بھارتی فوج کی غلط روی

میں پاکستانی میڈیا کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ بھارت کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسی مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی ہے...

مجھے پاکستانی میڈیا کی طرف سے کالز موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں استفسار کیا جاتا ہے کہ کیا بھارتی فوج نے حکومت کو بعض فیصلے کرنے سے روک دیا ہے یا وہ فوج کی مرضی کے خلاف کچھ فیصلے کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ان کی تشویش قابل فہم ہے کیونکہ ان کے یہاں آرمی کی یہی پوزیشن ہے حتیٰ کہ وزیر اعظم نواز شریف جنہوں نے کہا ہے کہ ان کی منتخب حکومت مقتدرہے مگر انھیں بھی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اپنے ایجنڈے کی سپہ سالار سے منظوری لینا پڑتی ہے۔

میں پاکستانی میڈیا کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ بھارت کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسی مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی ہے جہاں پر اصل فیصلے ووٹر کرتے ہیں تاہم ایک مثال کو یاد کر سکتا ہوں کہ جہاں آرمڈ فورسز (اسپیشل) پاورز ایکٹ نافذ ہے جس کے تحت فوج کو محض شبے کی بنا پر کسی کو بھی ہلاک کرنے کی اجازت ہے۔ حکومت ایک کمیشن کی سفارشات کے مطابق اس قانون پر نظرثانی کرنا چاہتی تھی مگر فوج اس پر مصر رہی اور یہ قانون بدستور بغیر کسی ترمیم کے اسی طرح نافذ العمل ہے۔

اس کے سوا میں نے دیکھا ہے کہ بھارتی فوج منتخب حکومت کی تابعدار ہے ممکن ہے یہ فرسودہ بات ہو مگر ہماری فوج غیر سیاسی ہے اور سیاست سے دور رہنے کو ہی اپنا فخر خیال کرتی ہے۔ ممکن ہے فوج کے اجتماعات میں یا کینٹینوں میں ملک کی موجودہ صورتحال پر بحثیں ہوتی ہوں لیکن یہ سب ایک صحت مند روایت کا حصہ ہے جس سے ان کے دل کا غبار نکل جاتا ہے۔

اس کو فوج کی طرف سے شہنشاہیت کی خواہش (بونا پارٹ ازم) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں بعض آرمی چیفس کی طرف سے غلط روی کی بعض مثالوں سے آگاہ ہوں جنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی کوشش کی لیکن صریح حکم عدولی کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ جب بھارت کے ایک مقبول عام آرمی چیف جنرل کے ایس تھمایہ نے استعفیٰ دیا جس کا عوام نے بہت برا منایا۔ لیکن یہ استعفیٰ اصل میں اس وقت کے وزیر دفاع کرشنا منین کے خلاف احتجاج کے طور پر دیا گیا تھا۔

وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مداخلت کی اور جنرل تھمایہ کو استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔ منین بدستور وزارت دفاع میں رہے جب کہ جنرل تھمایہ اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے۔ جنرل کے سندرجی فوجی مشقوں (براس ٹیکس) کے دوران اپنی حدود سے تجاوز کر تے ہوئے اس علاقے میں داخل ہو گئے جو چین اور پاکستان کے ساتھ متنازعہ تھا۔ پاکستان کو اس قدر تشویش ہوئی کہ اس نے اپنے خارجہ سیکریٹری عبدالستار کو نئی دہلی بھیج دیا۔ سندر جی نے فوج واپس نکال لی۔ تاہم وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک آرمی چیف کے منصب پر برقرار رہے۔ فیلڈ مارشل سام مانک شاء (Sam Manekshaw) عوام میں بہت مقبول تھے۔انھیں یہ مقبولیت بنگلہ دیش میں فتح کے بعد ملی۔ حتیٰ کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی ان کی مقبولیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ انھوں نے یہ شکوک و شبہات وزیر اعظم کے ساتھ ایک ملاقات میں یہ کہہ کر دور کر دیے کہا نہیں ایسی فوج کا چیف ہونے پر فخر ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ''آپ اپنا کام کرتی رہیں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔''

