناجائز تجارت کہلاتا ہے۔ اس عمل میں اسلامی نظریہ کے تحت بہت سی بری باتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کام سے جھوٹ بولنے کی عادت پڑتی ہے، بلکہ بغیر جھوٹ بولے اس میں کام نہیں چل سکتا۔ اگر کوئی سچ بولتا رہے اور ٹھیک ٹھیک باتیں بتادے تو خود اور اپنی ساتھیوں کو خطرات میں ڈال دے، اس لیے وہ لازمی طور پر جھوٹ بولے گا۔

جس عمل کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو، وہ اسلامی نظریے کے مطابق کیسے ہوسکتا ہے؟ اسلامی زندگی کا بنیادی اصول صدق یعنی سچائی ہے جس سے اشیا کی ناجائز تجارت کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ خدا نے قرآن کریم میں جا بجا جھوٹ بولنے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اس لیے ایسا کام اور ایسی تجارت بھی ناقابل قبول ہوگی جس کے ذریعے سے اسلام کا بنیادی نظریہ 'سچائی' سرے سے ختم ہوجائے اور جس میں ایک جھوٹ نہیں بلکہ سینکڑوں جھوٹ بولنا پڑیں۔ چیزوں کی ناجائز تجارت کرنے والا اس عہد و قرار کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے جو اس نے جائز طور پر ملکی انتظامیہ سے کیا ہے۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ جب عہد کرو تو اسے پورا کرو۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''معاہدہ کو پورا کیا کرو۔''(سورۂ بنی اسرائیل آیت34)

قوانین کی پابندی کا جو عہد آپ نے اپنی حکومت یا ریاست سے کیا ہے، ناجائز کاروبار یا درآمد و برآمد کی صورت میں وہ باقی نہیں رہ سکتا اور جھوٹ بولنے کے ساتھ عہد و قرار کی خلاف ورزی کے بغیر یہ ناجائز کاروبار نہیں چل سکتا۔

اسی طرح اس کاروبار کی ایک بڑی برائی حرص و لالچ ہے۔ اس کام کے کرنے والے کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ترکیب سے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرسکے، چاہے وہ ترکیب ناجائز ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری جانب اسلام حرص و طمع سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:''جو لوگ اپنی طبیعت کے حرص اور لالچ سے بچالیے گئے، وہی کامیاب ہیں۔'' (سورۂ تغابن آیت 16)
اﷲ کی نظر میں اصل کامیابی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان کے عمل میں لالچ اور حرص نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو اسمگلنگ یا ناجائز تجارت کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، اس لیے ایسے ناجائز کاروبار یا درآمد و برآمد کو اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے۔

یہ ایسا کاروبار ہے جو رشوت کے بغیر نہیں ہوتا اور رشوت لینا اور دینا قطعی حرام ہیں۔ اس لیے ایسا کام جو رشوت لینے اور دینے کا سبب بنے قطعاً حرام اور غیر اسلامی ہے۔ اسی طرح اس کاروبار سے بے حیائی کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی عزت اور آبرو کا پاس نہیں رہتا اور وہ سب کچھ نظر انداز کرکے ناجائز کاروبار یا درآمد و برآمد کا کام کرتا ہے، حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کی سزا کیا ہے اور اسے اور اس کے ساتھیوں اور مدد کرنے والوں کو کس طرح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور سزا کی صورت میں کتنی تکلیفیں اور بے عزتی اٹھانی پڑے گی، اس لیے ایسا عمل جس سے انسان کی عزت و آبرو اور زندگی تک خطرے میں پڑجائے، وہ اسلام کی نظر میں کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا۔

معلوم ہوا کہ ناجائز کاروبار یا درآمد و برآمد ایسا عمل ہے جس کی تہہ میں بے شمار برائیاں چھپی ہوئی ہیں جو صرف ایک فرد یا ایک گروہ تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ پورا معاشرہ ان سے متاثر ہوتا ہے اور یہ واحد جرم متعدد سنگین جرائم کی بنیاد اور سبب بن جاتا ہے۔ اس سے انفرادی اور اجتماعی اور سماجی کردار کی جڑیں کٹتی ہیں۔ اس سے دھوکا دینے کی عادت پڑتی ہے اور انسان ہر طرح کے برے کام کھل کر کرنے لگتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں خدا کی مرضی اور اس کے حکم کو مقدم رکھیں اور سچائی کے ساتھ حق کی پیروی کریں۔ اگر ان کسی بھی عمل کی بنیاد اﷲ کے حکم کے خلاف ہوگی تو وہ عمل غیر اسلامی کہلائے گا۔

اس طرح ثابت ہوگیا کہ اسمگلنگ یا ناجائز کاروبار یا درآمد و برآمد اسلامی نقطۂ نظر کے تحت بہت بڑا گناہ و جرم ہے۔ اس ذریعہ سے کمائی ہوئی دولت بھی ناجائز ہے اور اس ذریعے سے لائی گئی تمام اشیاء کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم کا اعلان ہے:''اے رسول! کہہ دو کہ میرے اﷲ نے 'فواحش' یعنی برائی کے تمام کاموں کو جو کھلے ہوئے ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، نیز گناہ اور ناحق زیادتی کو حرام کردیا ہے۔'' (سورۂ اعراف آیت 33)
اس لیے ہمیں چاہیے کہ تجارت بھی کریں اور کاروبار بھی، مگر اس میں نہ تو کوئی معاملہ اسلام کے خلاف ہو اور نہ اس کی وجہ سے خرابیوں اور برائیوں کو فروغ مل سکے۔ بلکہ تجارت بالکل صاف ستھری ہو اور اس میں کوئی بھی کام ایسا نہ ہو جس سے انسان کے کردار اور اس کی عزت پر کوئی حرف آتا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں