بلیک ہول

اس میں اب دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اپنی نوعیت کی ایک ایسی جنگ جو اپنے خدوخال میں بہت مختلف ہے...


جاوید قاضی September 27, 2013
[email protected]

KARACHI: اس میں اب دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اپنی نوعیت کی ایک ایسی جنگ جو اپنے خدوخال میں بہت مختلف ہے۔ نہ یہ گوریلا جنگ کہی جا سکتی ہے نہ روایتی۔ دوسری طرف نہ یہ آزادی کی جنگ ہے نہ علیحدگی کی۔ کچھ کچھ خصلتیں اس کی خودکش سے ملتی ہیں۔ اپنے ہی لوگوں کا خون بہانا اور وہ بھی مذہب کے نام پر۔ ایک ایسی تشریح جو کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔ خودکش حملے بھی حلال، اغواء برائے تاوان بھی، لڑکیوں کی تعلیم بھی، ٹیپ ریکارڈ سننا بھی حرام اور داڑھی منڈوانا بھی، مسلکی اختلاف پر کفر کا فتویٰ۔ کوئی ہمارے مذہب کی جو چاہے جیسی چاہے تشریح کر سکتا ہے۔

نیویارک جاتے ہوئے ہم نے اپنے وزیر اعظم کو پشاور میں چرچ پر خودکش حملے کر کے معصوم بچوں، عورتوں، مردوں کو مار کر رخصت کیا۔ کس بوجھ سے گزرتے ہوں گے میاں صاحب، وہاں صرف سربراہان مملکت سے نہیں ملنا ہوتا اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے، وہ کرسچن دنیا ہے، مسیحیوں کے مرنے پر اور بھی غم و غصے میں ہو گی۔ یوں لگتا ہے پشاور کا بم دھماکہ نیویارک یاترا کو ناکام بنانے کا عمل تھا۔

APC کا مشترکہ اعلامیہ کسی زرد پتے کی مانند، خزاں کی خشک ہواؤں میں آوارگی کو چلا۔ بات چیت کے امکانات سے اب بات آگے نکل چلی۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد تو ہو گا۔ اور وہ بھی گھمسان کی جنگ۔ اس ریاست کے سب دشمن، علیحدگی پسند ہوں یا مذہبی شدت پسند، ایک ہو جائیں گے۔ اور پھر علماء اینکرز اور سیاستدان بھی بٹ جائیں گے۔

ایک تو میاں صاحب کے پاس وہ مینڈیٹ ہے جو زرداری صاحب کے پاس نہیں تھا۔ میڈیا بھی اب یہ نہیں کہتا کہ یہ ہماری جنگ نہیں۔ جب جرنیل شہید ہونا شروع ہو جائیں اور اس پر بڑے فخر سے وہ دشمن قبول بھی کریں کہ یہ کام انھوں نے کیا ہے۔ یوں سمجھیں کہ اب بہت دیر ہو چکی۔

ایک اندیشہ تھا کہ ان کے اندر بہت سے گروپ ہیں، جن کی آپس میں نہیں بنتی۔ لیکن پشاور کے واقعے کی ذمے داری بھی انھوں نے قبول کی۔ ان کے اندر کیا ہو رہا ہے اس کے ٹھوس شواہد نہیں لیکن پنجابی طالبان ان سے ٹوٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈرون حملوں نے غلط یا صحیح ان کی کمر توڑ دی ہے۔ ریاست پر قبضہ کرنے کی ان کی خواہش کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گی ۔ ایک ایسی ریاست جو ایٹمی طاقت ہے اور وہ بھی مسلمان ریاستوں میں اس حوالے سے واحد ریاست ہے۔ ایک ایسی ریاست جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے فخر کا باعث ہے۔ اس کو کمزور کر کے وہ کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟

اور اگر فرض کر لیجیے کہ وہ اس ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس ریاست کا بین الاقوامی طاقتیں وہ حشر کریں گی جو انھوں نے افغانستان کا کیا۔ خود پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیر المذہبی لوگوں کا ملک ہے ۔ کسی کو قتل و غارت کے ایجنڈے پر عمل کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کس آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ان کی سوچ، ان کا رویہ ان کی فکر سوائے کسی دلدل میں لے جانے کے جس کو ہم اسٹیفن ہاکنگ کی زبان میں Black Hole کہیں گے، اور کچھ بھی نہیں۔

دنیا میں ریاستیں ماڈرن سے ماڈرن ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا پھل بھی وہ اپنے لوگوں کو مفت تعلیم و مفت صحت کے روپ میں دے رہی ہیں۔ عورتوں کو پیداواری عمل کا حصہ بناتے ہوئے مجموعی پیداوار بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ اور ایک ہم ہیں جو سیکیورٹی ریاست کے فلسفے سے باہر نہیں نکلے۔ اب یہ تو گڑے مردے اکھاڑنے کے برابر ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ یہ ہمارا بویا ہوا ہے جو ہم اب کاٹ رہے ہیں۔ یہ وقت نہیں اب حرف وفا یا جفا یاد دلانے کا۔ یہ وقت ماتم کی گھڑی ہے ۔ آگے بڑھنا ہے۔ اپنی سوچ میں ایک جامع و تعمیری تبدیلی لانی ہے، کیونکہ ہمارا دشمن ہمارے لاشعور میں بھی رہتا ہے۔ یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا جس کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے آخر کار یہ مان لیا کہ DNA ٹیسٹ Primary شہادت ہو سکتی ہے اور جو بلا تصدیق غلط فتویٰ صادر کرے اس کی بھی سزائے موت ہونی چاہیے۔ سوڈان کے ایک بڑے اسکالر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اسلام اور ریاست کو الگ الگ کرنا پڑ جائے گا اگر نہیں کیا تو خود اس سے اسلام کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ جسٹس خواجہ نے حال ہی میں کسی ریسرچر کی کتاب کا حوالہ دے کر شاہ زیب کیس میں یہ کہا کہ اسلامی قوانین کا دنیا میں غلط استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس عمل کو روکنے کی ہے۔ ہمارے قائد اعظم نے کسی سے پوچھا کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ''ہمارے پیارے نبی کیا تھے، جو وہ تھے وہ میں ہوں۔''

ہماری تاریخ ڈیڑھ ہزار سال پر مبنی ہے۔ اس برصغیر میں اسلام اگر تلواروں سے آتا تو آج اسپین میں بھی مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ یہاں تلوار کے زور پر محمد بن قاسم مسلمانوں کی تاریخ کے ظالم ترین شخص حجاج بن یوسف کے حکم پر آئے تو سہی مگر یہ سترہ سالہ نوجوان بھی چھوٹی مدت میں یہاں سے رخصت ہوئے تو سندھ میں باقی 1000 سال ہندو راج رہا۔ وہ جا کر مرزا بیگ کے زمانے میں ٹوٹا۔ جب اکبر نے 1597ء میں سندھ فتح کیا تو اس وقت بھی اکثریت آبادی سندھ کی ہندوؤں پر مبنی تھی۔ خود پنجاب پر اور پشاور پر انگریز کے زمانے تک سکھوں کا راج رہا اور مغل ہوں یا اس سے پہلے کے مسلمان حکمران، انھوں نے صرف بزور شمشیر حاکمیت نہیں کی بلکہ ہر ایک کو اپنے مذہبی حوالے سے آزادی دی تھی۔ اکبر نے تو اس حوالے سے سارے اپنے سے پہلے ادوار کو پیچھے چھوڑ دیا تو جیسا انھوں نے مغل سلطنت کو مضبوط کیا ویسا تو کسی نے نہیں کیا۔

سندھ میں اسلام صوفی ولی لائے۔ وہ لوگوں میں گھل مل گئے ان میں ان جیسے ہو گئے۔ اور اس طرح محبت کی معرفت اسلام کا پرچار کیا۔ یہ وہ طریقت تھی جس کی بنیاد مولانا جلال الدین رومی نے ڈالی تھی۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس ملک میں سیکولر لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ جمعیت علماء اسلام خود ہندوستان میں پاکستان بننے سے پہلے سیکولر ہندوستان کی بات کرتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں جمعیت علما اسلام آج بھی سیکولرزم کی بات کرتی ہے۔ مولانا بھاشانی جیسا شخص جو پانچ وقت نماز پڑھتا تھا، متقی و پرہیز گار تھا وہ اپنے آپ کو سیکولر کہلاتا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد تو تھے ہی۔ حسرت موہانی کیوں بھلائے گئے؟

اس ملک کو واپس قائد اعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہو گا۔ وہ قائداعظم جو سیاسی طور پر پہلے بڑے کانگریسی تھے۔ پھر آہستہ آہستہ بدظن ہوئے اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن مانگا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی ابتر صورت حال ہے، جس شدید مفلسی میں کچی بستیوں میں ان کی بہت بڑی اکثریت رہتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے یہاں عیسائیوں کی حالت ہے۔ اس طرح سے وہ ہمیں ناکام ریاست دکھانا چاہتے ہیں تا کہ اقلیت کے ساتھ ان کا کیا ہوا حال چھپا رہے۔ اور دنیا ہمیں ہی کم تر ٹھہراتی رہے۔ اس کے لیے ہمیں کوئی دشمن پالنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اندر ہی اب ایسے لوگ رہتے ہیں۔ دشمن سے لڑنا آسان ہوتا ہے۔ مگر جب دوست کا نقاب اوڑھ کے دشمن بیٹھ جائے اس سے لڑنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

مسلمان صرف ایک فرقے کے لوگ نہیں بلکہ تمام فرقے جس کو ہمارے آئین میں مانا گیا ہے وہ مسلمان ہیں۔ ہمیں اپنے آئین کے دائرے میں رہنا ہے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 20 سب کچھ دیتا ہے جو ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 25 دیتا ہے۔ ضرورت اس حوالے سے کورٹ کی تشریح کی ہے۔ ضرورت آئین میں ترامیم کی بھی ہے تا کہ جو بگاڑ ضیاء الحق نے اس کا کیا ہے جس سے ابہام پیدا ہوتا ہے وہ ختم کیا جائے۔ ضرورت ریاست اور مذہب کو الگ کرنے کی ہے تا کہ ریاست سب کو ایک آنکھ سے دیکھ سکے۔ اداروں کو یہ کار منصبی یقینی بنانا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں