امن قائم کیوں نہیں ہوسکتا
امن کی زخمی فاختہ اڑتی ہوئی آئی اور بے چاری کی قسمت گری بھی تو تلوار کی تیز دھار پر۔ لیجیے! یہ تو ہوئی قسمت مگر...
امن کی زخمی فاختہ اڑتی ہوئی آئی اور بے چاری کی قسمت گری بھی تو تلوار کی تیز دھار پر۔ لیجیے! یہ تو ہوئی قسمت مگر کچھ کام ہم دانستہ بھی کرتے ہیں مثلاً اگر بچھو ڈوب رہا ہے اور آپ ہمدردی میں اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اگر وہ آپ کی ہتھیلی پر ڈنک مار دے تو اس میں قصور بچھو کا نہیں بلکہ اس کی فطرت کا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کچھ لوگ سانپ پالتے ہیں اور پھر دودھ پلاتے ہیں۔ اور شکایت کرتے ہیں کہ موقع ملتے ہی سانپ نے ڈس لیا۔ مخمور جالندھری کا شعر ہے ؎
سانپ ڈستا ہے اسے دودھ پلائو کتنا
سوکھی بیری سے کبھی بیر نہیں جھڑتے ہلائو کتنا
جب جواب نہ بن پڑے تو بات کو بدل دو۔ ہم نے بھی بات کو بدل دیا۔ علامتوں کا کھیل اچھا نہیں ہوتا۔ اشاروں کی زبان ہر خاص و عام کہاں سمجھتے ہیں۔ ورنہ آج کل تو سارے کام محض ایک اشارے پر ہوتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہمیں یاد ہے کہ اماں نے اسی اشارے کنایے پر ابا کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ زبردست جنگ ہوئی تھی۔ خیر لڑائی تھوڑی دیر بعد وضاحتوں کے ساتھ ختم ہو گئی۔ کیونکہ دونوں مخلص تھے۔ ابا بے چارے تو کبوتروں کو چھت پر دانہ ڈال رہے تھے۔ بس سامنے کی کھڑکی کا کھلنا غضب ہو گیا تھا۔
خیر جھگڑا میاں بیوی کا ہو یا دوستوں کا یا گھر کے اہل خانہ کا۔ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، گروپ ہو یا نئی و پرانی نسل۔ شکست تسلیم کرنا، غلطی ماننا تو ہماری قوم کی شان کے خلاف ہے۔ اور غلطی پر غلطی کرنا قوم کی عادت۔ اور جب کوئی غلطی ماننے پر تیار ہی نہ ہو اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے اور الزامات فریق مخالف پر مسلسل رکھے تو پھر لڑائی کی حدیں مقرر کرنا مشکل ہے۔ اور پرسکون ماحول کی سعی ناممکن۔
کیوں کیا میں نے غلط کہا ہے سامنے کی میز پر بیٹھے ہوئے دو اشخاص کو غور سے دیکھیں۔ تھوڑی دیر پہلے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے تھے۔ خاص تواضح بھی ہو رہی تھی۔ پھر اچانک شاید کوئی بات بری لگ گئی۔ بس چہروں کے رنگ بدل گئے۔ مسکراہٹ یکسو غائب اور غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ۔ اف توبہ ہے اب تو پڑھے لکھے لوگ بھی غیر اخلاقی عامیانہ زبان کا استعمال کرنے لگے ہیں ورنہ خاندانی لوگ تو زبان پر جان دیتے تھے۔ ہائے زبان پر مر مٹتے تھے۔ زبان دے دی تو دے دی۔ گردن کٹ جائے مگر زبان سے نہ پھرتے تھے۔ مگر اب لفظ و بیاںکس قدر بے وقعت ہو چکے ہیں۔ کوئی اعتبار ہی نہیں۔ یہ کیا۔ سامنے دیکھیں شاید بات کچھ بن گئی ہے۔ لڑنے والے پھر ہاتھ ملا رہے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ لڑنا جھگڑنا بری بات ہے۔ امن تباہ ہو جاتا ہے۔ بے سکونی میں بھلا کوئی کیا کام کرے۔مگر دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ ذرا خیال سے۔ آج کل بدامنی کی فضا ہے۔ ماحول بدل گیا۔ اپنا سایہ بھی بے اعتبار ٹھہرا۔ ایسے میں کسی پر اعتماد کرنا اپنا سمجھنا احمقانہ پن ہے۔ ہوشیاری شرط ہے۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ آستینوں میں سانپ پلتے ہیں۔ اب بھلا امن کا سانپ بچھو سے کیا تعلق۔
امن قائم کرنے کے لیے خوبصورت باتیں خوبصورت جذبے ضروری ہیں۔ دنیا اتنی خوبصورت ہوتی جا رہی ہے کہ خوبصورتی ڈھونڈنا بھی ایک مشکل کام ہے۔ تاحد نظر کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ اب یہ آپ کا ہنر ہے کہ دامن بچا کر پھول چنیں۔ بہت خوب یہ آپ کا کمال ہو گا کہ صحرا میں پھول کھلائیں۔ بنجر زمین پر سبزہ لہرائیں۔
