جمہوریت کی پھٹی ہوئی چادر
وزیر اعظم منموہن سنگھ کے استعفے کے مطالبے نے کانگریس کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے
آسام اب کسی بھی دن میڈیا کی سب سے بڑی سرخی بننے والا ہے کسی اگلے دن ممبئی بھی شہ سرخی بن جائے گا۔ اور سب سے بڑی خبر پارلیمنٹ کے غیر فعال ہو جانے کی ہے جس کا یومیہ خرچہ ایک کروڑ روپے ہے۔ یہ منظرنامہ اس بات کا اشارہ کر رہا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے جو سیاسی افہام و تفہیم ضروری ہے اس کی درستگی بھی ممکن نہیں رہی۔ امن و امان قائم کرنے والی مشینری ٹوٹ پھوٹ چکی ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے ٹانکے ادھڑ رہے ہیں۔
سب سے زیادہ قصور بی جے پی کا ہے جو صورتحال کو اس نہج پر لے آئی ہے جہاں وسط مدتی انتخابات کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نظر نہیں آتا۔ ان کی طرف سے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے استعفے کے مطالبے نے کانگریس کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ 148 لاکھ کروڑ روپے کے کوئلے کے ذخائر کے گھپلے علامت ہیں اصل بیماری نہیں۔ بیماری کی جڑ بی جے پی کا یہ احساس ہے کہ ان کے لیے ملک میں انتخابات کا سب سے بہترین وقت یہی ہے۔ کانگریس کی دو اتحادی جماعتیں، مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی ترینمول کانگریس اور یو پی میں ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی، یہ دونوں بالآخر وسط مدتی انتخابات پر متفق ہو گئی ہیں۔
دونوں نے اپنی ریاستوں میں اکثریت کے ساتھ انتخابی کامیابی حاصل کی ہے اور دونوں لوک سبھا میں حکمران کانگریس کی اکثریت کے لیے تقویت فراہم کرتی ہیں۔ اس سال کے اواخر میں گجرات' ہماچل پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں جو شمال مشرق میں واقع ہیں، انتخابات ہونگے اور ممکن ہے اس سے بھی وسط مدتی عام انتخابات کے انعقاد کو تحریک ملے۔ وزیر اعلیٰ نریندرا مودی اپنی ریاست میں جیتتے دکھائی دیتے ہیں تاہم عام انتخابات میں ابھی 20 مہینے پڑے ہیں۔ بی جے پی پہلے ہی فرقہ پرستی کے حربے کو استعمال کر چکی ہے اور اس کی سرپرست آر ایس ایس نے تمام بنگالیوں کو نکال باہر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔ بعض بنیاد پرست مسلمان بھی اس معرکے میں کود پڑے ہیں ۔ نسل پرستی اور فرقہ واریت کی فضا بی جے پی کی دلی مسرت کا باعث ہے۔
اس کا 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میں کانگریس کی کامیابی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے اورملک کی فضا اور زیادہ مکدر ہو سکتی ہے چنانچہ اگر اب تک جمہوری سیاست کی عمارت مکمل طور پر منہدم نہیں ہوئی تو اس کا سہرا عوام کے سر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حالات بالآخر بہتر ہو جائیں گے۔ سیاست دان بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انھوں نے پڑوسی ممالک سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا کہ جنہیں جب بھی چیلنج کیا گیا انھوں نے ایک طرف طاقتور قوتوں سے سمجھوتہ کیا دوسری طرف بنیاد پرستوں اور عسکریت پسندوں سے بھی ربط منقطع نہ کیا۔ کانگریس اور بی جے پی، 2014ء کے الیکشن سے قبل جس قدر وسعت پذیری اختیار کر سکتی ہیں اس کے لیے ان کی کوششیں قابل فہم ہیں لیکن اس عمل کے دوران وہ ملک کو جس قدر نقصان پہنچا رہی ہیں اس کا انھیں کوئی ادراک نہیں۔
وہ درحقیقت ہر اصول، ہر قاعدے، ہر قانون اور تمام اقدار کو، جو معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں، تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر عوام دونوں پارٹیوں کی جانب سے شکوک کا شکار ہو گئے ہیں۔آسام ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے تمام سیاسی پارٹیاں اور فعال کارکن باہم مل کر حل کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ کانگریس اپنا ''میں سب جانتی ہوں'' والا طرز عمل ترک کر دے۔ ممبئی میں امن و امان کا مسئلہ ہے لیکن کانگریس حکومت اس قدر بے بس ہے کہ ہندو انتہا پرستوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی ۔ عوام بھی کرپشن سے کسی حد تک مانوس ہو گئے ہیں، جس میں دونوں پارٹیوں نے اپنے دور اقتدار میں خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ اس میدان میں کانگریس نے بی جے پی کو مات دیدی ہے۔
