ماڈرنزم اور بنیادپرستی
ماڈرنزم کے پیروکار ایک ایسی ریس کا حصہ ہیں جس کا ربن وہ کبھی بھی عبور نہیں کرسکیں گے
ISLAMABAD:
''میں فیس بک کبھی کبھار استعمال کرتا ہوں۔ بہت سال پہلے فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تھا اور ابھی تک وہی استعمال کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار اپنی ضرورت کے پیش نظر، میں اپنے موبائل میں ایپ کے طور پر اسے استعمال نہیں کرتا''۔ میں نے اسے جواب دیا۔ ''پھر تو آپ میسنجر اور واٹس ایپ بھی استعمال نہیں کرتے ہوں گے؟'' اس نے مجھ سے پوچھا۔ ''میں ضرورتاً واٹس ایپ استعمال کرتا ہوں لیکن میسنجر میرے پاس نہیں ہے''۔ میں نے پھر جواب دیا۔
''لیکن ہم لوگ تو میسنجر، انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ سب کے یوزر ہیں اور دل کھول کر ان پر گپیں بھی لگاتے ہیں''۔ اس نے ہنستے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے دوست کو تالی دی۔ وہ دونوں لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے۔ ''بلکہ اب یہ ایپس تو کافی اولڈ ہوچکیں اور فیس بک تو ہینگ بھی ہونے لگی ہے، اس لیے اب ہم پن ٹریسٹ اور ٹنڈر زیادہ یوز کرتے ہیں۔ ان سب پر فری اکاؤنٹ بناتے ہیں اور دن رات یہ جا، وہ جا''۔ نوجوان نے بات جاری رکھی۔
''لیکن مجھے تو یہ معلوم ہے کہ دنیا میں کچھ بھی فری نہیں، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ سوشل میڈیا کمپنیاں یا کوئی بھی دوسری ایپس اپنی قیمت اپنے یوزرز سے لے لیتی ہیں''۔ میں نے آہستگی سے جواب دیا۔ ''وہ قیمت کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے، جیسے آپ کا ڈیٹا استعمال کرکے یا آپ کے پسند کے ایڈز آپ کو دکھاکر۔'' میں نے مزید وضاحت کی۔
''لیکن بھائی جان اب دنیا بہت بدل گئی ہے۔ یہ پرانی سوچ ہے۔ ماڈرن دور کا تقاضا ہے کہ ہم ماڈرن دور کے ساتھ چلیں''۔ اس نے چبھتا ہوا جواب دیا۔
''لیکن میں نے استعمال نہ کرنے کی تو کوئی بات نہیں کی۔'' میں نے اسے چڑنے سے بچانے کےلیے جواب دیا۔ ''میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہمیں ہر چیز کو اپنی ضرورت اور مناسب احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، نہ کہ ہم ماڈرن ایپس سے اپنے آپ کو بہت جدید اور باعلم ثابت کرتے رہیں''۔
''دیکھیں، پہلے ہم انٹرٹینمنٹ کےلیے ٹی وی اور تھیٹر وغیرہ کو ہی آخری سورس سمجھتے تھے، لیکن اب انٹرٹینمنٹ کو یوٹیوب اور نیٹ فلیکس نے ایک اور ہی لیول پر پہنچا دیا ہے۔ اب ہم پلک جھپکتے میں اپنی پسندیدہ سیریز کو سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں اور اب تو مختلف طرح کی جائنٹ وینچرز ہورہی ہیں، جس سے دنیا میں مختلف اسمارٹ سٹیز بنائے جارہے ہیں''۔ اس نے اپنی وضاحت پیش کی۔
''میں اسمارٹ سٹیز کے خلاف نہیں ہوں، لیکن میں اس ماڈرنزم کی بات کررہا ہوں، جس سے انسان کا ذہن اپنی سوچ سوچنے کے بجائے، کسی اور کا غلام بن کر رہ جاتا ہے''۔ اس کے بعد میں نے اس سے بات کا ٹاپک تبدیل کرلیا۔
