وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
جس طرح ایک طالب علم، ایک کھلاڑی، ایک اہلکار اپنی اپنی کارکردگی میں نمایاں پہلو استعمال کرنے میں سستی، کاہلی، بے...
جس طرح ایک طالب علم، ایک کھلاڑی، ایک اہلکار اپنی اپنی کارکردگی میں نمایاں پہلو استعمال کرنے میں سستی، کاہلی، بے راہروی دکھاتا ہے تو اس کو فیلڈ سے علیحدہ کر کے کارکردگی میں درستگی کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنی کارکردگی کی خامیاں دور کرے۔ اس وقفے کے گزرنے کے بعد جب وہ دوبارہ میدان میں آتا ہے تو اس کی کارکردگی میں تبدیلی کے بجائے وہی پرانی خامیاں نظر آتی ہیں تو اس صورت میں کہا جاتا ہے کہ ''وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے''۔
اسی طرح ہماری موجودہ حکومتوں (صوبائی اور وفاقی دونوں) کو دوبارہ عوام نے منتخب کر کے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا ہے کیونکہ اپنے ماضی کے دور حکومت میں دونوں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو چکی تھیں۔ اس لیے ماضی میں ان حکومتوں کو برخاست کر دیا گیا تھا۔ اب ایک حکومت (صوبائی) نے5 سال بعد پھر حکومت بنائی ہے اور دوسری (وفاقی) حکومت کو 12 سال بعد تیسری بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے۔ یوں تو کوئی گاڑی ہو جمہوریت کی گاڑی یا آمریت کی گاڑی ہو وہ جب پٹری پر دوڑنا شروع کرتی ہے تو اس کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ اس کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کارکردگی بہتر ہے یا خراب ہے۔ لیکن پہلے سے آزمائی گاڑی ہو تو پھر اس کی ماضی کی کارکردگی کو نظر میں رکھ کر دوسری بار کی کارکردگی کے فرق کے تناظر میں کوئی حتمی نتیجہ نکالا جاتا ہے۔
یہی صورت حال کچھ صوبہ سندھ کی حکومت اور وفاقی حکومت سے مطابقت یا مماثلت رکھتی ہے۔ ابھی ابتداء ہی میں ان کی رفتار بے ڈھنگی نظر آنے لگ گئی ہے لیکن آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کے مترادف ہمیں کچھ اور دنوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کسی نہ کسی کی رفتار میں تبدیلی اور تیزی تو آئے گی۔ تبدیلی آئے گی تو نظر بھی آئے گی۔ یہاں بالخصوص ذکر کروں گا حکومت سندھ کا اور ساتھ ساتھ جہاں موقع ملا وفاقی حکومت پر بھی نظر دوڑائی جائے گی۔ سب سے اول جو بات ذہن نشین کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ وہی پرانا میدان سجا ہے وہی پرانے کھلاڑی ٹیم میں ہیں اور اتفاق دیکھیے کہ وزیر اعلیٰ بھی وہی ہے یعنی ٹیم کا کپتان بھی وہی ہے۔ ہر چند کہ اس کپتان اور اس کی ٹیم کے کھلاڑی آزمائے ہوئے ہیں لیکن یہ ایسا روپ دھار کر میدان میں اترے ہیں جیسے ''گربہ مسکین'' انجانے جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ معصوم شکلیں بناکر عوام کو جھوٹی تسلیاں، وعدے، دعوے سے بہلانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
ماضی کی طرح وفاقی حکومت بھی وہی نیا جال لائے پرانے شکاری کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ تقریریں بڑی ہمت افزا کر رہے ہیں۔ باتیں بڑی میٹھی میٹھی کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے منصوبوں اور بڑی بڑی اسکیموں کا سراب عوام کو دکھا رہے ہیں۔ عوام ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ لیکن روشنی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ سراب کے دھوکے میں بھاگے بھاگتے تھک جائیں گے بالآخر تھک ہارکر سراب دکھانے والے کے قدموں میں بیٹھ جائیں گے۔ ثابت ہو گیا کہ حکمرانوں کی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ وہی سبز باغ دکھانا، جھوٹ بولنا، بلند و بانگ دعوے کرنا، اور عوام ہی سے پوچھنا کہ ''بتاؤ بند مٹھی میں کیا ہے؟'' عوام نے تمہیں اس لیے منتخب کیا تھا، اس لیے اقتدار سونپا تھا کہ زبانیں بڑی بڑی چلاؤ اور بند مٹھیاں دکھاکر کام چلاؤ، نہیں ، نہیں۔ اب یہ جادوگری کی سیاست نہیں چلے گی۔ لاٹھی ڈنڈے کی حکومت نہیں چلے گی۔ میٹھی چھری کے وار نہیں چلیں گے۔ میڈیا آزاد ہے، عوام بیدار ہیں، عوام باشعور ہیں، عوام دودھ کے جلے ہیں۔ اب عوام آپ لوگوں کے چکروں میں نہیں آئیں گے وہ سب سازشیں سمجھنے کا ادراک رکھتے ہیں۔ اب 1990ء اور 1999ء کا دور نہیں۔ اب تو الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ خبر مل جاتی ہے خبر آنے تک۔
