برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی کیخلاف مظاہرے
بورس جانسن نے وعدہ کیا ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک ہر صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے گا
برطانوی دارالحکومت لندن اور درجن بھر دیگر شہروں میں نئے وزیراعظم بورس جانسن کے ملک کی پارلیمنٹ کو چند ہفتوں کے لیے معطل کرنے کے متنازعہ فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ اقدام بریگزٹ سے قبل اٹھایا گیا ہے۔
مظاہرین نے یورپی یونین (ای یو) کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور وزیراعظم ہاؤس ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر ''بورس جانسن شرم کرو'' کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ لندن کے مشہور زمانہ ٹرافالگر اسکوئر میں مظاہرین میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل تھیں جنہوں نے زمین پر بیٹھ کر دھرنا دیا۔ ان کے پیچھے پیلی جیکٹیںپہنے پولیس اہلکاروں کی قطار لگی تھی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق مظاہرین میں ایک چھیاسٹھ سالہ ادھیڑ عمر خاتون مایا ڈون بھی شامل تھی جس کا تعلق ہالینڈ سے تھا مگر وہ برطانیہ میں مقیم تھی۔
اس خاتون کا کہنا تھا کہ جو یہاں ہو رہا ہے میں اس سے مکمل طور پر کبیدہ خاطر Disgusted ہوں۔ مایا کا مزید کہنا تھا کہ جانسن بورس پر کوئی بھی اعتبار نہیں کر سکتا نہ اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بورس جانسن کے مخالفین پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے اس اقدام کے خلاف عدالت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ واضح رہے بورس جانسن نے وسط ستمبر سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس دوران برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کا قانون منظور کیا جانا مطلوب ہے۔
بورس جانسن نے وعدہ کیا ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک ہر صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ بورس جانسن کی طرف سے پارلیمنٹ کی معطلی کو اس کے مخالفین کی حکومت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ لندن میں احتجاجی مظاہرین نے وہائٹ ہال سے ویسٹ منسٹر کی طرف مارچ کیا۔
وہائٹ ہال کے باہر اپوزیشن رہنماؤں نے مظاہرین سے خطاب بھی کیا۔ اس دوران مظاہرین ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ''بورس جانسن کو روکو'' بعض پلے کارڈز پر ہاتھ سے لکھا تھا جمہوریت کا دفاع کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی معطلی کو روکا جائے ''یو کے جاگو اور ویل کم جرمنی 1933۔ باور کیا جاتا ہے کہ لندن میں مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر ایک لاکھ افراد کے لگ بھگ تھی۔ مظاہرین برطانیہ کے تقریباً تمام شہروں میں جمع ہو رہے تھے۔
مظاہرین نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو اور ایڈنبرا میں بھی ریلیاں نکالیں جبکہ شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ انگلینڈ میں کوئی بھی ڈکٹیٹر شپ نہیں چاہتا جبکہ بریگزٹ نے زندگی میں پہلی بار امید جگائی تھی۔ بہرحال برطانیہ میں بورس جانسن کے فیصلے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے۔
مظاہرین نے یورپی یونین (ای یو) کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور وزیراعظم ہاؤس ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر ''بورس جانسن شرم کرو'' کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ لندن کے مشہور زمانہ ٹرافالگر اسکوئر میں مظاہرین میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل تھیں جنہوں نے زمین پر بیٹھ کر دھرنا دیا۔ ان کے پیچھے پیلی جیکٹیںپہنے پولیس اہلکاروں کی قطار لگی تھی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق مظاہرین میں ایک چھیاسٹھ سالہ ادھیڑ عمر خاتون مایا ڈون بھی شامل تھی جس کا تعلق ہالینڈ سے تھا مگر وہ برطانیہ میں مقیم تھی۔
اس خاتون کا کہنا تھا کہ جو یہاں ہو رہا ہے میں اس سے مکمل طور پر کبیدہ خاطر Disgusted ہوں۔ مایا کا مزید کہنا تھا کہ جانسن بورس پر کوئی بھی اعتبار نہیں کر سکتا نہ اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بورس جانسن کے مخالفین پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے اس اقدام کے خلاف عدالت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ واضح رہے بورس جانسن نے وسط ستمبر سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس دوران برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کا قانون منظور کیا جانا مطلوب ہے۔
بورس جانسن نے وعدہ کیا ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک ہر صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ بورس جانسن کی طرف سے پارلیمنٹ کی معطلی کو اس کے مخالفین کی حکومت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ لندن میں احتجاجی مظاہرین نے وہائٹ ہال سے ویسٹ منسٹر کی طرف مارچ کیا۔
وہائٹ ہال کے باہر اپوزیشن رہنماؤں نے مظاہرین سے خطاب بھی کیا۔ اس دوران مظاہرین ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ''بورس جانسن کو روکو'' بعض پلے کارڈز پر ہاتھ سے لکھا تھا جمہوریت کا دفاع کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی معطلی کو روکا جائے ''یو کے جاگو اور ویل کم جرمنی 1933۔ باور کیا جاتا ہے کہ لندن میں مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر ایک لاکھ افراد کے لگ بھگ تھی۔ مظاہرین برطانیہ کے تقریباً تمام شہروں میں جمع ہو رہے تھے۔
مظاہرین نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو اور ایڈنبرا میں بھی ریلیاں نکالیں جبکہ شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ انگلینڈ میں کوئی بھی ڈکٹیٹر شپ نہیں چاہتا جبکہ بریگزٹ نے زندگی میں پہلی بار امید جگائی تھی۔ بہرحال برطانیہ میں بورس جانسن کے فیصلے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے۔