ماڈرنزم کیا ہے؟ یہ کہاں سے نکل رہی ہے؟ اور ہم یہ سب کس کو دکھانے کےلیے کررہے ہیں؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ آئی فون کا موبائل، ارمانی کا سوٹ، گوچی کے جوتے اور کم ازکم اوڈی کی گاڑی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے شوق سے پراڈا یا رے بین کی عینک لگانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیوں؟ ایسی سوچ کس لیے؟ کیا ہماری زندگی کا صرف یہی مقصد ہے؟ کیا ہم اس لیے پیدا ہوئے؟ اس وقت کیا ہوگا جب ہم پاکستان، سعودی عرب، یورپ یا افریقہ کے کسی قبرستان میں پڑے ہوں گے تو یہ سب برانڈز اور ان کی ماڈرنزم مل کر ہمیں بچالے گی؟ لیکن ہم میڈیا کی بوچھاڑ، مارکیٹنگ اسٹریٹجز اور زیادہ پیسے بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ شائد ہمیں اس بات کا ہوش ہی نہیں ہے۔ پانچ مرلے کا گھر بنایا تو دس کا چاہیے، دس کا بنایا تو ایک کنال کا چاہیے اور اگر کنال کا ہو تو ایک آدھ فارم ہائوس بھی ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسی دوڑ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ماڈرنزم کے پیروکاروں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ایسا سوچیں اور نہ انہیں سوچنے کا موقع دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی ریس کا حصہ ہیں جس کا ربن وہ کبھی بھی عبور نہیں کرسکیں گے۔
قرآن کہتا ہے ''اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں، تاکہ انہیں اس میں آزمالیں۔ تیرے رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے''۔ (طٰہٰ 131)
اگر ایک چھوٹی سی پروڈکٹ شیمپو کو ہی لیں تو خشکی کےلیے ایک شیمپو، بال گرنے کا الگ، بال لمبے کرنے کا الگ، بالوں میں چمک لانے کےلیے الگ اور باقی اس کی ایک لمبی سیریز ہے۔ انہیں اتنی چوائس دے دی گئی ہیں کہ وہ اسی سوچ میں مگن ہیں کہ آئی فون کا نیا ماڈل آگیا، اب اسے اپ ڈیٹ کرنا ہے اور میں بہت لوئل کسٹمر ہوں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ برانڈ لوئل ہیں اور مرتے دم تک کمپنی کے وفادار رہیں گے۔ وہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ تن آسانی اور انٹرٹینمنٹ کا نام دے کر ان کے دماغوں کو غلام بنانے کی ایک کامیا ب کوشش ہے۔ انہیں ایک ایسے بادبان سے باندھا گیا ہے جو ان کی کشتی کو اپنی مرضی سے چلارہا ہے۔ جبکہ وہ نادان سمجھ رہے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اپنی سوچ میں۔ وہ وہی دیکھ رہے ہیں جو سامنے والا انہیں دکھانا چاہ رہا ہے۔
ماڈرنزم مادہ پرستانہ نظام، بحروف دیگر سرمایہ دارانہ نظام کی بچھائی گئی ایک بساط ہے۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر یورپ میں حجاب اور داڑھی گناہ بنی۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر عورت کے یورپ میں حقوق سلب ہوئے۔ اسی کی بنیاد پر یورپ میں عورت کے کپڑے کم ہوتے گئے۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر ایک مسلمان بنیادپرست بنا، کیونکہ ان کے مطابق وہ آج کی ماڈرن ترجیحات کی طرز پر اپنے آپ کو ڈھال نہیں سکتا۔ وہ ایک ایسے عقیدے پر قائم ہے جو آج سے چودہ سو سال پرانا ہے اور موجودہ ماڈرنزم کے عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وہ کہتے ہیں، ہمیں دیکھو ہم نے اپنی آسمانی کتابیں تک بدل ڈالی ہیں، دین کو سیاست سے اکھاڑ پھینکا، اپنے تجارتی جہازوں کو ایشیا اور افریقہ میں بھر بھر کر بھیج رہے اور بیچ رہے۔ لاس اینجلس میں دنیا کا سب سے بڑا فحاشی کا اڈا بنا ڈالا، ہوائی میں جوئے کی انڈسٹری بنالی، ہمارے لوگ آزاد ہیں، اپنی ہی جنس سے شادی کرتے ہیں، ہماری آبادی کنٹرولڈ ہے۔ ایک طرف ایشیا اور افریقہ کو اپنے پراڈکٹس کا لنڈا بنایا ہوا، دوسری طرف یہاں ہم نے سب کو لڑوایا ہوا ہے۔ اب اپنا جنگی سامان بھی تو کسی کو بیچنا ہے۔ سعودی عرب کو ایران سے، پاکستان کو انڈیا سے، جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے، تائیوان کو چین سے۔ یہ آپس میں لڑیں گے نہیں تو ہمارے جنگی جہاز کون خریدے گا؟ یہ علاقے پرامن ہوگئے تو ترقی کریں گے اور اپنا سامان بھی خود بنائیں گے۔ ہماری تجارت تو بیٹھ جائے گی۔ اوپر سے تعلیمی نظام ایسا بنادیا ہے کہ یونیورسٹیوں سے صرف امریکی کلرک نکلے گا۔ یہ اپنی مارکیٹ میں انٹیل اور جنرل موٹرز کے کیس اسٹڈیز پڑھاتے رہیں گے۔
یہ ماڈرنزم ہی تھا جس کے تحت انہوں نے سوچا کہ یہ پگڑیوں والے کیا حکومت چلائیں گے، بلکہ یہ تو اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ اس لیے انہیں کھلا چھوڑدو اور صرف تماشا دیکھو۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو اسی ماڈرنزم نے ان سے 2001 میں افغانستان پر حملہ کروایا، تاکہ بنیادپرستی کا ہمیشہ کےلیے خاتمہ کردیا جائے۔ لیکن انہیں کیا معلوم کہ یہ ان کے گلے کی ہڈی انہیں ابکائی کرنے پر مجبور کردے گی۔ ان کے پاس نہ تو ماڈرن جنگی جہاز تھے، نہ ماڈرن جی پی ایس سسٹم اور نہ ماڈرن قسم کے بم۔ وہ جو بنیادپرست تھے، انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت اور اپنے زور بازو پر ماڈرنزم کی بازی انہی پر پلٹ کر رکھ دی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''میں فیس بک کبھی کبھار استعمال کرتا ہوں۔ بہت سال پہلے فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تھا اور ابھی تک وہی استعمال کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار اپنی ضرورت کے پیش نظر، میں اپنے موبائل میں ایپ کے طور پر اسے استعمال نہیں کرتا''۔ میں نے اسے جواب دیا۔ ''پھر تو آپ میسنجر اور واٹس ایپ بھی استعمال نہیں کرتے ہوں گے؟'' اس نے مجھ سے پوچھا۔ ''میں ضرورتاً واٹس ایپ استعمال کرتا ہوں لیکن میسنجر میرے پاس نہیں ہے''۔ میں نے پھر جواب دیا۔
''لیکن ہم لوگ تو میسنجر، انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ سب کے یوزر ہیں اور دل کھول کر ان پر گپیں بھی لگاتے ہیں''۔ اس نے ہنستے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے دوست کو تالی دی۔ وہ دونوں لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے۔ ''بلکہ اب یہ ایپس تو کافی اولڈ ہوچکیں اور فیس بک تو ہینگ بھی ہونے لگی ہے، اس لیے اب ہم پن ٹریسٹ اور ٹنڈر زیادہ یوز کرتے ہیں۔ ان سب پر فری اکاؤنٹ بناتے ہیں اور دن رات یہ جا، وہ جا''۔ نوجوان نے بات جاری رکھی۔
''لیکن مجھے تو یہ معلوم ہے کہ دنیا میں کچھ بھی فری نہیں، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ سوشل میڈیا کمپنیاں یا کوئی بھی دوسری ایپس اپنی قیمت اپنے یوزرز سے لے لیتی ہیں''۔ میں نے آہستگی سے جواب دیا۔ ''وہ قیمت کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے، جیسے آپ کا ڈیٹا استعمال کرکے یا آپ کے پسند کے ایڈز آپ کو دکھاکر۔'' میں نے مزید وضاحت کی۔
