خیبر پختونخوا کا سیاسی منظر نامہ

خیبر پختونخوا میں چرچ میں ہونے والے دھماکے پر مجھے دلی افسوس ہے، مگر حیرانی ہرگز نہیں، کیونکہ میں اس قسم کی کئی...


Shabana Yousuf September 27, 2013

خیبر پختونخوا میں چرچ میں ہونے والے دھماکے پر مجھے دلی افسوس ہے، مگر حیرانی ہرگز نہیں، کیونکہ میں اس قسم کی کئی اور تخریب کاریوں کے امکانات خصوصاََ خیبر پختونخوا میں دیکھ رہی ہوں، اس قسم کے تخریبی واقعات کا خدشہ اس دن سے تھا جس دن سے پی ٹی آئی کی حکومت اس صوبے میں تشکیل پائی۔ بظاہر یہ عمل مذہبی تشدد کا نتیجہ معلوم ہو رہا ہے اور اس کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دنیا بھر میں جس طرح مسلمانوں کی نسل کُشی ہو رہی ہے ایسے میں اس قسم کے رد عمل کی توقع کی جا سکتی ہے، کیونکہ تشدد ہمیشہ نئے تشدد کی راہ ہموار کرتا ہے۔ خصوصاََ ان معاشروں میں جن پر سامراج کا بلاواسطہ یا بلواسطہ قبضہ ہو ، یہ پہلا واقعہ ہے کہ مسیحی کمیونٹی کو اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے۔ مگر جو حملے مسیحی کمیونٹی کے علاوہ لوگ نشانہ بنتے ہیں وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مذہبی منافرت سے زیادہ سیاسی بدعنوانیوں کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کا اس صوبے میں واضح اکثریت حاصل کرنا اور حکومت بنانے کے لیے حالات کا سازگار ہونا ایک حقیقت ہی سہی، مگر ملک کے دوسرے صوبوں میں حیرت انگیز طور پر، عوام کی کھلی حمایت کے باوجود ، کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکنا اپنی جگہ بہت اہم سوالات کو جنم دے رہا تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت سے ہراساں کرپٹ عناصر جن کے سیاسی و معاشی مفادات کسی نہ کسی سطح پر امریکی جنگی پالیسیوں سے وابستہ ہیں کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ پی ٹی آئی پاکستان میں ملکی سطح پر برسرِ اقتدار آتی، مگر عوام کی واضح حمایت، جس کو پاکستان کے آزاد میڈیا نے نمایاں کیا، برسرِ اقتدار طبقات اور سیاسی طاقت کے مراکز کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ اب کہ سیاست کے اس کھیل میں حکومت کی بساط پر پی ٹی آئی کو کہیں نہ کہیں کوئی جگہ دینی پڑے گی۔

لہذا الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کے کئی اشارے مل چکنے کے باوجود کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دھاندلی کرنا ہی مقصود تھا تو پی ٹی آئی کو امریکا کم ازکم خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار نہ آنے دیتا۔ اس قسم کے مبصرین یہ بات بھول جاتے ہیں کہ امریکا کی اپنی سیاسی و معاشی مجبوریوں نے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا کہ امریکا باعزت طریقے سے دہشت گردی کے نام پر ہونے والی افغان جنگ سے چھٹکارا حاصل کر سکے، کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت اپنی الیکشن کمپین میں ان خیالات کا کھل کر ا ظہار کرتی رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہونے چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کا اس صوبہ میں حکومت سنبھالنا کم از کم امریکا کے لیے بہت حد تک سود مند ہو سکتا تھا۔