تازہ ترین اور بظاہر پُر تشویش مثال جنرل وی کے سنگھ کی ہے جو حال ہی میں بطور آرمی چیف ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ گجرات کے متنازعہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ساتھ ان کے انتخابی جلسے کی اسٹیج پر جا بیٹھے تھے۔ میری خواہش ہے کہ وی کے سنگھ نے سیاست میں چھلانگ لگانے سے قبل کچھ انتظار کر لیا ہوتا۔ جرنیلوں کا سیاست میں آنا کوئی ہرج کی بات نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکا میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ان کے اعلیٰ سطح کے فوجی سربراہان مثلاً ڈگلس میک آرتھر' ڈی وہائٹ ڈی اور آئزن ہاور نے نہ صرف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا بلکہ حسب خواہش پوزیشنیں بھی لیں لیکن دونوں ہی نے جنگ کے تھیٹر سے الیکشن کے پلیٹ فارم پر یکدم دوڑ نہیں لگائی۔ انھوں نے بہت مناسب وقفہ کے بعد ہی انتخابی مبارزت میں حصہ لیا۔ وی کے سنگھ کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انھوں نے ٹیکنیکل سپورٹ ڈویژن کے نام سے ایک یونٹ قائم کیا جس کا کام سرینگر کی حکومت کی مخبری کرنا تھا۔ اس نے اس حکومت کو گرانے کے لیے سیکرٹ فنڈز کا استعمال بھی کیا۔ ایک ٹیلی وژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ آزادی سے لے کر اب تک ریاست جموں اور کشمیر میں ''امن و استحکام'' قائم کرنے کے لیے فوج ہی وہاں کے وزیروں کو رقوم فراہم کرتی رہی ہے۔


سرینگر کی منتخب حکومت کے خلاف مخبری کرنا ایک سنگین الزام ہے۔ حکمران نیشنل کانفرنس کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے تفتیش کا تقاضا بالکل بجا ہے۔ جہاں تک وی کے سنگھ کے اس اعتراف کا تعلق ہے کہ فوج سرینگر میں تمام وزراء کو رقوم فراہم کرتی رہی ہے، اس کی بنا مرکزی حکومت کو بھی عدالت کے کٹہرے میں آنا پڑے گا۔ عمر عبداللہ کی حکومت کو بتانا چاہیے کہ یہ الزام صحیح ہے یا غلط ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اسقدر برہم ہیں کہ انھوں نے سی بی آئی (CBI) سے فوری تفتیش کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وی کے سنگھ کے ایک خصوصی مقصد کے لیے بنائے گئے خصوصی سیل کی بھی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔ وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے پر ''مطلوبہ عمل درآمد'' کرانے کے لیے غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وی کے سنگھ اعلیٰ فوجی افسران کی ان کے خلاف رپورٹ افشا کرنے پر بہت پریشان ہیں۔

یہ رپورٹ ابھی عوام الناس تک نہیں پہنچی لیکن الزامات اسقدر سنگین ہیں کہ ان سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ یہ انکشافات ایک مضبوط جمہوری حکومت کے لیے باعث تضحیک ہیں۔ خفیہ آپریشن دنیا میں ہر جگہ کیے جاتے ہیں۔ ان چیزوں کو کبھی آشکار نہیں کیا جاتا اور متعلقہ اہل کاروں کو یہ معاملات موت تک اپنے سینوں میں مخفی رکھنا چاہیئں حتیٰ کہ ان کا اپنی یادداشتوں کی کتاب میں بھی ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ فوج کو بھی اپنے ریٹائرمنٹ کے قوانین پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ آرمی' ایئر فورس اور بحریہ تینوں کے سربراہوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد دس سال تک کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ فوج کی ملازمت میں رہتے ہوئے وہ یقینی طور پر اتنی شہرت حاصل کر لیتے ہیں کہ اپنے ووٹرز پر اثر انداز ہوسکیں۔ ان تمام چیزوں سے فوج کے غیر جانبداری کے تاثر کو نقصان پہنچتا ہے۔

تاہم وی کے سنگھ کی ذات پوری فوج نہیں۔ وہ ایک آزاد منش انسان ہیں۔ انھوں نے اپنی مدت ملازمت میں ایک سال توسیع کی درخواست تاریخ پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے 'غلط' ہونے کی بنا پر رد کیے جانے پر وزارت عظمیٰ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔

جب انھوں نے اپنی پوری فوجی ملازمت کے دوران اپنی پیدائش کے سرٹیفکیٹ میں ہونے والی 'غلطی' کی 'درستی' کی کوئی کوشش نہیں کی تو انھیں فوج کے سربراہ کے عہدے پر براجمان ہو کر ایسا کرنے کا کوئی حق یا جواز نہیں بنتا تھا۔ وی کے سنگھ مجسم سیاست ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی باڈی لینگوئج بھی اس امر کی مظہر ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں ،اس میں وہ حکومت اور فوج کے مابین بہت سے راز کھولتے چلے جاتے ہیں۔

وی کے سنگھ کی اپنے بارے میں نیکی اور پرہیز گاری کی خود ستائشی قابل فہم نہیں۔ آخر انھوں نے کشمیر میں رقوم کی ترسیل روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ حالانکہ انھوں نے اس عمل کو تیز تر کرنے میں خود اعانت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ کا اپنا ایجنڈا ہے۔ یہ کس طرف اشارہ ہے اور وی کے سنگھ نے انھیں کیوں نہیں روکا؟۔ کسی منتخب حکومت کو گرانا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کی اپنی ساکھ شک و شبے کی زد میں ہے۔ اناہزارے کے ساتھ ان کی حالیہ وابستگی کو بھی طشت از بام کیا جانا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story