کوئلے کے ذخائر کا اسکینڈل اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کوئلے کے بلاکوں کو جس طرح الاٹ کیا گیا اس کا مقصد ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا تھا جنہوں نے حکمرانوں کو مفاد پہنچایا تھا۔ سکریننگ کمیٹی کے منٹس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ کوئلے کے بلاک ان لوگوں کو بھی الاٹ کر دیے گئے جنہوں نے درخواست تک نہیں دی تھی۔کانگریس کی سرکردگی میں چلنے والی حکومت نے 148 لاکھ کروڑ کے اس اسکینڈل کی محض نیم دلی سے مدافعت کی۔ اس کی دلیل ہے کہ اس سے قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ حکومت نے یہی موقف اختیار کیا تھا جب 180 لاکھ کروڑ کا ''ٹو جی سپکٹرم'' کا اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔ اس کا انکشاف کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) آف انڈیا نے سپریم کورٹ میں کیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے حکومت کو اس کا اعادہ نہ کرنے کی تنبیہہ کر کے اس کے موقف کو مسترد کر دیا تھا۔
آخر وزیر خزانہ پی چدمبرم کس برتے پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا جب ڈیڑھ سو سے زائد پارٹیوں کو کوئلے کے بلاک الاٹ کر دیے گئے؟ انھوں نے بھلے خود سے یہ کوئلہ کھود کر نہ نکالا ہو مگر یہ ان کا اثاثہ تھا۔ اور اس کے بعد ان کے اکاونٹس میں یکلخت کروڑوں روپے کا اضافہ ہو گیا۔وزیر اعظم کے بیان میں سی اے جی کی رپورٹ پر اعتراضات کیے گئے ہیں مگر وہ الاٹمنٹ کے طریق کار کی وضاحت نہیں کر سکے یہ الاٹمنٹیں اس وقت ہوئیں جب وہ خود انچارج وزیر تھے۔انا ہزارے کی تحریک، جس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ متذکرہ دو پارٹیوں کے متبادل قیادت مہیا کرے گی، وہ اپنی قدر کھو چکی ہے اور نکسلائٹ (نکسل باڑیوں) کا ایک اور گروپ بن گئی ہے۔ نعرے تو بہت بلند آہنگ ہیں مگر ان کا انداز Nihilists کا سا ہے جو اپنے ارد گرد کی ہر شے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عوام ایک منضبط تبدیلی چاہتے ہیں اور ان ہستیوں کا احترام کرتے ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں اور اس کے لیے دکھ اٹھائے۔جو تیسرا متبادل ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی پیش کر رہی ہے وہ بھی کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ایسے سیاستدانوں کا ایک ڈھونگ ہے جو مسلسل اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ان میں بہار کے لالو پرشاد یادیو سمیت دیگر لیڈروں نے جے پرکاش نارائن کی تحریک کے تناظر میں اپنی حکومتوں کی ظاہری شکل تبدیل کر ڈالی تھی حالانکہ جے پی کی تحریک مکمل انقلاب کی نوید تھی۔ لیکن اس کے نام پر دھوکہ کیا گیا۔حکمرانوں کی ان ہی کوتاہیوں سے بھارت پاش پاش ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس کا جمہوری ڈھانچہ جا بجا شکستہ ہو رہا ہے۔ اس کی چادر پھٹ رہی ہے۔ اس کی دھجیاں بکھر رہی ہیں۔ ہندو اور مسلمان بنیاد پرست دونوں آستینیں چڑھائے نفرت اور انتقام کی سیاست کی آبیاری کر رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وزیر صحت غلام نبی آزاد صفدر جنگ کی یادگار میں نماز ادا کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے جس کے گرد سخت سیکیورٹی کا پہرا تھا۔ کیا اس کا مقصد اس قسم کی 31 محفوظ یادگاروں پر قبضہ کرنا تو نہیں تھا؟ کاش وہ ان مساجد کی طرف اپنی توجہ مبذول کر سکتے جن کی خستگی اور فرسودگی انھیں امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔
(تلخیص و ترجمہ: مظہر منہاس)