''لیکن بھائی جان اب دنیا بہت بدل گئی ہے۔ یہ پرانی سوچ ہے۔ ماڈرن دور کا تقاضا ہے کہ ہم ماڈرن دور کے ساتھ چلیں''۔ اس نے چبھتا ہوا جواب دیا۔
''لیکن میں نے استعمال نہ کرنے کی تو کوئی بات نہیں کی۔'' میں نے اسے چڑنے سے بچانے کےلیے جواب دیا۔ ''میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہمیں ہر چیز کو اپنی ضرورت اور مناسب احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، نہ کہ ہم ماڈرن ایپس سے اپنے آپ کو بہت جدید اور باعلم ثابت کرتے رہیں''۔
''دیکھیں، پہلے ہم انٹرٹینمنٹ کےلیے ٹی وی اور تھیٹر وغیرہ کو ہی آخری سورس سمجھتے تھے، لیکن اب انٹرٹینمنٹ کو یوٹیوب اور نیٹ فلیکس نے ایک اور ہی لیول پر پہنچا دیا ہے۔ اب ہم پلک جھپکتے میں اپنی پسندیدہ سیریز کو سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں اور اب تو مختلف طرح کی جائنٹ وینچرز ہورہی ہیں، جس سے دنیا میں مختلف اسمارٹ سٹیز بنائے جارہے ہیں''۔ اس نے اپنی وضاحت پیش کی۔
''میں اسمارٹ سٹیز کے خلاف نہیں ہوں، لیکن میں اس ماڈرنزم کی بات کررہا ہوں، جس سے انسان کا ذہن اپنی سوچ سوچنے کے بجائے، کسی اور کا غلام بن کر رہ جاتا ہے''۔ اس کے بعد میں نے اس سے بات کا ٹاپک تبدیل کرلیا۔
ماڈرنزم کیا ہے؟ یہ کہاں سے نکل رہی ہے؟ اور ہم یہ سب کس کو دکھانے کےلیے کررہے ہیں؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ آئی فون کا موبائل، ارمانی کا سوٹ، گوچی کے جوتے اور کم ازکم اوڈی کی گاڑی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے شوق سے پراڈا یا رے بین کی عینک لگانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیوں؟ ایسی سوچ کس لیے؟ کیا ہماری زندگی کا صرف یہی مقصد ہے؟ کیا ہم اس لیے پیدا ہوئے؟ اس وقت کیا ہوگا جب ہم پاکستان، سعودی عرب، یورپ یا افریقہ کے کسی قبرستان میں پڑے ہوں گے تو یہ سب برانڈز اور ان کی ماڈرنزم مل کر ہمیں بچالے گی؟ لیکن ہم میڈیا کی بوچھاڑ، مارکیٹنگ اسٹریٹجز اور زیادہ پیسے بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ شائد ہمیں اس بات کا ہوش ہی نہیں ہے۔ پانچ مرلے کا گھر بنایا تو دس کا چاہیے، دس کا بنایا تو ایک کنال کا چاہیے اور اگر کنال کا ہو تو ایک آدھ فارم ہائوس بھی ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسی دوڑ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ماڈرنزم کے پیروکاروں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ایسا سوچیں اور نہ انہیں سوچنے کا موقع دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی ریس کا حصہ ہیں جس کا ربن وہ کبھی بھی عبور نہیں کرسکیں گے۔
قرآن کہتا ہے ''اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں، تاکہ انہیں اس میں آزمالیں۔ تیرے رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے''۔ (طٰہٰ 131)