بات ہو رہی تھی ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کی۔ دونوں حضرات بڑے تجربے کار، بڑے با اختیار ہیں۔ وزیر اعظم تو تیسری مرتبہ اس عہدے پر براجمان ہیں لیکن ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب کی عمر بیت گئی وزارت اعلیٰ شپ میں ان کے مقابل ابھی کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔ شاہ صاحب سے معذرت کے ساتھ۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ ہوتی ہے رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ اس لیے کہ عوام نے دوسری بار 5 سال کے لیے اقتدار جو سونپ دیا ہے۔ آگے ان مرضی نئی راہیں ڈھونڈتے ہیں یا وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے کے مترادف کام کرتے رہیں گے۔ عوام تو بیزار ہیں۔ رہنے دیں بیزار۔۔۔۔آپ اپنا کاروبار تیز و طرار رکھیے۔ آپ نے ہی صوبے کو بنانا اور بگاڑنا ہے۔ بات تو کچھ یوں بنتی نظر آ رہی ہے کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں دو دل دیوانے۔ ادھر ہمارے وزیر اعظم ادھر ہمارے وزیر اعلیٰ۔ دونوں ہی اپنے ہیں یعنی ہمارے ہی منتخب کردہ ہیں۔ ''دانت بھی اپنی زباں بھی اپنی، کاٹیں تو کس کو کاٹیں''۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اتنی بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود سامنے کچھ ہوتے ہیں اور پیچھے کچھ اور۔ ایک لمحہ مفاہمت کرتے ہیں تو دوسرے لمحے عداوت رکھتے ہیں۔ یہ پالیسی بدلنا ہو گی۔ دو رخی پالیسیاں درست نہیں۔
کیا ہوا بلدیاتی نظام اور کہاں گئے بلدیاتی انتخابات۔ درست ہے کہ آپ نے انتخابات جیت لیے اکثریت سے لیکن بلدیاتی نظام (متفقہ) کیوں نہیں بنا رہے ہیں اور بلدیاتی انتخابات سے کیوں دل چرا رہے ہیں۔ ڈر کاہے کا ہے آپ کے سامنے ملک کے بڑے صوبے کی مثال موجود ہے۔ کیسے پینترا بدلا انھوں نے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے ضرور ہوں گے، لیکن غیر جماعتی ہوں گے۔ جماعتی انتخابات ممکن نہیں۔ آپ بھی پینترا بدل لیجیے۔ انتخابات عام ہو کہ بلدیاتی انتخابات۔ انتخابات تو انتخابات ہوتے ہیں۔
صوبے کے حالات نازک موڑ پر کھڑے ہیں بالخصوص شہر کراچی کے حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ جس کی چیخ و پکار کراچی سے پشاور اور پشاور سے اسلام آباد تک سنی جا رہی ہے۔ وفاق کی مدد آپ ضرور طلب کر سکتے ہیں ہمارے معزز اور ہر دل عزیز وفاقی وزیر داخلہ تو پیشکش کر چکے ہیں کہ اگر ہماری مدد چاہیے تو درخواست کریں ہم حاضر ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں الگ الگ نہیں ہیں اسی ملک کے دو یونٹ ہیں۔ اکائیاں ہیں۔ باہمی مفاہمت سے ہی کام چلے گا ''میں نہ مانوں'' والی بات۔ دہشت گردی کے غار میں دھکیل دے گی۔ موجودہ دہشت گردی نے حالات کو پہلے ہی غار کے دہانے تک تو پہنچا دیا ہے۔ نئے نئے سیاسی شوشے نہ چھوڑیں اس طرح آپ ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔
خدارا! صوبے کو امن وسکون دیجیے بربادی نہیں!اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو خودمختار بنا دیا گیا ہے اب وہ اپنے معاملات خود نمٹائیں گے۔ لیکن یہ بھی تو کہا گیا ہے کہ اگر صوبوں کو ضرورت پڑے گی تو وفاق سے مدد طلب کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ صوبے بلکہ شہر کراچی کے حالات اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ قابو پانا دشوار ہو گیا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں صوبائی حکومت وفاق سے مدد طلب نہیں کر سکتی؟ پھر کیوں وفاق سے رجوع نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی حلقے سے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ آیا ہے تو ایسی کون سی آفت آ گئی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس معاملے پر بحث کی جا سکتی ہے اور کوئی قابل قبول حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ اور تو اور یہ غلط فہمی کیوں پیدا کی جا رہی ہے کہ پوری فوج کو شہر میں تعینات نہیں کیا جا سکتا کیا کبھی ایسا ہوا ہے (پاکستان یا کسی غیر ممالک میں) کہ امن وامان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوج بلانے کا مطلب یہ ہے کہ سرحدوں پر تعینات فوج کیسے ہٹائی جا سکتی ہے۔
دراصل صوبے کی حکومت وہی ''اسٹیٹس کو'' برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ ''وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے''۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجیے ملک و قوم کے حالات سدھارنے کی طرف توجہ دیجیے۔