66 ویں جنرل اسمبلی اور پاکستان
اقوام عالم کی 66ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے باراک اوباما نے اپنے ملک کی عالمی پالیسی پر 40منٹ لمبی تقریر کی...
اقوام عالم کی 66ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے باراک اوباما نے اپنے ملک کی عالمی پالیسی پر 40منٹ لمبی تقریر کی 'انھوں نے مریکا کی خارجہ پالیسی کے دو ٹوک موقف کا اظہار کیا، ان کی تقریر میں مشرق وسطیٰ پر ان کے ملک کا نقطہ نظر واضح تھا، پہلے انھوںنے شام کی حکومت پر تنقید کی اور بقول ان کے اگست کے ماہ میں بشار الاسد پر یہ الزام لگایا کہ انھوںنے اپنے ہی ملک کے عوام پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا ، یہ معاملات اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ جان کیری اور صدر اوباما نے محدود فضائی حملے کے احکامات جاری کردیے تھے مگر روس اور چین کی مخالفت اور روس کی یہ تجویز کہ شام کی حکومت کے تمام ہتھیار تلف کروادیں گے، اسی دوران برطانیہ کی پارلیمنٹ نے امریکا کے ساتھ اس جنگ میں جانے سے انکار کیا جس کی وجہ سے جنگ کے خطرات وقتی طورپر ٹل گئے۔اب یہ تمام امور اقوام متحدہ کی دسترس میں آگئے یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ نے سنگین صورتحال کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اب یہ معاملہ سلامتی کونسل کو رجوع کیے جانے اور ایک ڈرافٹ سے دوسرے ڈرافٹ پر بحث مباحثے کے بعد ضرور طے ہوجائے گا اور ان66برسوں میں اقوام متحدہ میں بے شمار مسائل پیش کیے گئے مگر وہ قرار داد کی شکل میں یا ایک مسودے کی شکل میں فائلوں میں دفن ہوگئے۔
اوباما نے اپنی 40منٹ کی تقریر کے دوران دنیا بھر کے مسائل اور بحرانوں کا تذکرہ کیا مگر کشمیر کا ورق ان کی آنکھوں سے کیوں پنہاں رہا، اس کا ذمے دار کون ہے؟ ہماری قیادت یا عالمی سوچ کیوںکہ ہم اپنے دامن تار تار کو رفو کرنے میں لگے ہیں۔ علامہ اقبال کے اس شعر پر غور کریں:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج ہر گھر سوگوار ہے، ہر مکتبہ فکر اشکبار ہے، کوئی رہنما اصول پرست مرد آہن نہیں، ملک کی حالت یہ ہے کہ ہر لیڈر صورت زنگار...! لہٰذا جنرل اسمبلی میں اوباما نے جن باتوں کا تذکرہ کیا اس سے بوئے دوست نہیں آتی عالمی فورم پر انھوںنے ڈرون حملوں کا دفاع کیا تو پھر ہم کس منہ سے یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ڈرون حملوں کو بند کروائیںگے۔ جنرل اسمبلی میں اب ہمارا مدعا کیا ہوگا؟ خارجہ حکمت عملی کے بڑے بڑے سرتاج موجود ہیں مگر افسوس کا مقام ہوم ورک ندارد نہ بیرونی امور پر اور نہ ہی خانگی امور پر۔ ہمارا ہوم ورک ایسا ہونا چاہیے تھا کہ عالمی منظر نامہ پر ہمارے معاملات سمجھے اور اٹھائے جاسکتے تھے کیوںکہ یہ عالمی فورم ہر روز ہاتھ نہیں آتا اور ہمارے خانگی مسائل اس قدر بڑھ چکے کہ گھروں کے چولہے اور بجلی کے بلب بجھنے کو ہیں۔ میڈیا پر جو لیڈران کی گفتگو ہورہی ہے اس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ الجھنوں میں اضافہ مل جل کر ہورہاہے۔ قائدین کے احوال کے لیے تقریباً ایک ہفتہ قبل 11مئی 2013کے اس انتخابی رپورٹ کو ملاحظہ کیجیے جس میں 21ستمبر کی رپورٹ میں یہ بتایاگیاہے کہ قومی اسمبلی کراچی کی سیٹ 258کے جو نتائج نادرا نے چیک کیے ان میں اکثریت کے انگوٹھوں کے نشانات نادرا کے اعتبارسے درست نہیں ہیں۔