اب آپ کہیں گے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ تو دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں۔ مگر یہ دنیا سکون سے جینے کب دیتی ہے۔ بلاوجہ انسانوں کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایٹم کے اسی دور میں جنگ کے کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ سب جانتے ہیں۔ امن کے لیے کانفرنسیں ہوں گی۔ بین الاقوامی سطح پر کوششیں، سیمینار، کالم، باتیں، مذاکرے، مباحثے۔
لیکن امن ہے کہ قائم ہو کر نہیں دیتا۔ معلوم نہیں کوئی ایسی سازش کر بیٹھتا ہے کہ امن کے پہلے قدم پر ہی ہم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ اب تو بدامنی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اگر کوئی دن بغیر بریکنگ نیوز کے گزر جائے تو تعجب ہوتا ہے۔ بدامنی پھیلانے والے ہیں کون۔ اپنے یا غیر یا پھر نامعلوم؟
نامعلوم، نادیدہ، گمنام، ان لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ میڈیا نامعلوم اور آہنی ہاتھ کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر ہم اب تک نہ ہی میڈیا چاہے وہ الیکٹرانک ہو یا پھر پرنٹ نامعلوم کو ابھی تک معلوم نہ کر سکے اور آہنی ہاتھوں کے استعمال کے کرشمے بھی نہ دیکھ سکے۔ خیر چھوڑیں نامعلوم سے معلوم تک کا سفر خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟
جنگ ضروری ہے امن کے لیے لیکن جنگ کس سے کی جائے گی۔ جو امن کو تباہ کر رہے ہیں، بڑی طاقتیں، بڑے ممالک، بڑے لوگ یا پھر ناانصافی کا شکار، بغاوت پسند سرکش۔کیا ہم سب محب وطن نہیں۔ کیوں نہیں؟ جب قوم کا مسئلہ آتا ہے، ہمارے ملک کی طرف کوئی آنکھ اٹھاکر دیکھتا ہے تو ہم سب ایک ہو جاتے ہیں، پھر امن کے لیے کیوں نہیں؟ ہم میں سے ہر شخص امن چاہتا ہے، گھر میں بھی، پڑوسیوں سے بھی، پھر ملک میں موت، خوف، دہشت نے ڈیرہ کیوں ڈالا ہے؟
ایک طویل بحث جو جاری ہے اور ابھی تک کوئی حاصل نہیں۔ امن کا خواب ابھی تعبیر کے مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ دیکھیں ہم پھر سے بے خوف و خطر ایک پرامید زندگی کب گزاریں گے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری امن پسندی کی کوششوں پر مصلحتوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ ذاتی مفاد قومی مفاد پر غالب آ جاتا ہے۔ ہم دروغ گو ہو چکے ہیں۔ ہم صاحب کردار نہیں رہے۔ ہر جذبہ قربانی مانگتا ہے اور محبت و قربانی میں سودے بازی نہیں ہوتی۔
قربانی بھلا کون دے گا سب ہی اپنی اپنی دنیا بنانے میں مصروف ہیں۔ جب قربانی کا جذبہ ہی نہ ہو گا تو بھلا محبت کہاں ہو گی۔ اور جہاں محبت نہ ہو گی وہاں امن کیونکر ممکن ہے۔یہ دشمنی کے بیج کون بوتا ہے؟ یہ کون تیسرا شخص ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں۔ اگر ہاں تو گواہی کبھی بھی نہ دیں گے۔ عدم تحفظ کے شکار اس معاشرے میں نہ گواہ ہے نہ مدعی اور اگر بے چارہ منصف ہے بھی تو وہ صرف فیصلہ دے سکتا ہے۔ لیکن کیا امن صرف عدالتی اور حکومتی فیصلوں سے قائم ہو گا نہیں ہمیں پہلے اپنے ذہنوں کو تیار کرنا ہو گا۔ اپنے دلوں کی صفائی کرنی ہو گی۔ اپنے وطن اپنے گھر کی بربادی کو سنوارنے کا عزم کرنا ہو گا۔ اگر ہم یہ سب نہ کرسکے تو سانپ نکل جائے گا اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔
بدامنی نے ہمیں دلدل کے بالکل نزدیک پہنچا دیا ہے۔ ابھی بھی اگر ہم نے غور نہ کیا اور اپنے اپنے طور پر ذمے داریوں کو محسوس نہ کیا تو پھر یقین کریں امن قائم نہیں ہو سکتا۔