دوسری جانب وہ طاقتیں ہیں جن کے مفادات اس جنگ کے جاری رہنے سے وابستہ ہیں۔ جن کے اس جنگ میں شریک رہنے سے امریکا کی جانب سے عطیات ملنے کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ ایسی طاقتیں ہرگز نہیں چاہتی کہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے، اس لیے ان کی بھرپور کوشش ہو گی کہ جنگ کو جاری رکھنے یا کم از کم کسی بھی سطح پر خطے مین نیٹو فورسز کے قیام کا کوئی جواز بنا رہے، لہذا اس جواز کو بنائے رکھنے میں وہ طاقتیں بھی یقیناََ سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ تیسری جانب پاکستان کا اندرونی سیاسی منظر نامے بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے، جس میں ایسے سیاسی کھلاڑیوں کا مستقبل بھی دائو پر لگا ہوا ہے جن کی ناقص سیاسی کار کردگی سے عوام نالاں و مایوس ہو کر پی ٹی آئی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں نمایاں کام محکمہ صحت کے تحت غریب عوام کو مفت علاج معالجے کے ساتھ ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف روایتی تھانہ کلچر جس کے تحت بہت سے جرائم پنپتے ہیں پر بھی نظر رکھنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جو صرف حکم ناموں کی صورت نہیں بلکہ عملی سطح پر عمل درآمد کرانے کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی جانب گزشتہ حکومتیں اور حکمران توجہ نہیں دے پائے۔ کہ قانون تو موجود رہا مگر اس کی پاسداری اور عمل داری کے لیے حالات سازگار نہیں بنا ئے جاتے تھے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کے یہ فیصلے عوامی خوشی کی ضمانت بنتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں جمیعت علماء اسلام کے نمایندے کی شکست کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کرپٹ سیاستدانوں سے نجات چاہتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی حکومت کے سماجی و فلاحی کاموں کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے کامیابی کی راہ پر پہلا قدم ہیں، جو کرپٹ ساختوں میں رہ کر اُٹھانا کارِ دشوار تھا، اس کے لیے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کا ر لانے کے ساتھ ساتھ کسی لیڈر کا انفرادی سطح پر مخلص ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اخلاص اور ارادے کی مضبوطی بھی ویسی ہی طاقت ہوتی ہے جو معاشی، قانونی، مذہبی و سماجی خیالیات اور آئینی ساختیں کسی حکومت کو کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہر سماج کی مخصوص ساختیں ہوتی ہیں جن میں رہ کر لوگ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کی کرپٹ سیاسی ساختوں کو توڑ کر نئی ساختوں کی تشکیل کا عمل لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے شروع کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کو بھر پور مخالفت کا سامنا در پیش ہو گا، اس کے علاوہ ان طاقتوں کی جانب سے جو اس صوبے کو اپنی جنگی بساط کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، وہ کسی سطح پر نہیں چاہیں گی کہ طالبان سے مذاکرات کی کامیاب ہوں یا ان کی نوبت بھی آئے۔ ایسی طاقتوں کی بھر پور کوشش ہو گی کہ وہ اپنے جنگی جنون کو دوام بخشنے کے لیے خیبر پختونخوا کو میدان جنگ بنائے رکھنے کے لیے جواز جنگ پیدا کرتے رہیں، چرچ میں ہونے والا موجودہ دھماکہ بلاشبہ ایسی طاقتوں کی خواہشِ جنگ کا شاخسانہ ہے جو پی ٹی آئی کے طالبان کے ساتھ مذکرات کرنے کے فیصلے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہیں، کیونکہ امن کے ساتھ امن کا قیام ہو جانا، امن کے نام پر جنگ کرنے والوں کے سیاسی و معاشی مفادات کی موت کا دوسرا نام ہے۔

اندرونی و بیرونی بدعنوان سیاسی کھلاڑی جانتے ہیں کہ نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے معاشرے میں مذہبی فرقوں اور اقلیتی آبادیوں کو نشانہ بنانا کس قدر سود مند ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی اقلیت پر حملے کرائے جاتے ہیں، تا کہ بد امنی پھیلا کر ''امن'' کی بحالی کے لیے جنگ ہوتی رہے۔ یہ تمام مظاہر سیاسی بساط پر سیاسی بد عنوانیوں کا نتیجہ ہیں نہ کہ پاکستانی لوگوں کی تنگ نظری یا تعصب۔ کسی بھی سماج میں مختلف مذاہب اور فرقوں سے وابستہ لوگوں کا مل کر رہنا وہاں کے قانونی اور اخلاقی ضابطوں کے تحت ممکن ہوتا ہے، بد قسمتی سے دنیا بھر میں سیاست کی کوئی اخلاقیات سیاسی مفادات کے مدِ مقابل نہیں ہوتی۔ پاکستان اس وقت دنیا بھر کی سیاست میں اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں انسانی حقوق، انصاف، مساوات اور امن جیسے نظریات کا سہارا لے کر سیاسی بد اخلاقی و بد عنوانی اور جنگی جرائم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جس میں مقامی باشندے وہ مسلم ہیں کہ عیسائی، ہندو ہیں کہ سیکھ، شیعہ ہیں کہ سنی سب کے سب ایک ادنی مہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

جن کی زندگی اور موت دونوں کو ہی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ ایسے سیاسی مظاہر ہیں جن کے پسِ پردہ سامراجی مفادات پوشیدہ ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے راہ ہموار کرنے والی اندرونی طاقتیں بھر پور معاونت کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لہذا ان کو مقامی باشندوں کی مذہبی منافرت یا تنگ نظری کا نام دینا کسی طور بھی مناسب اس لیے نہیں کہ یہی مسلم اور عیسائی، ہندو اور سیکھ مغربی معاشروں میں برے منظم طریقے سے اور اخلاقی ضابظوں کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے انٹیلیکچوئلز کی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کے ستائے ہوئے کم بصیرت عوام کو اپنی تحاریر کے ذریعے ان کے اصل دشمن کا چہرہ بے نقاب کریں نہ کہ ان سیاسی مظاہر جن کے پسِ پردہ سامراجی مفادات ہیں کو مقامی باشندوں کی مذہبی تنگ نظری کہ کر فرقہ وارئیت کے لیے راہ ہموار کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں