بھارت کے مسلم دشمن اقدامات

بھارت کو دباؤ میں لا کر مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکے


Editorial September 02, 2019
بھارت کو دباؤ میں لا کر مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکے۔ فوٹو: فائل

او آئی سی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر ایک مرتبہ پھر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کا یک طرفہ اقدام قرار دیا ہے۔ او آئی سی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یو این او کی قراردادوں کے مطابق ہی ممکن ہے، او آئی سی کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کرفیو اٹھانے کا مطالبہ کرتی ہے، انٹرنیٹ، موبائل فون، لینڈ لائن سمیت دیگر سہولیات کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔

کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت پائیدار مذاکرات کریں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیئیں، مذاکرات کے ذریعے ہی خطے میں امن و استحکام قائم رہ سکتا ہے، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ہے،کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔

او آئی سی سربراہ اجلاس کے فیصلوں اور وزراء خارجہ کی کونسل کی جموں و کشمیر پر قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل سیکریٹری نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میںبھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کے تحت تقریباً 19 لاکھ افراد کو شہریت سے محروم کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات سے دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھنی چاہیئیں، کشمیر پر غیر قانونی قبضہ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

پاکستان بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد خطے میں جنم لینے والی صورت حال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچانے اور مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کر رہا ہے، مختلف ممالک کے رہنماؤں اور تنظیموں سے رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ بھارت کو دباؤ میں لا کر مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکے۔

پاکستان کی کوشش ہے کہ معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوں نہ کہ یہ بند گلی اور پوائنٹ آف نو ریٹرن پر آ پہنچیں جہاں جنگ کے سوا کوئی آپشن نہ بچے۔ اس حقیقت کا پاک بھارت دونوں حکومتوں کو ادراک ہے کہ جنگ انھیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گی اس کے بعد جنم لینے والے منظر کا تصور انتہائی ہولناک ہے۔

لیکن مودی سرکار جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اپناتے ہوئے روز کوئی نہ کوئی ایسا ایشو کھڑا کر دیتی ہے جس سے خطے میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد اب اس نے ہندوستان صرف ہندوؤں کا کی سوچ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تحت وہاں کے مسلمانوں کو ریاست بدر کرنے کے لیے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔

بھارتی حکام کے مطابق غیرقانونی بنگلہ دیشی مہاجرین کی شناخت کے لیے 25مارچ 1971کو ریاست میں آنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ 24مارچ 1971 یا اس سے پہلے آسام پہنچے تھے۔ این آر سی کے تحت ریاست کے 3کروڑ 29لاکھ افراد نے دستاویزات جمع کرائیں' جن میں سے 19لاکھ 6ہزار 657افراد کی شہریت منسوخ کرتے ہوئے انھیں غیرملکی قرار دیا گیا۔

جن میں اکثریت بنگلہ دیشی مسلمانوں کی ہے، جن سے اب زمینیں، ووٹ ڈالنے کا حق اور دیگر آزادیاں چھین کر حراستی مرکز میں قید یا ملک بدر کر دیا جائے گا، آسام کے شہریوں سے ان کے خاندانی سلسلے کی دستاویزات طلب کی گئیں جس میں ناکام ہونیوالوں کو غیرقانونی مہاجر شمار کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو عائد ہوئے تقریباً ایک ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اور وہاں کشمیریوں پرروا رکھے جانے والے بھارتی مظالم عالمی میڈیا کا ہاٹ ایشو بن چکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتیں اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے میں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتیں بھارت کو اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کے لیے دباؤ ڈالتیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دیتیں اور اسے مجبور کرتیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر کرفیو ختم کر کے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

لیکن اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ امریکا سمیت دیگر طاقت ور ممالک کے اس کے ساتھ دفاعی' تجارتی اور علاقائی مفادات وابستہ ہیں علاوہ ازیں وہ خود بھی ایک بڑی ایٹمی اور معاشی قوت ہے لہٰذا اسی زعم میں وہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں آباد مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات کر رہا ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں