سامان سو برس کا

ٹی وی وی چینلز کا فائدہ یہ ہے کہ آپ جیسا چاہے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا آپ کی انگلی کے ایک اشارےپربدلتی رہتی...


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate September 27, 2013
[email protected]

ٹی وی وی چینلز کا فائدہ یہ ہے کہ آپ جیسا چاہے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا آپ کی انگلی کے ایک اشارے پر بدلتی رہتی ہے۔ آپ چاہیں تو سیاست سے کھیل اور کارٹون سے ڈرامے تک پانچ سیکنڈ میں آ سکتے ہیں۔ آپ کی مرضی ہو تو موسیقی سے شاعری کے چینل تک آ جائیں اور چاہیں تو سیاسی چینل بدل کر کوئی فلم دیکھ لیں۔ یہاں آ کر آپ کی مرضی ختم نہیں ہو جاتی۔ دل چاہے تو گانے سنیں یا ڈائیلاگ، فلم رومانی دیکھیں یا ایکشن سے بھرپور۔ فلم نئی ہو یا پرانی۔ آپ کی مرضی ہو تو فلم رنگین بھی ہو سکتی ہے یا بلیک اینڈ وائٹ۔ بھارت کی ایک پرانی فلم کسی چینل پر آ رہی تھی۔

ایک باپ تھا جس کے تین بیٹے ہوتے ہیں۔ ایک کامیاب کاروباری شخص دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے ایک بیٹے کو ڈاکٹر اور ایک کو وکیل بنائے گا جب کہ تیسرے کو اپنے کاروبار میں لائے گا۔ اس کا ایک دوست اسے چپ کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ بزنس مین مسلسل بولے جاتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے خاکے بیان کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے باہر بھیجنے کی تفصیلات دوست کو بتاتا ہے۔ عقل مند دوست اسے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ رکنے والا نہیں رکتا کہ جیب میں پیسے ہیں اور بچے گھر پر تو اب جو کرنا ہے اسے کیوں نہ بیان کیا جائے۔ فلم کو ایک لمحے کے لیے روکتے ہیں کہ یہ ملتا جلتا واقعہ پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں۔

ایک آدمی بازار سے گھوڑا خریدنے جاتا ہے۔ راستے میں ایک جاننے والا ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا ارادے ہیں؟ جب وہ گھوڑے کی خریداری کا ارادہ بتاتا ہے تو جاننے والا کہتا ہے کہ انشاء اللہ کہہ دو۔ جیب میں پیسے ہیں اور مارکیٹ میں گھوڑا۔ گویا وہ بغیر کچھ کہے سنے منڈی کی جانب چل دیتا ہے۔ کبھی کبھی ہاتھوں میں چائے کا کپ لبوں تک نہیں جا سکتا۔ تھوڑی دیر بعد جب دوسرا شخص پہلے کو خالی ہاتھ بوجھل قدموں سے آتا دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ کیا ہوا گھوڑا نہیں خریدا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ''میں انشاء اللہ مارکیٹ میں جا رہا تھا تو انشاء اللہ جب میں نے گھوڑا پسند کیا اور انشاء اللہ جیب میں ہاتھ ڈالا تو انشاء اللہ میری جیب کٹ چکی تھی''۔ اس قصے کے بعد ہم ایک بار پھر بڑے بڑے منصوبے بنانے والے کردار کی جانب آتے ہیں جسے خبر نہ تھی کہ سامان تو سو برس کا ہوتا ہے لیکن پل کی خبر نہیں ہوتی۔

فلم کی کہانی نیا موڑ لیتی ہے۔ پہلے کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ یوں جس بل بوتے پر ناز تھا وہ نہ رہا۔ جس اولاد کے لیے منصوبہ بندی تھی وہ بچھڑ جاتی ہے۔ زلزلہ تینوں بچوں کو والدین سے جدا کر دیتا ہے۔ ایک کو وکیل اور دوسرے کو ڈاکٹر اور تیرے کو بزنس مین بنانے کا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اس شخص کو اپنا دوست یاد آتا ہے جو بڑی بڑی باتیں بنانے سے روک رہا ہوتا ہے۔ نہ جانے فلم ساز کو گھوڑے خریدنے والے کا قصہ معلوم تھا یا نہیں۔ بعض کام بالکل آسان نظر آتے ہیں لیکن وقت انھیں مشکل بنا دیتا ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''میں نے اپنے ٹوٹے ارادوں سے رب کو پہچانا ہے''۔ فلم کا قصہ، گھوڑے والے کا واقعہ اور خلیفہ راشد کا قول قدرت کی قدرت سمجھنے کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔ سیاستدان اور کاروباری حضرات اپنی اولاد کو آگے بڑھانے کے لیے بڑی پلاننگ کرتے ہیں۔

بلاول زرداری بھٹو کی پچیس ویں سالگرہ پر جوش و خروش کا اظہار کیا گیا۔ کم عمری کی رکاوٹ دور ہو گئی اور اب وہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری بھی انھیں سیاسی امور سے نمٹنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ چوہدری برادران مونس الہی کو تو شریف برادران حمزہ شہباز اور مریم صفدر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بھٹو، چوہدری اور شریف خاندان اپنی آنے والی نسلوں کو اقتدار سے قریب تر رہنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ طاہر القادری اور مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنے بیٹوں کو آگے لا رہے ہیں۔ اولاد کو آگے کی ایسی ترکیبیں بادشاہ سلامت بھی اپنے شہزادوں کے لیے اپنایا کرتے تھے۔ پھر نتیجہ کیا ہوا؟ آئیے تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں۔

شہنشاہ ایران نے اپنے صاحبزادے کی تربیت کا حیرت انگیز اہتمام کیا تھا۔ عمدہ اساتذہ، اعلیٰ دانشور اور شاندار درس گاہیں۔ شہزادے کو جاپان اور برطانیہ میں شاہی امور کی تربیت کے لیے بھیجا گیا۔ نازوں پلے اکلوتے وارث کو ایشیا اور یورپ کے بادشاہوں کے انداز نشست و برخاست سکھانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے گئے۔ جب رضا شاہ پہلوی اپنی جانب سے اس قدر اہتمام کر رہے تھے تو قدرت مسکرا رہی تھی۔ جب دنیا وی بادشاہ اپنی جانب سے ایک پلاننگ کرتے ہیں تو حقیقی بادشاہ کی جانب سے پلاننگ کچھ اور ہوتی ہے۔ جب شہزادہ امور سلطنت کو سنبھالنے کو تیار ہو گیا تو ایران میں ''خمینی انقلاب'' آ گیا اور شاہی خاندان کو دو گز زمین بھی کوئے یار میں ملنا مشکل ہو گیا۔ منصوبہ بندی کو دل و دماغ پر حاوی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہر حال میں سرانجام دینے کی ضد کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں۔ قذافی کا اپنے بیٹے کو وارث بنانے کی تیاری زیادہ پرانا قصہ نہیں اور صدام کے بیٹوں کے انجام سے دنیا واقف ہے۔ کاروبار مملکت ہو یا دکان و صنعت کا کاروبار، دھوپ چھاؤں زندگی کی حقیقت ہے۔ بچ وہ سکتا ہے جو چار کام سرانجام دیتا ہے ورنہ بازی پلٹتے دیر نہیں لگتی اور ساری کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ دنیا کھیل کا میدان ہے جہاں کبھی ایک جیت جاتا ہے تو کبھی دوسرا۔

حنیف محمد اپنے وقت کے بہت بڑے کھلاڑی تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے شعیب محمد کو ٹیسٹ کرکٹ کا بہت بڑا کھلاڑی بنانے کی پلاننگ کی۔ چچا بھی بھتیجے کی مدد کو حاضر تھے۔ حنیف اور صادق نے نوجوان شعیب کو بیٹنگ اوپن کرنے کے امور سکھائے تو مشتاق نے اسپن بولنگ کی ترکیبیں سکھائیں۔ مزید دو خوبیوں سے بھی شعیب کو آراستہ کیا گیا۔ وکٹ کیپنگ اور عمدہ فیلڈنگ لیکن ہوا کیا؟ ون ڈے کرکٹ متعارف ہو گئی۔ دھواں دھار بیٹنگ کرنے والے میاں داد، انضمام، سعید انور اور شاہد آفریدی کا دور شروع ہوا۔ دھیمے انداز والوں گواسکر اور بائیکاٹ کی طرح ریکارڈ ساز بن سکنے والے شعیب کو ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنائے رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ یاد رکھیے! جتنی آسانی سے ہم چینل بدل دیتے ہیں اس سے کم وقت میں رب کائنات ہماری قسمتیں بدل سکتے ہیں۔ شہزادوں اور کھلاڑیوں کے بعد دیکھیں کہ میڈیا کس تیزی سے اوپر والوں کو نیچے اور نیچے والوں کو اوپر کر دیتا ہے۔

پی ٹی وی کے دور میں ریڈیو والے اپنے خوب صورت دور کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ رنگین فلموں نے بلیک اینڈ وائٹ فلموں کو گہنا دیا تو پاکستانی سینماؤں کو وی سی آر کھا گیا۔ ایک ٹی وی کو درجنوں ٹی وی چینلز نے گم کر دیا ہے۔ اب سیاستدانوں کو لے کر ٹی وی مباحثے کرنے والے بیزار ہو کر صحافیوں کی جگہ مزاحیہ فنکار لے رہے ہیں۔ کھیل، فن، سیاست اور کاروبار کی دنیا میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ہر باکمال چار کام کر کے زوال سے بچ سکتا ہے لیکن یہ تفصیل علیحدہ کالم کا تقاضا کرتی ہے۔ ایوب دور کے 22 خاندانوں میں سے گنتی کے دو چار ہی اپنے مقام پر بمشکل برقرار ہیں۔ ہر دس سال بعد سیاسی تبدیلیاں کئی خاندانوں کو خوشحال تو کئی کو بدحال کر دیتی ہیں۔ جنگ عظیم، تقسیم ہند، ایوب دور، سقوط ڈھاکہ، بھٹو کا صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا، افغان جنگ اور 9/11۔ بوسکی سے دھوتی بنیان میں آ جانا اور ٹیکسٹائل مل کے مالکان کی اولاد کو ٹھیلے لگاتے ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے۔ برادری میں بیس برسوں میں دینے اور لینے والے بدل چکے ہیں۔ پل کی خبر نہیں ہوتی اور نادان انسان گھمنڈ کرتا ہے کہ اس کے پاس ہے سامان سو برس کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں