غلام
ناشکری کرنا شاید ہماری سرشت میں شامل ہے ۔ جب غلامی کی زنجیروں میں جکڑے تھے تو آزادی کی خواہش کرتے تھے پھر...
ناشکری کرنا شاید ہماری سرشت میں شامل ہے ۔ جب غلامی کی زنجیروں میں جکڑے تھے تو آزادی کی خواہش کرتے تھے پھر خدا نے کرم کیا اور آزاد مملکت سے نوازا تو اب آزادی کی قدر نہیں کرتے حکمراں تو حکمراں عوام بھی خود اپنی آزادی مصلوب کرتے جا رہے ہیں۔ وہ زمانے جب ہمارے حکمراں اپنے محل کے جھروکے سے عوام سے خطاب کیا کرتے تھے مہنگائی ایک پیسہ بھی بڑھی اور عوام نے شور مچایا تو فوراً احکام واپس لے لیے گئے حالانکہ اس وقت بھی حالات اچھے نہ تھے ملک کی معاشی صورت حال غیر مستحکم تھی لیکن دل اتنے مضطرب نہ تھے راتوں کو گلی محلے کے دروازے قفل زدہ نہ رہتے تھے لٹ جانے کے خوف سے لوگ خالی جیب سفر نہ کرتے تھے عام سے تالے عام سی تجوریوں سے بھی کام چل جایا کرتے تھے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر مسافر پانی مانگ لیا کرتے تھے۔
کھلے صحنوں و چھتوں میں چاند کی دھیمی روشنی میں بڑے مزے سے چارپائی بچھا کر سو لیا جاتا تھا لیکن آج ہماری آزادی ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے گلی محلوں کے نکڑ پر بندوق اٹھائے گارڈز پہرے دیتے ہیں، جاپانی اور جرمن لاک بھی باآسانی کھل جاتے ہیں دروازے پر کھٹ ہو تو دھڑ سے دروازہ کھولنے کی بجائے جھریوں سے پہلے تصدیق کر لی جاتی ہے کہ کوئی چور یا اچکا تو نہیں، پھر بھی لوگ ہاتھ دکھا جاتے ہیں چھتوں اور صحنوں کی وسعتوں میں سکڑاؤ آ گیا ہے صحن پٹ چکے ہیں اور چھتیں پینٹ ہاؤسز میں تبدیل ہو چکی ہیں جن گھروں میں یہ سہولت میسر ہے وہاں سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نجانے کب کدھر سے کوئی اندھی گولی کا شکار ہو جائے۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا، ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو دھیرے دھیرے ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا شروع کیا آج ہم اپنے ہی گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ہمارا سکون ہماری آزادی ہمارا اطمینان چین سب غارت ہو چکا ہے۔
''کسی میڈیا کے بندے، کسی نیوز چینل، کسی اخبار والے کو پتہ تو ہونا چاہیے کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے'' وہ جذباتی انداز میں روہانسے ہو چلے تھے اپنی زندگی کی جوانی میں انھیں کبھی اندازہ بھی نہ ہوا تھا کہ کبھی کسی دور میں وہ اتنے بے بس ہو جائیں گے کہ اپنے ہی ملک اپنے ہی شہر میں خود کو اتنا غیر محفوظ سمجھیں گے ۔ ابھی سال بھر پہلے ہی کی بات ہے جب ان کی صاحبزادی بیرون ملک سے لوٹیں تو راستے میں باوردی پولیس کی گاڑی نے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیٹی سے قیمتی سامان زیورات اور غیر ملکی کرنسی لوٹ لی یہ جعلی پولیس والے نجانے کتنے لوگوں کو لوٹتے رہے تھے لیکن کسی نے کبھی کسی کی آواز پر کان ہی نہ دھرا تھا۔ ایئر پورٹ سے ذرا فاصلے پر اتنے منظم طریقے سے سامان کی بالکل درست جگہ پر موجودگی کا علم ہونا اور شکار کو گرفت میں لینا کسی ایک ذہن کی اختراع نہ تھا خیر اس سلسلے میں بڑی دہائیاں دی گئیں تو اس وقت کے ارباب اقتدار نے کچھ پیش رفت کی تھی لیکن دوسری بار بھی ان ہی کی دوسری صاحبزادی کے شوہر کے ساتھ کچھ اسی طرح کا حادثہ ہوا جب ان کے داماد اپنی گاڑی کی مرمت کے سلسلے میں شہر کے معروف علاقے پلازہ میں پہنچے جو اس حوالے سے شہر بھر میں مشہور ہے کارپٹی لگوانے کی انھیں بالکل ضرورت نہیں تھی لیکن وہ سر ہی پڑ گیا کہ صاحب پینتیس روپے میں لگوا لو۔
انھوں نے اس کی مدد کرنے کی خاطر آخر رضامندی ظاہر کر دی کہ چلو کر دو، اور جب کام مکمل ہو گیا تو انھوں نے پیسے اس کی جانب بڑھائے تو کہا گیا کہ پینتیس روپے نہیں پینتیس ہزار دو۔ یہ عجب فرمائش تھی جو ناقابل قبول تھی۔ جزبز کی گئی تو انھیں گاڑی میں دھکیل کر بٹھا دیا گیا اور نجانے کدھر سے دو تین اور نمودار ہو گئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے اور خود ہی ڈھونڈ کر آٹھ ہزار روپے برآمد کر لیے۔ پھر گاڑی میں سے اے ٹی ایم کارڈ بھی نکال لیا اور کہا گیا کہ شرافت سے چلو اور پیسے نکلواؤ۔ ہتھیار دیکھ کر تو اچھے اچھوں کی سٹی گم ہو جاتی ہے لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا خود گاڑی لے کر پہنچے اور پچیس ہزار روپے اپنے ہاتھوں سے نکلوا کر دیے۔ جاتے جاتے سخت تنبیہہ کی گئی کہ اگر کسی سے کہا اور پولیس میں رپورٹ کی تو بہت برا ہو گا۔ لٹ جانے کے بعد بھی بار بار لٹنے کے اس عمل سے کراچی والے گزرتے رہتے ہیں اور لوٹنے والے نت نئے طریقوں سے اپنے وار آزماتے ہیں۔ ہمیں امید ہے آج بھی وہاں کسی نہ کسی بے چارے کی جیب پر ڈاکہ پڑا ہو گا کہ یہاں تو قطار لگی ہے۔
اخبار میں اکثر گارڈ کی اسامی کے لیے اشتہارات چھپتے رہتے ہیں جن کی تنخواہیں ان کی عمر اور تجربے کے لحاظ سے آٹھ سے بارہ ہزار روپے تک ہوتی ہیں ان میں سے اکثر ہتھیاروں میں ڈنڈا استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بندوق چلانا اور حفاظت کرنے کے امور میں کورے ہوتے ہیں لیکن حالیہ صورت حال میں عوام اس قسم کے گارڈز رکھنے پر بھی مجبور ہے حال ہی میں شہر کے ایک پوش علاقے میں ہمارے ایک جاننے والے اپنے آفس سے ملنے والی نئی گاڑی جو چند دنوں قبل ہی انھیں ملی تھی بڑے شوق سے چلے اور کچھ خریدنے کی غرض سے مشہور بیکری کے سامنے گاڑی پارک کی کہ نجانے کہاں سے ایک اچھے بھلے نوجوان نے نہایت محبت سے ان کے گلے میں بانہیں حمائل کر دیں اور اپنا پرانا دوست ہونے کا دعویٰ کیا لیکن یہ دراصل وہ دوست تھے جو ہر صبح شام معصوم شہریوں کو لوٹ کر اپنا کام چلاتے ہیں۔
صاحب حیران پریشان تھے وہ نوجوان باقاعدہ گانا گاتے ان سے رقم اور کار کی چابی کی فرمائش کرنے لگا ساتھ ساتھ گنگناتے تنبیہہ بھی کی کہ بیکری کے باہر کھڑے گارڈ سے مدد کی توقع نہ رکھنا وہ ہمارے ساتھیوں کے نشانے پر ہے اور یوں اس فلمی کھلے عام ڈکیتی میں ایک شہری لٹ گیا جو چلا تھا جیب میں پیسے لے کر ساتھ میں موبائل اور نئی گاڑی کے ساتھ اور جب اپنے گھر لوٹا تو ڈرا سہما خالی ہاتھ لیکن جان بچ جانے کے شکرانے کے ساتھ۔ بیکری کے گارڈز کا کہنا تھا کہ اس نے نوجوان کے ساتھیوں کو اپنی جانب نشانہ باندھے دیکھ لیا حالانکہ اس وقت تاریکی تھی اب یہ گارڈ کا لنگڑا عذر تھا کہ اسے جتنا آتا تھا اس سے آگے وہ کیوں اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا یا واقعی سچ تھا لیکن ایک شہری ایک محافظ کے سامنے لوٹ لیا گیا پولیس میں رپورٹ کروانے کے باوجود کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔
جوں جوں ہمارے ملک کے بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا حکمرانوں کی عیاشیاں طویل ہوتی گئیں مہنگائی بڑھتی گئی غربت بڑھتی گئی جھولیاں کھلتی گئیں بے حسی بڑھتی گئی، سفید پوش کی عزت خطرے میں پڑتی گئی، نفرتیں بڑھتی گئیں، خواہشات بڑھتی گئیں، چوری چکاری عام ہوتی گئی، راہزنی ڈکیتی دن دہاڑے شہریوں کو اپنے خوف اور سحر میں جکڑتی گئی، ہم تو ہم تھے ایک قوم۔۔۔۔یہ ''میں'' میں کیسے تبدیل ہوتے گئے ۔ ہم پھر سے غلامی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ، لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔قدم بہ قدم۔۔۔۔امیروں کے محلوں کی روشنیاں غریبوں میں احساس محرومی کے دیو بلند کر رہے ہیں جنہوں نے اب خنجر اور بندوق تھام لیے ہیں ۔ کیا ہم سب اپنا اپنا احتساب کر سکتے ہیں تا کہ غلام قوم بننے سے بچ سکیں۔