اگر ایک چھوٹی سی پروڈکٹ شیمپو کو ہی لیں تو خشکی کےلیے ایک شیمپو، بال گرنے کا الگ، بال لمبے کرنے کا الگ، بالوں میں چمک لانے کےلیے الگ اور باقی اس کی ایک لمبی سیریز ہے۔ انہیں اتنی چوائس دے دی گئی ہیں کہ وہ اسی سوچ میں مگن ہیں کہ آئی فون کا نیا ماڈل آگیا، اب اسے اپ ڈیٹ کرنا ہے اور میں بہت لوئل کسٹمر ہوں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ برانڈ لوئل ہیں اور مرتے دم تک کمپنی کے وفادار رہیں گے۔ وہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ تن آسانی اور انٹرٹینمنٹ کا نام دے کر ان کے دماغوں کو غلام بنانے کی ایک کامیا ب کوشش ہے۔ انہیں ایک ایسے بادبان سے باندھا گیا ہے جو ان کی کشتی کو اپنی مرضی سے چلارہا ہے۔ جبکہ وہ نادان سمجھ رہے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اپنی سوچ میں۔ وہ وہی دیکھ رہے ہیں جو سامنے والا انہیں دکھانا چاہ رہا ہے۔
ماڈرنزم مادہ پرستانہ نظام، بحروف دیگر سرمایہ دارانہ نظام کی بچھائی گئی ایک بساط ہے۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر یورپ میں حجاب اور داڑھی گناہ بنی۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر عورت کے یورپ میں حقوق سلب ہوئے۔ اسی کی بنیاد پر یورپ میں عورت کے کپڑے کم ہوتے گئے۔ اسی ماڈرنزم کی بنیاد پر ایک مسلمان بنیادپرست بنا، کیونکہ ان کے مطابق وہ آج کی ماڈرن ترجیحات کی طرز پر اپنے آپ کو ڈھال نہیں سکتا۔ وہ ایک ایسے عقیدے پر قائم ہے جو آج سے چودہ سو سال پرانا ہے اور موجودہ ماڈرنزم کے عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وہ کہتے ہیں، ہمیں دیکھو ہم نے اپنی آسمانی کتابیں تک بدل ڈالی ہیں، دین کو سیاست سے اکھاڑ پھینکا، اپنے تجارتی جہازوں کو ایشیا اور افریقہ میں بھر بھر کر بھیج رہے اور بیچ رہے۔ لاس اینجلس میں دنیا کا سب سے بڑا فحاشی کا اڈا بنا ڈالا، ہوائی میں جوئے کی انڈسٹری بنالی، ہمارے لوگ آزاد ہیں، اپنی ہی جنس سے شادی کرتے ہیں، ہماری آبادی کنٹرولڈ ہے۔ ایک طرف ایشیا اور افریقہ کو اپنے پراڈکٹس کا لنڈا بنایا ہوا، دوسری طرف یہاں ہم نے سب کو لڑوایا ہوا ہے۔ اب اپنا جنگی سامان بھی تو کسی کو بیچنا ہے۔ سعودی عرب کو ایران سے، پاکستان کو انڈیا سے، جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے، تائیوان کو چین سے۔ یہ آپس میں لڑیں گے نہیں تو ہمارے جنگی جہاز کون خریدے گا؟ یہ علاقے پرامن ہوگئے تو ترقی کریں گے اور اپنا سامان بھی خود بنائیں گے۔ ہماری تجارت تو بیٹھ جائے گی۔ اوپر سے تعلیمی نظام ایسا بنادیا ہے کہ یونیورسٹیوں سے صرف امریکی کلرک نکلے گا۔ یہ اپنی مارکیٹ میں انٹیل اور جنرل موٹرز کے کیس اسٹڈیز پڑھاتے رہیں گے۔
یہ ماڈرنزم ہی تھا جس کے تحت انہوں نے سوچا کہ یہ پگڑیوں والے کیا حکومت چلائیں گے، بلکہ یہ تو اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ اس لیے انہیں کھلا چھوڑدو اور صرف تماشا دیکھو۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو اسی ماڈرنزم نے ان سے 2001 میں افغانستان پر حملہ کروایا، تاکہ بنیادپرستی کا ہمیشہ کےلیے خاتمہ کردیا جائے۔ لیکن انہیں کیا معلوم کہ یہ ان کے گلے کی ہڈی انہیں ابکائی کرنے پر مجبور کردے گی۔ ان کے پاس نہ تو ماڈرن جنگی جہاز تھے، نہ ماڈرن جی پی ایس سسٹم اور نہ ماڈرن قسم کے بم۔ وہ جو بنیادپرست تھے، انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت اور اپنے زور بازو پر ماڈرنزم کی بازی انہی پر پلٹ کر رکھ دی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