ظاہر ہے اس طرح ملکی انتخابات کی ساکھ کس قدر متاثر ہوئی ہوگی اور ہمارے جمہوری نظام کی اصل حقیقت کیا ہے؟ نہ تو یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے اور نہ سامراجی بلکہ یہ تو بس جھوٹ کا پلندہ ہے ان کی تقریر، ان کی تحریر اور ان مینڈیٹ والوں کا عوام سے تعلق کیا ہے؟ پھر یہ لوگ کیونکر ملک کو تابندہ چھوڑیںگے ، کشمکش کی ایک دوڑ ہے جس میں عوام محض تماشائی ہیں اور انھی مجبور تماشائیوں میں کچھ ایسے ہیں جو اپنی خودی کو فروخت نہیں کرتے۔ بھوک، تنگ دستی میں زندگی گزاررہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اپنی خودی فروخت کررہے ہیں، لوٹ مار کے اس دنگل کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور مختلف ذرایع سے پیسہ کمارہے ہیں جو کچھ نہیں کرپاتے، خوف زدہ ہیں وہ بھیک مانگ رہے ہیں، خودکشی پر آمادہ، کچھ ایسے جو جسم فروشی پر مجبور ہیں اور حکمران یہ دور رس دور اندیشی کی معاشی پالیسی سمجھارہے ہیں، ڈالر 108کے قریب آن پہنچا خوردنی تیل کی بجلی بڑی تیزی سے عوام پر گرنے کو ہے۔سی این جی عذاب بن چکی ہے۔ شاید اسی موقع پر غالب نے کہا تھا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیںگے ہم تم کو خبر ہونے تک
اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے کہ عوام کو سہولتیں مہیا ہوں تو وہ ایک لاکھ کیا ایک کروڑ لیپ ٹاپ دے کر بھی قسمت بدل نہیں سکتی اس کے بدلے کوئی حقیقی کام کرے، عورتوں کے لیے گھریلو انڈسٹری، کمپیوٹر اسمبلنگ، موبائل فون کی اسمبلنگ محلوں میں قائم کرے، مردوں کے لیے دس ایکڑ زمین، 2 برس کے لیے ہر قسم کا آبیانہ معاف، تمام غیر آباد زمینوں کی آباد کاری، ٹریکٹر لون جس کا آسان اقساط پر واپسی کا پروگرام، ہائی کلچر ماہرین کے ذریعے تربیت، نہروں کے نظام، چھوٹے چھوٹے بندوں کی تعمیر، تھر کے علاقے میں نہری نظام کا جال، سمندر میں بہہ کر سیلاب بن کر بستی اجاڑنے والے پانی کی روک تھام اس طرح لاکھوں لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوگی اور جامع منصوبہ سازی اسی طرز پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جدید نظام کا قیام اور حکومتی سطح پر اس کو عالمی فورم پر لے جایا جائے نہ یہ کہ سود ادا کرنے کے لیے قرضے لیے جائیں، چھوٹے ملکوں کے بڑے منصوبوں کے بجائے چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر عمل در آمد کرنے کی ضرورت ہے مگر یہاں قرضوں کی سہولت بڑے بڑے رہائشی منصوبوں کو حاصل ہے تاکہ جن کے پاس زر ہے ان کو مزید زردار بنایاجائے۔
پیسہ چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے کا یہ ایک سنگین جرم ہے جو لوگ کرایہ در ہیں ان کی زندگی کرایہ دار کی حیثیت سے گزررہی ہے، بے گھری، نالوں کے کنارے، ندی کے کنارے گھر ہیں تنگ دستی جرائم کی ماں ہے ملک میں چین چین کا شور ہے اگر ممکن ہو تو ان سے زرعی معاملات میں معاونت لیں کیمون طرز پر جہاں چاول کے کھیت میں جھینگوں کی بھی کاشت ہوتی ہے، پاکستان کی زرعی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا، زرعی پالیسی، زمیندارانہ نظام میں تبدیلی، ہاری کو حقدار بنانا ہوگا ورنہ مصنوعی طرز پر ترقی پاکستان کو شدید بحران میں مبتلا کردے گی۔ پاکستان کے بارڈر پر دوستوں کی تعداد کم ہے اگر یہ معاشی بحران ہے بڑھا تو بد امنی اور بڑھے گی اور کئی نئے دھڑے پیدا ہوںگے جن سے مستقبل میں اے پی سی کرنی ہوگی، بھارت تو پاکستان کو دہشت گرد ملک کا نام عالمی پیمانہ پر دلوانے میں لگا ہوا ہے خصوصاً وہاں کی تنگ نظر سیاسی جماعتیں۔ اگر معاملات یونہی بڑھتے رہے تو ہم دنیا میں یکہ وتنہا رہ جائیںگے۔ اپنے گرد ونواح میں امن ہماری اولین ترجیح ضروری ہے ورنہ کہیں خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ دنیا کو یہ محسوس ہو کہ پاکستانی عوام غیر محفوظ ہیں اور حکومت بے دست وپا ہے اور اب یہ آواز عوامی فورم پر گونج رہی ہے۔