درکار ہے ایک آئن اسٹائن اور دس بارہ رسل

پچھلے کالم میں ہم نے کچھ اس قسم کا ذکر کیا تھا کہ چشم بددور ہمارے ٹی وی چینلوں کے پروگراموں کی دھوم تو بہت ہے مگر...


Intezar Hussain September 27, 2013
[email protected]

پچھلے کالم میں ہم نے کچھ اس قسم کا ذکر کیا تھا کہ چشم بددور ہمارے ٹی وی چینلوں کے پروگراموں کی دھوم تو بہت ہے مگر علمی و ادبی حلقے بدستور شاکی بلکہ نالاں چلے آ رہے ہیں کہ ان میں سے کسی چینل پر کبھی کوئی سنجیدہ علمی یا ادبی پروگرام ہوتے نہیں دیکھا گیا۔

اس پر کسی ستم ظریف نے ہمیں یاد دلایا کہ یہ تو وہی شکایت ہے جو اب سے کتنے سال پہلے کشور ناہید نے اپنے کسی کالم میں کی تھی اور جس پر آپ نے کالم باندھا تھا۔ بس ان کے ایک ہی بیان سے آپ دامن بچا کر نکل گئے۔ انھوں نے فلمی گانوں کے مقابلوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ''فلمی گانے سن کر انعام دینے سے تو آئن اسٹائن پیدا نہیں ہوتے۔''

خوب یاد دلایا۔ ویسے تو ہمیں شاید اپنا وہ کالم یاد نہ آتا۔ کیونکہ ٹی وی کے سلسلہ میں علمی و ادبی حلقوں کی یہ شکایت کسی ایک دو ادیبوں دانشوروں تک محدود نہیں تھی اور نہیں ہے۔ یہ دیرینہ شکایت ہے کہ چلی آتی ہے۔ ہاں وہ جو کشور ناہید کا تاریخی فقرہ نقل کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ہمیں اپنا کالم یاد آ گیا۔ بہرحال اچھا یاد دلایا۔ اس وقت تو ہم پوچھ نہیں پائے تھے۔ سو اب پوچھ لیتے ہیں کہ بیشک فلمی گانے سن کر انعام دینے سے تو آئن اسٹائن پیدا نہیں ہوتے۔ پھر کچھ بتائو کہ آئن اسٹائن کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم کشور ناہید کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ کہہ تو دیتے کہ یہ جو فلمی گانوں کی نقالی پر انعامات بانٹنے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اسے بند کیا جائے۔ اس واسطے سے کوئی آئن اسٹائن پیدا نہیں ہو گا۔ مگر یہ کہنے سے پہلے ہماری مٹھی میں آئن اسٹائن پیدا کرنے کا نسخہ ہونا چاہیے۔ ورنہ ہو گا یہ کہ اس قماش کے پروگرام بند ہونے پر وہ جو آج کل ٹوہنے ٹوٹکے کرنے والوں، جھاڑ پھونک سے علاج کرنے والوں، فال نکالنے والوں، صدقوں دعائوں سے ردبلا کرنے والوں کا دور دورہ ہے۔ ان میں سے کوئی آ کر اس خلاء کو پورا کرے گا۔ اور وہ جو اچھے گانوں کی نقالی کے طفیل کوئی سریلی آواز ہمارے کان میں پڑ جاتی ہے یا کسی گیت کا بول سنائی دے جاتا ہے اس سے ہم محروم ہو جائیں گے۔

اے لو، ہمیں اسی حوالے سے اشفاق احمد کی ایک بھلی سی بات یاد آ گئی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان خیر سے اپنی عمر کے پچاس سال پورے کرنے والا تھا۔ ایک تقریب میں اشفاق صاحب تقریر کر رہے تھے۔ افسوس کے لہجہ میں کہنے لگے کہ پاکستان کو قائم ہوئے پینتالیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں۔ اتنے عرصے میں یہاں دس بارہ برٹرنڈ رسل تو پیدا ہو ہی جانے چاہیے تھے۔ مگر ہوئے نہیں۔ سچی بات ہے یہ سن کر ہمیں بھی تعجب ہوا اور افسوس بھی ہوا کہ نصف صدی کیا اب تو پاکستان کو بنے پون صدی گزر چکی ہے مگر رسل نام کی مخلوق پیدا ہوئی نہ کسی آئن اسٹائن کا ظہور ہوا۔ پیدا کون ہوئے۔ خودکش بمبار۔ جو پیدا نہیں ہو سکا اس پر کف افسوس ملنا بے سود ہے۔ باقی یہ کہ پیدا ہونے والے کو پیدا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔

ارے ہاں یاد آیا۔ ہمارے یہاں خودکش بمباروں سے پہلے بھی ایک شے پیدا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام۔ دیکھیے بات سے بات نکلتی ہے۔ کشور ناہید نے آئن اسٹائن کا نام لیا اور اشفاق احمد نے برٹرنڈرسل کا تو ہمیں ڈاکٹر عبدالسلام یاد آ گئے؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مگر ڈاکٹر عبدالسلام ہمیں پچے نہیں۔ وہ تو ہمارے پاکستان کے لیے سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن گئے۔ نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں۔ مگر آخر کو اسے اگلنا ہی قرار پایا۔ اچھا ہی کیا۔ بعض پیدائشیں قوموں کے لیے اچھی خاصی آزمائش بن جاتی ہیں۔ پیدائش کے بعد ایک نیا دردِ زہ شروع ہو جاتا ہے۔ بیچارہ پیدا ہونے والا پیدا ہو کر خود پچھتاتا ہے۔ کسی بھلی سی نظم کا ایک مصرعہ یاد آیا؎

رحمِ مادر سے نکلنا مرا بے سُود ہوا

ہاں یادآیا۔ یہ تو زاہد ڈار کی نظم کا مصرعہ ہے۔ عجب بات ہے۔ یہ مصرعہ تو الکندی کو کہنا چاہیے تھا۔ مگر کہا زاہد ڈار نے اصل میں ابھی پچھلے دنوں ظفر سہیل اپنی تصنیفِ لطیف ''مسلم فلسفہ کا تاریخی ارتقاء: الکندی سے ابن خلدون تک'' ہمارے ہاتھ میں پکڑا گئے۔ ویسے تو ہم محمد کاظم کی لکھی ہوئی ''مسلم فلسفہ کی تاریخ'' پڑھ چکے تھے۔ مگر اس کتاب میں فلسفہ کے فروغ کے ساتھ یہ ذکر بھی ہے کہ ان فلسفیوں کے ساتھ سلوک کیا ہوا ایک نقشہ دیکھیے:

''ایک بزرگ جس کی ڈاڑھی سفید تھی۔ چال میں بلا کی متانت بھی تھی اور چہرے پر وقار تھا۔ جب وہ ہجوم سے بھرے میدان کے بیچوں بیچ پہنچ گیا تو اسے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔ اور جب وہ سر کو ذرا آگے کی طرف جھکا کر بیٹھ گیا تو عامل نے اس کوڑا بردار سیاہ فام چمکتے ہوئے جسم والے حبشی کو آنکھ کا اشارہ کیا۔ اس نے کوڑے کو فضا میں لہرایا ...... جیسے ہی وہ 'کوڑا اس بزرگ کی پیٹھ پر پڑا۔ اس کے منہ سے آہ کی آواز بلند ہوئی اور ہجوم نے خوشی کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیے......یہ ابو یوسف یعقوب ابن اسحق الکندی ہے۔ مسلم دانشوروں کے قافلہ کا پہلا مسافر۔''

ظفر سہیل بتاتے ہیں کہ پھر الکندی نے عوام الناس سے کنارہ کشی کر کے زہد اور خلوت گزینی کو شعار کر لیا۔ تنہائی اور بے خوابی کے اسے دورے پڑنے لگے۔ اسی عالم میں ستر بہتر سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا۔

لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر یہ تھا کہ کشور ناہید اس فکر میں مبتلا ہیں کہ پاکستان میں کوئی آئن اسٹائن کس طرح پیدا ہو۔ اور اشفاق احمد کو اس پر افسوس تھا کہ پاکستان نے خیر سے کم و بیش آدھی صدی گزاری۔ اتنے عرصے میں تو برٹرنڈ رسلوں کی ایک کھیپ پیدا ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر افسوس کہ وہ پیدا نہیں ہوئی۔ ایسی حسرتیں، ایسی آرزوئیں، ایسے ارمان خوب ہیں؎

گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

مگر کچھ اپنی اوقات بھی تو دیکھ لینی چاہیے۔ مطلب یہ کہ ایسی آرزو پالنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ ایسے سپوتوں کو سہارنے کا معاشرے میں حوصلہ کتنا ہے۔ غذا اتنی ہی لینی چاہیے جتنی ہضم ہو سکے۔ غذا جسمانی ہو یا ذہنی۔ یہ نسخہ دونوں صورتوں میں کارآمد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں