قائمہ کمیٹی کا 228 ارب روپے قرض معاف کرنے کی خبروں کا نوٹس
قائمہ کمیٹی نے ایف آئی اے اور گورنر اسٹیٹ بینک سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے 228 ارب روپے کے قرضے معاف کرنے کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے اور گورنر اسٹیٹ بینک سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک سے 228 ارب روپے کے قرضے معاف کرنے کی تفصیلات مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک بتائے کہ کن افراد کے قرضے معاف کئے گئے، جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے ان کی فہرست کمیٹی کو فراہم کی جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہت سے نادہندگان کے خلاف ایف آئی اے میں کیس چل رہے ہیں اس لیے جن نادہندگان کے خلاف ایف آئی اے تفتیش کر رہی ہے کیا ان کے قرضے بھی معاف کئے گئے، یہ بھی بتایا جائے کہ کس قانون اور معاہدے کے تحت حکومت نے قرضے معاف کئے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے سوالات اٹھائے کہ قرضہ بینک اور موکل کے درمیان کا معاملہ ہے پھر کیسے حکومت معاف کر سکتی ہے، ان قرضوں کے مد میں جو سیکورٹی جمع کی گئی تھی اس کا کیا فیصلہ کیا گیا، کیا 228 ارب روپے قرضہ ہے یا بمعہ سود واجب الادا رقم ہے، حیران کن بات ہے کہ حکومت کو واجب الادا 228 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک سے 228 ارب روپے کے قرضے معاف کرنے کی تفصیلات مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک بتائے کہ کن افراد کے قرضے معاف کئے گئے، جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے ان کی فہرست کمیٹی کو فراہم کی جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہت سے نادہندگان کے خلاف ایف آئی اے میں کیس چل رہے ہیں اس لیے جن نادہندگان کے خلاف ایف آئی اے تفتیش کر رہی ہے کیا ان کے قرضے بھی معاف کئے گئے، یہ بھی بتایا جائے کہ کس قانون اور معاہدے کے تحت حکومت نے قرضے معاف کئے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے سوالات اٹھائے کہ قرضہ بینک اور موکل کے درمیان کا معاملہ ہے پھر کیسے حکومت معاف کر سکتی ہے، ان قرضوں کے مد میں جو سیکورٹی جمع کی گئی تھی اس کا کیا فیصلہ کیا گیا، کیا 228 ارب روپے قرضہ ہے یا بمعہ سود واجب الادا رقم ہے، حیران کن بات ہے کہ حکومت کو واجب الادا 228 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